مٹی کی خوشبو۔۔فوزیہ قریشی

میں آج برسوں بعد اپنی مٹی کی طرف رختِ سفر تھا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے۔
جب میں نے آخری بار اپنی مُقدس مٹی کو چُھوا تھا۔۔
لیکن پھر مجھے یہ سعادت برسوں نصیب نہ ہو سکی۔ میں جانتا ہوں میں کچھ خود غرض ہوگیا تھا کیونکہ مجھے اُس وقت صرف اپنے حسین خوابوں کی تعمیر چاہئے تھی۔ میں اپنوں کو ایک خوبصورت مستقبل دینا چاہتا تھا ۔ اپنوں کے دکُھ درد بانٹنا چاہتا تھا۔۔۔ میں صرف یہ جانتا تھا کہ پردیس ہی میرے دکھوں کا مَداوا کر سکتا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ شائد پردیس میں پیسے درختوں پر اُگتے ہیں۔۔۔۔۔ پردیس پہنچتے ہی، میں بھی ایک پیڑ اگا لوں گا اور جی بھر کر مزے کروں گا۔۔۔۔۔۔جلد اپنی مٹی کی طرف پلٹ جاؤں گا لیکن مُجھ پر یہ راز تب افشاں ہوا۔۔ جب میں اُس زمین پر اترا۔۔ جو کبھی بھی پردیسیوں کی نہیں ہوئی بلکہ ہو ہی نہیں سکتی تھی ۔
ہم ہمیشہ دوسرے درجے کے شہری ہی رہیں گے۔ اس بات کا احساس مجھے عرصہ گزرنے کے بعد ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں جب جب عمر ڈھلتی ہے اور موت قریب آتی ہے تو آپ کے خمیر کی مٹی آپ کو اپنے پاس بلاتی ہے۔
آپ کہیں بھی ہوں اس مٹی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔۔ مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ میرے خمیر کی مٹی مجھے اپنے پاس روز بلاتی ہے لیکن شائد میرا واپسی کا بلاوا نہیں ابھی تک آیا تھا کہ میں لوٹ جاتا۔۔
تب مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا کہ ہم پردیسی یہاں مجبوری میں وقتی قیام تو کر سکتے ہیں لیکن ہمارے پر خلوص جذبے ،محبت کی شدت سبھی اپنوں سے جڑی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے کسی نہ کسی طرح ہم اپنا آپ مار کر جی لیتے ہیں لیکن دفن ہونے کی خواہش اپنی مٹی میں کرتے ہیں ۔ پھر ہم میں سے اکثر یہ نصیحت کرکے جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد انہیں پاک مٹی کے سپرد ہی کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں یہاں آیا تو مجھے کافی حیرتہوئی تھی کیونکہ اس مٹی کا نہ ہی رنگ میرے وطن کی مٹی جیسا خاکی تھا اور نہ ہی وہ سُوندھی سُوندھی خوشبو اِس کے وجود سے مجھے آتی تھی۔
مجھے ایڈجسٹ ھونے میں برسوں بیت گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں پھربھی ایڈجسٹ نہیں ہو پایا۔ عجیب سی مشینی زندگی ، نہ دکھ سُکھ سانجھے، نہ ہی دلوں میں وہ چاہ۔۔ یوں تو میرے ارد گرد حسین تتلیاں منڈلاتی تھیں۔۔۔۔۔ جن کے رنگ سفید اور آنکھیں نیلی، ہری اور سرمئی تھیں۔ مجھ پر اپنی چاہ بھی لُٹاتی تھیں لیکن اس چاہ میں بھی مجھے مفاد کی خوشبو آتی تھی۔۔ مجھے وہ کاجل بھری آنکھیں یہاں کہیں دکھائی نہیں دیں۔۔۔۔۔ جس کے عکس میں صرف میرے لئے بے لوث، بے غرض محبت اور چاہت تھی۔۔
وقت گزرتا گیا اور میں بے حسی کے دور میں گُم ھو گیا۔۔۔۔۔۔ بلکہ یوں کہیئے کہ کہیں کھو سا گیا ۔دن رات صرف اور صرف محنت میں گزرتے تھے۔۔۔جسم روبوٹ بن چکا تھا۔۔۔۔ دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے تو وقت ھی وقت تھا لیکن کھانے کے لئے چند لمحے بھی مشکل سے میسر آتے تھے۔۔۔۔ ۔نیند تو جیسے رُوٹھ سی گئی تھی۔
آخر میرے دن رات کی محنت رنگ لائی اور میں نے یہاں اپنا ایک مقام بنا لیا ۔ میرا وجود بے حسی کی بھیڑ میں کھو چکا تھا۔۔۔۔میرے حسین پل بھی کہیں کھو گئے تھے۔۔۔
آج میرے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی خواہش میں یہاں آیا تھا لیکن عاجزی کھو گئی ہے۔ گردن میں پاونڈز اور ڈالرز کا سریا گڑھ چکا ہے۔ میری پہچان اب صرف پاؤنڈز اور ڈالرز ہیں کیونکہ مجھ سے میری مٹی کی پہچان جو کھو گئی ہے۔
مجھے برسوں بعد اس مٹی کی طرف لوٹنا پڑ رھا تھا جسے میں کبھی خوشگوار مستقبل کی خاطر چھوڑ گیا تھا۔ میری عاجزی کی جگہ بے حسی اور بناوٹ نے لے لی تھی۔۔۔ انا کی بلند و بالا دیواریں میرے ارد گرد اپنا حصار بنا چکی ہیں۔۔۔۔ ۔زندگی عجیب سے ڈَھب سے گزر رھی ہے۔۔۔۔۔ اب میرے پاس صرف وقت ھی وقت ہے آرام ھی آرام لیکن سکون نہیں ہے۔۔۔۔میرا سکون وقت کے ساتھ پردیس کی دھوپ چھاؤں میں کھو گیا ہے۔۔۔۔۔ جب مجھے جب نیند آتی تھی تو سونے کا وقت نہیں ملتا تھا اور آج جب وقت ھے تو میری نیند ہی مُجھ سے روٹھ گئی ہے۔ آسائشوں کی نرمی وجود کو تو محسوس ھوتی ہے لیکن روح پھر بھی بے چین رہتی ہے ۔
میری روح کیوں بے چین ہے؟
اسی کی تلاش میں شائد آج میں پھر سے واپسی طرف رختِ سفر ھوں۔۔۔۔
کل صبح میں اپنی مٹی پر قدم رکھوں گا۔۔ اپنی سوہنی دھرتی پر۔۔۔۔۔ جسے میرے آباؤ اجداد نے اپنے خون سے سینچا تھا۔۔
میرے ساتھ کوئی نہیں ہے میں اکیلا ہوں۔ میں اکیلا گیا تھا اور اکیلا ہی لوٹا ہوں۔۔ میرے بچوں نے میرے ساتھ میرے وطن جانے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کی ماں سفید چمڑی والی ہے اور ان کا وطن وہی ہے جہاں وہ پیدا ھوئے ہیں۔ اُن کے خون میں اپنی مٹی سے وفا ہے۔۔ مجھے تو واپس جانا تھا کیونکہ میں تو مسافر تھا اسی لئے واپس لوٹ رھا ھوں اپنے آشیانے کی طرف۔۔۔۔۔
میرے سب سنگی ساتھی نجانے زندہ بھی ہونگے یا نہیں ۔۔
میرے گاؤں کی صبح ویسے ہی چہچہاتی ہوگی جیسے میرے بچپن اور جوانی کے ایام میں چہچہاتی ، اٹھلاتی اور انگڑائیاں لے کر نکلتی تھی۔۔۔۔۔پو پھٹتے ہی ایک حسین منظر چاروں اطراف پھیل جاتا تھا ۔۔۔۔۔اذان کے بعد سے لے کر پراٹھوں کی کی خوشبو تک۔۔
چار سو حسین سماں رہتا تھا۔۔ اس وقت لگتا تھا کہ یہی خوشبو ہمارے اندر تک سرایت کر چکی ہے۔۔۔۔تب میں بھی خالص دودہ، دہی اور دیسی گھی جیسا تھا۔۔۔مجھ سے دیسی گھی کی خوشبو آتی تھی لیکن دیسی گھی کی خوشبو کی جگہ اب ایک مہنگے پرفیوم نے لے لی ہے۔۔ میں تو اب یہ کھا بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔ شائد کھاتا تو وہی خوشبو برقرار رہتی۔۔یہاں کے ڈاکٹرز بہت سیانے ہیں۔ اسی لئے مجھے ان سب سے خاص پرہیز بتائی ہے۔۔۔ ان کو لگتا ہے میرا کولیسٹرول بڑھ گیا ہے۔۔ شوگر نے بھی ہڈیوں میں بسیرا کر لیا ہے۔
میں اپنے اصل سے دور ھو چکا ھوں یہی وجہ ہے شائد جو میری روح اس معصوم پرندے کی طرح پھڑپھڑاتی ہے۔۔۔ جسے کسی نے زبردستی قید کر لیا ہو۔۔
رات بیت گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی سوچتے سوچتے۔۔
اب ہمارا جہاز لینڈ کر چکا ھے۔
لینڈ کرتے ہی ایک عجیب سی سرشاری میرے وجود میں پھیل گئی ہے۔۔۔
اب میں چیک آوٹ کروا کر، ائر پورٹ سے باہر نکل آیا ہوں۔۔۔۔۔ ۔باہر ایک گاڑی میری منتظر ھے۔۔۔۔۔ جو مجھے سیدھا فائیو سٹار ھوٹل لے جائے گی ۔۔۔۔۔یہاں سب کچھ بدل چکا ھے۔ بڑی بڑی عمارات سڑک کے دونوں اطراف ہیں ۔عجیب سی
افرا تفری ہے چہل پہل جانی پہچانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ لوگ بھی ویسے ہی کپڑوں میں ملبوس ہیں۔۔۔۔ جیسے میں اس مادی دنیا میں چھوڑ کر گیا تھا۔
کیا سب کچھ بدل گیا ھے؟
وہ سب کہاں ہے؟
جس کے لئے میری یہ روح تڑپتی تھی۔۔۔ میں خود سے ہی سوال کر رھا ہوں۔۔۔ میری روح پھر سے بے چین پرندے کی طرح پھڑپھڑا رھی ھے۔۔۔
ہوٹل میں پہنچنے کے بعد میں کچھ دیر آرام کرتا ھوں۔۔۔۔ پھر اپنی اصل کی جانب رختِ سفر ھو جاتا ھوں۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے گاؤں جانا ھے۔۔۔۔۔۔ ۔مجھے والدین کی قبر پر جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔
پردیس کی مجبوریوں کی وجہ سے میں ان کی موت پر بھی نہ پہنچ سکا لیکن میں ایک ذمہ دار برخودار تھا جو وقت پر ان کو پیسہ بھیجتا تھا تاکہ انہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو۔۔ والدین کے جانے کے بعد میرے سبھی رابطے ختم ہو چکے تھے۔۔
کون کہاں ھے؟
میں بے خبر رہا۔۔
سارا راستہ سوچتا رھا کاجل آنکھوں والی کی تو شادی ہو گئی ھوگی۔۔ اب اس کے حسین خواب کون پورے کرتا ہوگا؟
اب تو وہ بھی بوڑھی ھو چکی ھوگی۔
بوڑھی ہو کر کیسی لگتی ھوگی؟
کیا مٹی سے اب بھی وہی سُوندھی سُوندھی خوشبو آتی ہوگی؟
کیا چرخہ اب بھی چلتا ھوگا؟
کیا ٹیوب ویل شور مچاتا ہوگا؟
کیا بچے اب بھی پاس والی نہر میں نہاتے ہونگے؟
کیا شہر کی طرح گاؤں بھی بدل گئے ھونگے؟
انہیں سوچوں میں گُم تھا کہ میرا سوھنا گاؤں آگیا۔۔۔
میں گاڑی سے باہر نکلا ہی تھا کہ میری بے چین روح کا پرندہ خوشی سے ناچنے لگا۔۔ سب سے پہلے میں نے اپنے وجود کی مٹی کو سجدہ کیا اور اپنے مالک کا شکر ادا کیا۔۔۔ والدین کی قبر پر فاتحہ پڑھی اور اُن کو پردیس میں کاٹے دُکھ سنائے۔۔۔سب کہہ دینے کے بعد میں سکون میں تھا۔۔۔۔۔
میری بے چین روح اب آزاد پھر رھی تھی اور میرا وجود خود کو ہلکا محسوس کر رھا تھا۔۔۔۔پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ اتنا کچھ پاکر بھی میں نے تو صرف کھویا ہی کھویا۔ حاصل صرف یہ ھے کہ میں کل مر جاؤں تو میری اولاد میں سے کوئی ایک بھی میری قبر پر فاتحہ پڑھنے والا۔ نہیں ہوگا۔۔۔۔
میں تو اس مٹی سے جڑا تھا اس لئے واپس آگیا لیکن میرے بچوں کا وجود تو اُس مٹی سے جڑا ھے۔۔۔
اس درد کے باوجود بھی ایک سرشاری ہے جو میرے وجود کو معطر کر رھی ہے کہ میں آج آزاد ھوں۔۔۔۔۔ میرا وجود آزاد ہے۔۔۔۔۔۔ میری روح آزاد ہے۔۔۔۔۔۔میں آج پردیسی نہیں ہوں۔۔۔وطن کی مٹی عظیم ہے تُو۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply