کرونا وبا کی اصلیت(دوسری،آخری قسط)۔۔مونا شہزاد

25 نومبر 2019 کی ایک سرد شام تھی۔فین لی نے اپنی کشتی واپس ووہان کی گودی کی طرف موڑتے ہوئے سوچا :
“طبیعت کبھی پہلے تو ایسی مضحمل نہیں ہوئی تھی۔”
اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا ۔درد کی لہریں اسے بیحال کررہی تھیں ۔وہ مشکل سے گودی تک پہنچی۔ اس کا سانس اب دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے تیز بخار چڑھ چکا تھا۔ اس کا جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا تھا ۔ اس نے مشکل سے اپنی کشتی کو باندھا ، وہ کشتی سے نکلتے ہی تیورا کر گری اور بیہوش ہوگئی۔گودی میں ہلچل مچ گئی۔ آج صبح سے یہ تیسرا کیس تھا۔مچھیرے ساحل کی طرف بیمار ہو کر آرہے تھے ۔ ان کی بیماری کی وجہ نا معلوم تھی۔ اس کے ساتھی اسے اٹھا کر قریبی ہیلتھ سینٹر لے گئے۔ ڈاکٹر لوئی چن ابھی بھی ڈیوٹی پر تھا۔ اس نے تشویش سے فین لی کی جانب دیکھا۔ صبح سے یہ تیسرا کیس تھا جو گودی سے اس کے پاس لایا گیا تھا ۔تمام کیسز کی علامات ملتی جلتی تھیں ۔اس نے تیسرا کیس آتے ہی اسے فورا ہائی اتھارٹی کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس نے خود بھی ماسک اور گلووز پہن لیے اور اپنے عملے کو بھی ہدایات جاری کردیں۔اس کے ذہن میں وبا کا خوف منڈلا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ انفلوئنزا نظر آنے والا مرض اس سے کچھ مختلف تھا۔ اسے سپینش فلو سے ہونے والی تباہی یاد تھی ۔ اس نے تمام مریضوں کے خون کے samples لیے اور اپنے ماتحت زنگ چن لی کو اس کے خواص معلوم کرنے کو کہا ۔ شام تک تین مریضوں میں سے ایک کی حالت بگڑ گئی۔ اس کے پھیپھڑے جواب دے گئے۔ ڈاکٹر لوئی چن کی کشادہ پیشانی پر سلوٹیں آگئیں اس نے کبھی انفلوئنزا کے مریض کو اس تیزی سے گرتے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا۔ وہ ایک لائق فائق ڈاکٹر اور ریسرچر تھا۔ اس کے پیٹ میں خوف سے گرہیں پڑ رہی تھیں ۔ اس نے شفٹ ختم کی ، نئے آنے والے ڈاکٹر کو سختی سے PPE استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وہ بھاری دل سے گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ اس کی رات بھی بہت بے چین گزری۔ اس کی بیوی بھی ایک نرس تھی۔ وہ دونوں ایک ہی ہیلتھ سینٹر میں خدمات انجام دیتے تھے ۔رات بھر وہ اس کی بے چینی محسوس کرتی رہی صبح تیار ہوتے ہوئے وہ اس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔ وہ تفکرانہ انداز میں بولا:
“شینگ لی ! دعا کرو کہ میرے تفکرات غلط ہوں اور واقعی میں سب کچھ ٹھیک ہو۔مجھے یہ مریض کسی بڑے طوفان کی آمد کے نقیب محسوس ہورہے ہیں ۔”
وہ دونوں ہی جلد تیار ہوکر ناشتہ کرکے گھر سے رخصت ہوگئے۔ ہیلتھ سینٹر پہنچ کر ایک عجیب و غریب صورتحال دیکھنے کو ملی۔ بے شمار مریض ملتی جلتی علامات کے ساتھ ہیلتھ سینٹر میں موجود تھے۔ہر طرف کھانستے ہوئے ،الٹیاں کرتے بیمار لوگوں کا جم غفیر تھا۔ ایک ہی رات میں یکایک مریضوں کی تعداد بڑھ جانا کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ تھی ڈاکٹر لوئی چن کی پیشانی پر تفکرات کی لکیریں مزید گہری ہوگئیں ۔اس نے اپنی ڈیوٹی شروع کرنے کے بجائے ہیلتھ سینٹر کے ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ وہ جب اس کے کمرے میں پہنچا تو ویاں بھی اسے ایک افراتفری کا سماں نظر آیا۔تمام مددگار عملہ تیزی سے مصروف عمل تھا۔اس نے ڈائریکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“مجھے اجازت دیجیے کہ میں مریضوں کو دیکھنے کے بجائے اس ہفتے مریضوں کے خون کے سیمپل پر تحقیق کرسکوں ۔”
ڈائریکٹر ماو چن تی جانتا تھا کہ ڈاکٹر لوئی ایک بہترین ریسرچر تھا۔ وہ آگے تعلیم ہی جینٹیک وائرسز میں حاصل کررہا تھا۔ ڈائریکٹر کو اندازہ تھا کہ یہ قابل ڈاکٹر اگر اس سے اجازت طلب کررہا ہے تو ضرور اس کے پس پشت کوئی بات ضرور تھی جو اسے پریشان کررہی تھی۔ اس نے اسے فورا تحریری اجازت نامہ لکھ کر دے دیا۔ ڈاکٹر لوئی چن تیزی سے اپنی لیبارٹری کی طرف چل پڑا۔اس نے دیکھا اس کا ماتحت زنگ چن لی سر پکڑ کر بیٹھا تھا ۔اس نے اپنا لیب کوٹ ، دستانے اور ماسک پہنتے ہوئے اس سے پوچھا:
“کچھ کامیابی ہوئی؟”
اس نے نفی میں سر ہلایا اور کہا:
“یہ طے ہے کہ یہ وائرس ہے مگر اس کی مماثلت انفلوئنزا یا سپینش فلو سے نہیں ہے۔”
اس نے اسے گھر جاکر چند گھنٹے آرام کرنے کی ہدایت کی اور خود مائیکروسکوپ پر جھک گیا۔
زنگ چن لی جب رات کو واپس ڈیوٹی پر آیا تو اس نے دیکھا ڈاکٹر لوئی چن کے چہرے پر تفکرات کی شکنیں بہت گہری تھیں۔ وہ آرام کرسی پر ساکت و صامد بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے کی رنگت غیر ممعمولی طور پر زرد تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے سامنے پڑی تفصیلی رپورٹ اس بات کا ثبوت تھی کہ اس کا باس نادیدہ بیماری کا کیس حل کرچکا تھا۔ اس نے رپورٹ اٹھا کر پڑھنی شروع کی اور اس کی پیشانی پسینے سے تر ہوتی گئی۔ اس کے ہاتھوں میں لرزش بڑھ گئی۔ اس نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا:
“ڈاکٹر لوئی چن آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں؟
یہ بیماری کی تشخیص نہیں سزائے موت ہے۔ کیا ہم سب اس عفریت کا لقمہ بننے والے ہیں؟”
ڈاکٹر لوئی چن نے تھکی تھکی آواز میں کہا:
“کرونا نامی یہ وائرس 1930 کے عشرے میں مرغیوں میں پھوٹا تھا۔ 1940 میں چوہے اس کا نشانہ بنے۔
1960 میں انسانوں میں یہ وائرس نمودار یوا۔ 2001 میں یہ وائرس SARS کی شکل میں نمودار ہوا ۔ مگر اس بار یہ وائرس بالکل مختلف میوٹیشن کے ساتھ نمودار ہوا ہے ۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ اس سے متاثر ہوجائے گا ۔لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں گے ۔”
زنگ چن لی نے جھرجھری سی لی اور پوچھا:
“آپ نے رپورٹ اعلی حکام کو بھیج دی ہے؟”
لوئی چن نے تھکے تھکے انداز میں سر ہلایا اور زنگ چن لی کو کہا:
“تم اب وائرس کو جان چکے ہو۔وقت ضائع کئے بغیر اب اس پر کام شروع کرو کہ ہم کوئی ویکسین بنا سکیں۔ کل رات سے اب تک میں تین اموات کی خبر سن چکا ہوں ۔ووہان وبا کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔ کل پرسوں تک حکومت ووہان کو مکمل طور پر بند کردے گی۔ میں نے حکومت کو Isolation اور Quarantine کرنے کی ہی ہدایات بھیجیں ۔اس وقت ہمارا دنیا سے کٹ جانے میں فلاح ہے۔ ہمارا ملک بہت زیادہ گنجان آباد ہے اگر یہ وبا پھیل گئی تو لاشوں کو جلانے والا بھی کوئی نہیں رہے گا ۔”
زنگ چن لی بے اختیار ہی اس کے گلے لگ گیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا باس ایک عظیم سائنسدان اور ڈاکٹر تھا۔ اس نے بے اختیار ہی اسے سیلوٹ کیا۔ ڈاکٹر لوئی چن نے مسکرا کر سر ہلایا اور کہا:
“مادر وطن اور وطن کے باسیوں کی خدمت ہی ہمارا نصب العین ہے۔ میں کل سے ہیلتھ سینٹر کے وارڈ میں اور باقی وقت تحقیق میں صرف کروں گا۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم ڈٹ کر اس عفریت کا مقابلہ کریں۔”
☆☆________________________________^______☆☆

Advertisements
julia rana solicitors

وہ پتھرایا ہوا ICU کے باہر بیٹھا تھا ۔اس کا ضمیر اس کے سامنے مجسم گھائل کھڑا اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ اس کی محبوب بیوی جو چھ ماہ کے حمل سے تھی چند گھنٹے قبل اس کے سامنے دم توڑ گئی تھی ۔وہ چیختا چلاتا رہا مگر اسے ICU کے اندر جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ وہ حسرت بھرے انداز میں اسے سسک سسک کر رخصت ہوتے دیکھتا رہا۔ اسی ICU وارڈ میں اس کی چھ سالہ بیٹی بھی وینٹی لیٹر پر تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کسی کے دامن میں لگائی آگ اس کے ملک تک کیسے پہنچ گئی تھی ۔وہ پشیمانی سے صرف ہاتھ مل رہا تھا ۔اچانک ایک ڈاکٹر نے اسے خبر سنائی کہ اس کی بیٹی بھی آخری سانسیں لے رہی تھی ۔وہ برستی آنکھوں سے اٹھا اور شیشے کی دیوار کے پار کھڑا ہوگیا۔ اس کی ننھی اس پار سانس لینے کے لئے تڑپ رہی تھی۔ اس کی چہرے کی رنگت نیلگوں ہوچکی تھی ۔اس کی معصوم خوبصورت آنکھیں ایک ہی سوال کررہی تھیں ۔
“ڈیڈی ! تم کیسے قاتل ہوسکتے ہو؟”
اس کے سامنے سامنے اس کی بیٹی نے بھی دم توڑ دیا۔ وہ لرزتے قدموں سے گھر آگیا۔ اس کے دماغ پر دھند سی طاری تھی ۔ڈاکٹر اسئے بتا چکے تھے کہ اس کی محبوب بیوی اور بیٹی کی لاش جلا دی جائے گی کیونکہ وائرس کے مزید پھیلنے کا خطرہ تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوا، گھر کی خاموشی نوحہ خواں تھی ۔وہ صوفے پر گر سا گیا۔ ابھی تین ماہ پہلے ہی تو وہ ووہان سے شاداں و فرحاں واپس آیا تھا ۔اس کے فرض کی تکمیل ہی اس کے لئے سب سے بڑی کامرانی تھی۔ اس کی نیلی آنکھوں والی معصوم چھ سالہ بیٹی اس سے وہاں کے متعلق سوالات پوچھتی رہی تھی ۔ وہ اس کی معصومیت پر فدا ہوتا جاتا تھا ۔ اس کی بیوی ٹریسا مقامی اسپتال میں نرس تھی۔ وہ واپس آکر اپنی زندگی میں مگن تھا کہ اچانک جنوری 2020 کے اختتام پر اس کی بیوی نے ایک وبا کا ذکر کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شہر بلکہ پورا ملک اس وبا کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ پورے ملک میں لاک ڈاون ہوگیا تھا۔ ہر گھر سے لاشیں اٹھ رہی تھیں۔ آج وہی وبا اس سے اپنا خراج وصول کر کے لے گئی تھی ۔اچانک کمرہ ان تمام لوگوں سے بھر گیا جو اس وبا کے ہاتھوں مرے تھے۔ سب سے آگے اس کی مرحوم بیوی اور بیٹی کھڑی تھیں ۔وہ دونوں اس کا گریبان پکڑ کر چلائیں ۔
“قاتل ! آخر کیوں؟
تم نے ایسے کیا؟”
تمام مردوں کی بے نور آنکھیں اسے گھور رہی تھیں ۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا ریوالور لوڈ کیا اور اپنی کنپٹی پر رکھ کر ٹریگر دبا دیا۔ گولی کی آواز کے بعد کمرے میں سکوت طاری ہوگیا۔
☆☆______________________________^________^☆☆
۔چھ بڑے آج پھر میٹنگ روم میں اکٹھے تھے۔ ان سب کی توجہ ٹی وی کی طرف تھی۔ جہاں چینی حکومت کا ترجمان ایک اہم اعلان کررہا تھا۔
چینی حکومت کے ترجمان نے ووہان میں کرونا نامی وائرس کی موجودگی کی اطلاع دیتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ ووہان کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا تھا۔وہاں مدد کے لئے پورے چین سے دس ہزار ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھیج دیا گیا تھا ۔
بڑوں کے سرغنہ نے ہنستے ہوئے نعرہ لگایا :
“نیو ورلڈ آرڈر کے نام۔”
باقیوں نے اس کے پیچھے پیچھے نعرہ لگایا ۔
“نیو ورلڈ آرڈر کے نام۔”
سرغنہ نے سیاہ نقاب پوش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“آپ کا سرمایہ اب حرکت میں رہے گا ۔ بہت جلد یہ کیڑے مکوڑے اپنے گھٹنوں پر گر جائیں گے۔ آپ سے مدد کی بھیک مانگیں گے ۔”
زرد نقاب پوش نے ہولے سے کہا:
“چین، ایران ، روس اور بھارت کے بلاک پر تو یہ ہتھیار موثر اثر کرے گا ۔مگر اس کا رخ جلد یورپ ، امریکا اور آسٹریلیا کے براعظموں کی جانب بھی ہوجائے گا ۔”
سفید نقاب پوش نے ہولے سے کہا:
“یہ تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہے۔ ہم نے شہد کی مکھیوں کےچھتے کو چھیڑ دیا ہے ۔ جب مکھیاں غضب ناک ہوتی ہیں تو سب راہی بغیر کسی تخصیص کے ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔”
سرغنہ نے بے پروائی سے کہا:
“ہم امر ہیں ۔ ہم حاکم ہیں ۔ہمارے لئے صرف بادشاہت ہی لکھی ہے ۔ہم جہاں انگلی کا اشارہ کریں گے ۔وہیں مکھیاں محدود رہیں گی۔”
شیطان میز کے وسط پر شیطانیت کی تال پر عریاں ناچ رہا تھا ۔اس کی باچھوں سے لعاب نکل رہا تھا ۔ اس کے پورے وجود پر ایک جذب اور مستی طاری تھی۔ اس کے چیلے اس کی ذہانت کو بھی مات دے رہے تھے ۔
سرخ نقاب پوش نے برطانوی لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے کہا:
“بہت جلد دنیا بھر کی حکومتیں گھٹنے ٹیک دیں گی۔ ملکوں کی معیشتیں تباہ ہوجائیں گی۔ غریب مزید غریب ہوجائے گا ۔امیر بھی فقیر ہوجائے گا ۔”
سفید نقاب پوش نے ہنستے ہوئے کہا:
“یہ خوف کی جنگ ہے۔ ہم نے خوف کے ذریعے مکمل دنیا کو paralyze کردینا ہے ۔ جہاز اڑنے بند ہوجائیں گے ۔تجارت رک جائے گی۔ ہر ملک کے ارباب اختیار صرف کرونا نامی وظیفہ جپتے نظر آئیں گے۔ ہر طرف الاماں، الاماں کا شور بلند ہوجائے گا ۔ ایسے میں ہم ویکسین مارکیٹ میں لائیں گے ۔دنیا بھر کا پیسہ ہم کمائیں گے۔”
سیاہ نقاب پوش نے کہا:
“ہمارے دئیے گئے سرمائے کا سود اتارتے اتارتے ان غلاموں کی نسلیں ختم ہوجائیں گی۔”
سرغنہ نے شیطانی انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:
“میں نے کہا تھا نہ کہ جنگی حکمت عملی دماغ سے طے کی جاتی ہے ۔ اب نیوکلیئر ہتھیاروں کی ضرورت کس کو ہے؟
ہم جب چاہیں حیاتیاتی ہتھیاروں سے دنیا کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں ۔”
سفید نقاب پوش نے جھجکتے ھوئے کہا :
“وہ مریخ پر آباد کاری کا منصوبہ کہاں تک پہنچا؟
زمین تو شاید اب آنے والے سالوں میں بانجھ ہو کر رہ جائے گی ۔”
سرغنہ نے ہنستے ہوئے کہا:
“ہم تو زندگی کی لافانیت پر کام کررہے ہیں۔ہم کبھی مرنا نہیں چاہتے ۔تم صرف ابھی تک مریخ کی آبادکاری پر رکے ہوئے ہو؟
اونچا سوچنا سیکھو۔”
شیطان کا رقص تیز ہوگیا ، اسے یقین ہوچکا تھا کہ خاکی اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود توڑنے پر تل چکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جلد ہی عذاب الہی ان کا مقدر بن جائے گا ۔ اچانک سرغنہ کو کھانسی کا ٹھسکا سا لگا۔ تمام دیگر نقاب پوش بجلی کی سرعت سے پیچھے ہوگئے۔ اس نے سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہوئے پانی کے لئے پکارا۔ مگر تمام زندگی سے پیار کرنے والے تاجر اس کے نام نہاد پاپی ساتھی اپنی جانیں بچاتے اسے تنہا چھوڑ کر کمرے سے باہر جاچکے تھے۔ وہ اکھڑتی سانسوں سے اچانک اپنے سامنے ظاہر ہونے والے عزرائیل کو حیرت و دہشت سے دیکھنے لگا ۔ عزرائیل کے ساتھ تنومند سیاہ پوشوں کی ایک جماعت تھی۔ ان کے ہاتھوں میں آگ کے گرز تھے۔ اس نے دیکھا میز پر شیطان بھی موجود تھا۔ اس نے آنی والی جماعت کو دیکھا تو ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولا:
“میں تو رب کریم سے ڈرتا ہوں ۔بھگت اپنے گناہوں کی سزا۔ میں تو چلا۔”
وہ ہانپتے ہوئے بولا:
“تو تو میرا سہارا تھا۔ تو ہی میرے کانوں میں سرگوشیوں میں خیالات ڈالتا تھا۔ مجھے تنہا مت چھوڑ۔مجھے بچا لے۔میں تیرے بہت کام آوں گا۔۔”
مگر شیطان ایک مسکراہٹ کے ساتھ بولا:
“میرے گماشتے! تیری خدمت مجھے یہیں تک درکار تھی، تیرا کام پورا ہوا۔۔”
یہ کہہ کر وہ اوجھل ہوگیا۔ سرغنہ ہانپتے ہوئے بولا:
“ہم امر ہیں۔ ہمارے لئے موت نہیں ۔کرونا میرے لئے نہیں ہے ۔”
عزرائیل نے اس کے گلے پر گرفت قائم کرتے ہوئے کہا:
“غلط ! تم امر نہیں ہو۔ ورنہ آج تجھے میرا سامنا نہ کرنا پڑتا۔”
اس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں ۔دور سے جہنم کے کتوں hell hounds کے بھونکنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔اس نے ایک جھرجھری لے کر دم توڑ دیا اسے معلوم ہوچکا تھا کہ اس کا ٹھکانہ کہاں ہونے والا تھا۔
☆☆_______________^___________________☆☆

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply