یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے ۔۔معصوم مراد آبادی(انڈیا)

یہ گزشتہ یکم اگست کاواقعہ ہے۔ ملک بھر میں عید الاضحیٰ کا تہوار جوش وخروش کے ساتھ منایا جارہا تھا۔لوگ جو ق در جوق سنت ابراہیمی کی پیروی میں مشغول تھے۔ اچانک ٹوئٹر پر ایک نوجوان کا دردانگیز پیغام ابھرتا ہے۔”سب کوعید مبارک۔یہ ہمارے لئے ایک مشکل گھڑی ہے۔ امی اسپتال میں ہیں۔ اگر ممکن ہو تو برائے مہربانی ان کے علاج کے لئے دل کھول کر امدادکیجیے،شکریہ۔“

جس نوجوان کی طرف سے مدد طلب کی گئی تھی، وہ کسی معمولی خاندان کا چشم وچراغ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسے خوشحال گھرانے کا بیٹا تھا، جہاں کسی زمانے میں ہر عید الاضحیٰ  پر تقریباً 100 بکرے ذبح ہوتے تھے اور ہر سال جاڑوں کے موسم میں غریبوں کو بانٹنے کے لئے سینکڑوں لحاف تیار کیے جاتے تھے۔ جس ماں کے علاج کے لئے اس نے امداد طلب کی تھی، اس نے دون  سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور اس کی پرورش و پرداخت ایک ایسی عالیشان کوٹھی میں ہوئی تھی جس میں پندرہ افراد کے رہنے کے لئے چالیس کمرے تھے۔ یہ کوٹھی نئی دہلی کے سردار پٹیل روڈ پر ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع تھی اور جب اسے فروخت کیا گیا تو اس کی قیمت75کروڑ روپے ملی،جوتین بھائیوں میں تقسیم ہوئی۔ ان میں سب سے بڑے بھائی کا نام یونس دہلوی تھا، جو مشہور زمانہ فلمی اور ادبی رسالہ ’شمع‘ کے ایڈیٹر تھے۔ جس نوجوان نے اپنی ماں کے علاج کے لئے چندے کی اپیل کی تھی اس کا نام ارمان دہلوی ہے اور وہ یونس دہلوی کی بیٹی سعدیہ دہلوی کا اکلوتا بیٹا ہے۔سعدیہ دہلوی بہت نازنخروں میں پلی بڑھی تھیں۔ انھوں نے گزشتہ5اگست کو جب کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے جان ہاری تو وہ 63 برس کی ہوچکی تھیں اورکئی سال سے اس موذی مرض سے نبرد آزما تھیں۔ مرض کی تشخیص اس وقت ہوئی جب یہ چوتھی اور خطرناک اسٹیج میں داخل ہوچکا تھا۔

سعدیہ دہلوی سے میری کوئی ذاتی جان پہچان نہیں تھی۔ ہاں دہلی کی سماجی زندگی میں ان کے عمل دخل سے میں خوب واقف تھا۔ وہ اکثر ہائی پروفائل لوگوں کے ساتھ نظر آتی تھیں اور شاندار پارٹیوں میں شرکت کرتی تھیں۔ البتہ ان کے والد یونس دہلوی کو میں نے قریب سے دیکھا۔ وہ اردواخبارات کے مدیروں کی سب سے پرانی تنظیم آل انڈیا اردو ایڈیٹرز کانفرنس کے جنرل سیکریٹری تھے اور میں اس کا سیکریٹری۔ کانفرنس کی میٹنگوں اور جلسوں میں ان سے ملاقات ہوتی تھی اور ان کے ساتھ کام کرنے کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ اس سے قبل میں نے یونس دہلوی اور سعدیہ کو اس وقت دیکھا تھا جب 1977میں کچھ عرصہ مجھے رسالہ ”شمع“ کے دفتر میں ادبی معمّے چیک کرنے کا کام ملا تھا۔یہ’شمع‘کے عروج کا زمانہ تھا اور وہاں ہن برس رہا تھا۔میں نے ’شمع‘ خاندان کے عروج اور زوال دونوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔میری طرح اس شہر میں نے جانے کتنے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس خاندان نے آزادی کے بعد جتنا عروج پایا اتناشاید ہی دہلی کے کسی اور مسلم خاندان کو نہیں ملاہو۔ لیکن اتنے عروج کے بعد اس خاندان کا زوال بھی اسی تیزی کے ساتھ ہوا، جسے دیکھ کر مجھے اکثرخواجہ عزیز حسن مجذوب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

یونس دہلوی کا گزشتہ سال فروری میں طویل بیماری کے بعد انتقال ہوا تو مجھے ان پر تفصیلی مضمون لکھنے کے لئے ضروری مواد کی تلاش تھی۔اس کام کے لئے کئی بار سعدیہ سے میری بات ہوئی، لیکن وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکیں۔ کیونکہ اپنے والد کی موت سے وہ خاصی نڈھال تھیں اور خود بھی ایک موذی بیماری سے لڑ رہی تھیں۔بعد  میں،مَیں  نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے یونس دہلوی اور ’شمع‘ کی صحافتی خدمات پر ایک تفصیلی مضمون قلم بند کیا، جو ماہنامہ ’آ ج کل‘ میں شائع ہوا تھا۔یونس دہلوی کے انتقال کی اطلاع ملنے کے بعد جب میں نے ان کی تدفین کے بارے میں سعدیہ سے تفصیل پوچھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ وہ شیدی پورہ قبرستان میں دفن ہوں گے، جو پرانی دہلی میں عیدگاہ کے قریب واقع ہے۔ میرے لئے اس قبرستان کا نام بالکل نیا تھا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ پنجابی سوداگران برادری کا مخصوص قبرستان ہے اور اس میں دہلی کی پنجابی برادری کے لوگ دفن ہوتے ہیں۔سعدیہ دہلوی کو بھی 6 اگست کو اسی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ حالانکہ وہ چاہتی تھیں کہ انھیں درگاہ حضرت نظام الدین کے قریب واقع اس قبرستان میں دفن کیا جائے جہاں وہ اکثر جمعرات کو جایا کرتی تھیں، لیکن ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوئی۔ انھیں خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیا ء سے بڑی عقیدت تھی اور اسی عقیدت نے انھیں تصوف کی طرف مائل کیا تھا۔ انھوں نے حضرت نظام الدین اور صوفی ازم پر انگریزی میں کئی کتابیں لکھیں۔وہ دہلی کی تاریخ اور ثقافت پر انگریزی اخبارات میں اکثر مضامین لکھا کرتی تھیں۔دہلی کے کھانوں اور ان کے بنانے کے طریقوں پر بھی انھوں نے ایک کتاب لکھی تھی جو خاصی مقبول ہوئی۔خود انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر نئی دہلی کے چانکیہ پوری علاقہ میں ’الکوثر‘ کے نام سے ایک کباب کارنر کھولا تھا۔سعدیہ دہلوی کے انتقال سے دہلی کے سماجی، تہذیبی اور ادبی حلقوں میں سوگ کی لہر ہے۔’ہندوستان ٹائمز‘ اور’انڈین ایکسپریس‘ جیسے انگریزی اخبارات میں ان پر مضامین شائع ہوئے ہیں۔

سعدیہ دہلوی کا تعلق پرانی دہلی کے ایک قدامت پسندمذہبی خاندان سے تھا۔ ان کے دادا یوسف دہلوی حافظ قرآن تھے اور وہ سفید براق کرتا پائجامہ پہنتے تھے۔ انھوں نے 1939میں پرانی دہلی کے پھاٹک حبش خاں سے ’شمع‘ کی اشاعت شروع کی تھی، جسے ان کے بڑے بیٹے یونس دہلوی نے بام عروج تک پہنچایا۔بعد کو یہ خاندان پرانی دہلی سے سردار پٹیل روڈ پر ایک عالیشان کوٹھی میں منتقل ہوا۔ سعدیہ کی تعلیم وتربیت اسی جدید اور خوشحالی کے ماحول میں ہوئی۔ ان کی تعلیم وتربیت کازمانہ وہ تھا جب ’شمع‘ اپنے دور کا سب سے مقبول فلمی اور ادبی رسالہ تھا۔ سردار پٹیل روڈ پر واقع ان کی کوٹھی پر فلمی ستاروں کی لائن لگی رہتی تھی۔ دلیپ کمار سے لے کر مینا کماری تک ایسا کون سا فلمی ستارہ تھا جو ’شمع ہاؤس‘ میں نہ آتا ہو۔’شمع‘کا دفتربھی پھاٹک حبش خاں سے آصف علی روڈ پرمنتقل ہوچکا تھا،جہاں سے’شمع‘ کے علاوہ ’مجرم‘، ’شبستاں‘،’بانو‘ ’کھلونا‘ اور ہندی ماہنامہ ’سشما‘ شائع ہوتے تھے۔ سعدیہ دہلوی ماہنامہ’بانو‘ کی ایڈیٹر تھیں۔ ’شمع‘ کے دفتر میں 100سے زیادہ افراد کام کرتے تھے اور ان میں کئی قابل ہستیا ں تھیں جو ’شمع‘ اور دیگر جرائد کو چار چاند لگاتی تھیں۔ اس ادارے سے کسی زمانے میں ’آئینہ‘ جیسا اخبار بھی نکلا تھا جس کے ایڈیٹر ظ۔انصاری مرحوم تھے۔ سعید سہروردی،سلامت علی مہدی اور رحمن نیر بھی کسی زمانے میں ’شمع‘ گروپ سے وابستہ رہے۔

پرانی یادوں کو تازہ کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ ’شمع‘ اور اس کے مالکان کے کیسے جلوے تھے۔’شمع‘ ادبی معمّوں نے ان پر دولت کی کیسی بارش کی تھی اور دہلی میں ان کا کیسا طوطی بولتا تھا۔ ’شمع‘ کی اشاعت ایک لاکھ کاپیوں تک پہنچ گئی تھی اور اس میں بڑے بڑے کاروباری اداروں کے اشتہارات شائع ہوتے تھے۔ ہر فلمی ستارہ اس میں شائع ہونا اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا۔ واجدہ تبسم جیسی کئی ادبی ہستیوں کو اسی سے شہرت اور دولت ملی۔ لیکن آج جب کبھی میں آصف علی روڈ سے گزرتا ہوں تو ’شمع‘ کے کھنڈر نما دفتر کو دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔’شمع‘ سشما‘ کھلونا‘ بانو‘ اور شبستاں کے بورڈ وہاں آج بھی آویزاں ہیں لیکن ان پر وقت کی اتنی گرد جم چکی ہے کہ انھیں پہچاننا مشکل ہے۔مجھے یہ لکھتے ہوئے رنج ہورہا ہے کہ ’شمع‘ کے بند ہونے کے بعد یونس دہلوی، ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی نے گمنامی کی زندگی گزاری اور وہ آہستہ آہستہ لوگوں کی یادداشت سے محو ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی کے بارے میں لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ ان کا انتقال کب ہوا اور وہ کہاں دفن ہوئے۔ اگر یونس دہلوی کے انتقال کی خبر مجھ تک نہیں پہنچتی تو شاید ان کے بارے میں بھی لوگوں کو نہیں معلوم ہوتا۔

سعدیہ دہلوی دراصل ایک بے چین روح کا نام تھا۔وہ ایک پارہ صفت خاتون تھیں۔ان کی پہلی شادی کلکتہ کی مشہور سماجی شخصیت خان بہادر محمد جان کے بیٹے محمد سلیمان سے ہوئی تھی جو زیادہ دنوں چل نہ سکی اور جلد ہی علیحدگی ہو گئی۔ مرحومہ نے اس کے بعد 1990 میں ایک پاکستانی شہری رضا پرویز سے شادی کی، جو ان سے عمر میں بیس برس بڑے تھے اور دوجوان بیٹوں کے باپ تھے۔ دونوں نے کچھ وقت کراچی میں گزارا جہاں 1992 میں ان کا بیٹا ارمان پیدا ہوا۔ اس شادی کا بندھن 12 سال بعد اس وقت ٹوتا جب ان کے خاوند نے بذریعہ ای میل انہیں تین مرتبہ طلاق لکھ کر بھیجا۔ ہندستان میں ای۔ میل کے ذریعہ طلاق کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس شادی کے نکاح نامے پر مشہور انگریزی صحافی خشونت سنگھ نے بطور وکیل دستخط کئے تھے، جن کا سعدیہ سے قریبی تعلق تھا۔ اپنی ایک انگریزی تصنیف خشونت سنگھ نے سعدیہ کے نام معنون کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”سعدیہ دہلوی کے نام، جس نے مجھے اس قدر محبت اور بدنامی دی جس کا میں سزا وار نہ تھا“۔ خشونت سنگھ نے اپنی ایک کتاب میں سعدیہ دہلوی کی تصویر سرورق پر استعمال کی تھی اور اس میں ان پر ایک باب بھی لکھا تھا۔ سعدیہ جذباتی طور پر انتہائی سیماب صفت اور بڑی حد تک منہ پھٹ خاتون تھیں۔

انھوں نے اپنی زندگی میں کئی تجربات کئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔وہ ایک کامیاب تاجر، ایک صحافی اور نہ جانے کیا کیا بننا چاہتی تھیں، لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ انھیں گھوڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ان کے انتقال پر مجھے مرزا غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک’شمع‘رہ گئی ’تھی‘ سو وہ بھی خموش ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

وٹس ایپ سے لیا گیا ،بشکریہ احمد مجید(سعودیہ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply