روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ ٔ بینا نہ ہوا
——​(عکس ثانی) —-

ستیہ پال آنند
قطرہ ودجلہ تو ہے جزو کی، تعدیل کی بات
قطرہ اسفل ہے ، فرو مایہ ہے خود میں، لیکن
جمع الجمع کے میزان میں افزونی ہے
قطرہ دجلہ میں ہی گم ہو گیا، یہ بھی سچ ہے
جبکہ دجلہ بھی فقط قطروں کا مجموعہ ہے
میں تو گُم ہو گیا اس بھول بھلـیـاں میں، حضور
عمرو عیار کی زنبیل کو کھولیں تو، جناب

مرزا غالب
چشم ِبینا نہ ہو گر چشم ِ تماشا اپنی
اور یہ چشم ِ تماشا نہ ہو گر تیسری آنکھ
(وہی جو ذہن کے اندر ہی کہیں کھلتی ہے)
تو میاں ، صرف ٹٹولو گے ، کہاں دیکھو گے؟

ستیہ پال آنند
ژرف بیں میں بھی ہوں پر دل کی تسلی کے لیے
میں بھی نظّارے کی خاطر ہی فقط دیکھتا ہوں
میں بھی شاید اسی زمرے میں گِنا جائوں گا
ایک” کی “کُل” میں نفی احسنِ تقویم نہیں
جی نہیں، ایسی نظر تو ہے صریحاً بیجا
پھر کہاں قطرے میں دجلہ ہے؟ کہاں جزو میں کل؟

مرزا غالب
زندہ ، آگاہ ہو تم، تیز ، سریع الاحساس
یوں نہ خود کو بطی ا لحس کہو، نادان کہو
اہلیت میں نہیں تم کم کسی دانشور سے
ایک ایک لفظ سنو غور سے ، پلـے باندھو

ستیہ پال آنند
ہمہ تن گوش ہوں،استاد، آپ فرمائیں

مرزا غالب
برملا، سامنے ہونابھی ہے اضما ر کا بھیس
ہاں، اگر ذہن کو ہے ’’ظاہر و باطن‘‘ کا شعور
اور مشہود ہے بے پردہ، بر افگندہ نقاب
‘ ‘ “ذرـہ ” پھر ایک “ذخیرہ” ہی نظر آئے گا
او ر ’دجلہ‘ وہی برّاق استکمال، کہ ہے
اسوہ ٔ حسنیٰ۔۔۔۔ جسے عرش ِ معلیٰ کہیے

Advertisements
julia rana solicitors

ایک ہی شرط ہے اے ستیہ پال آنند، اٹھو
تیسری آنکھ کو پیشانی پہ کھولو تو ذرا
ایک قطرے میں نظر آئے گا دجلہ سارا

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply