ماں۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘ کا فقرہ زبان زد عام ہے۔لاریوں ،ٹرکوں پر جابجا لکھا ہوا پایا جاتا ہے۔بچپن سے پڑھتے سنتے آئے ہیں پھرجب ذرا ہوش سنبھالاتو ہمیں الجنت تحت اقدام الامہات پڑھایا گیا۔جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ اسکی تفصیلات یوں معلوم ہوئیں کہ شرف انسانیت کے قیم ،رحمۃ للعالمین ﷺکے اس ارشاد گرامی میں معلومات اور حکمت کا خزانہ پوشیدہ ہے۔آپﷺ سے قبل دور جاہلیت میں عورتوں کی قدر کچھ نہ تھی ۔ ان کے سا تھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا۔خرید و فروخت کا معاملہ بھی عام تھابعض قبائل میں بچیوں کو زندہ درگورکرنے کا رواج بھی۔باپ کی وفات کے بعد اسکی بیوہ یعنی ماں سے نکاح رچانے کو بھی برا نہ سمجھا جاتا۔عربی ادب ان قصے کہانیوں سے بھرا پڑا ہے جن میں عورت کی تذلیل اور بے عزتی بیان ہو۔عورت کو کھیلنے کودنے کی ایک چیز کے طور پر دیکھنا اور استعمال کرنا بہر حال عام تھا۔
پھر جب ظہور رحمۃ للعالمین ہوا تو آپﷺ نے طبقہ نسواں کے حقوق کی بات کی جو یقیناًاس معاشرے میں اجنبی خیال کی جاتی تھی۔یہ صدا ان فرسودہ اور بیہودہ رسموں سے بغاوت جیسی تھی۔لیکن آپﷺ کے بلند حوصلے، مضبوط عزم و ہمت اور بے مثل یقین و ایمان نے اس بے راہ رو اور سرکش دریا جیسے معاشرے کا رخ موڑ دیا۔عورت کا احترام اور وہ بھی عرب معاشرے میں ناممکن معلوم ہوتا تھا۔ لیکن رحمۃ اللعالمین ﷺ کی انتھک محنت ، دعاؤں اور عمل سے یہ خیال حقیقت میں بدلنے لگا۔صبح نو روشن لگی۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہو کر آستانہ عالیہ پر حاضر ہو کر مغفرت کی دعا کے خواستگار ہونے لگے۔شادی بیاہ میں اپنی مرضی کے حق سے محروم بچیوں کی پسند کا خیال رکھا جانے لگا۔ان کی مرضی معلوم کرنا ضروری ٹھہرا اور معلوم کی جانے لگی۔دن رات خاوندوں کے جبر و ستم کا شکار بیویاں سکھ کا سانس لینے لگیں۔
بچیوں کی عمدہ تربیت کرنیوالے کے لئے جنت کی خوشخبری کا اعلان ہوا۔والدین اپنا حق چھوڑ کر بچوں پر قربان کرنے لگے۔الغرض معاشرے میں عورت کا ہر روپ قابل فخر ،قابل عزت و ادب ٹھہرنے لگا۔یہ سب برکات تھیں رحمۃ للعالمین ﷺ کی عورتوں کے حقوق کے لئے جہد مسلسل کی۔نہ صرف اس زمانے کی عورت بلکہ تا قیامت ہر رنگ و نسل اور خطے کی عورت زیر بار احسان آ گئی۔واقعی
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفی ﷺ نبیوں کا سردار
یوں تو آپﷺ نے عورت کے ہر روپ کا احترام قائم فرمایا،پر جس احترام اور ادب و عزت سے ماں کی تکریم قائم ہوئی وہ بہت غیر معمولی ہے۔ماں کو جنت کی ہوا یا جنت کی سیڑھی یا دروازہ قرار نہیں دیا بلکہ جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھ دیا۔اس مختصر لیکن پر حکمت و پر مغز کلام مبارک پر غور کرتے جائیے اور درود وسلام پڑھتے جایئے۔سوچتے جایئے اور عش عش کرتے جایئے۔اس فقرے کے کچھ معنی تو یوں بھی ہو سکتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors london

۱)جنت حاصل کرنی ہے تو ماں کی خدمت سے ملے گی۔
۲)یہ جنت دنیوی ہو یعنی آرام اور سکون کی گھریلو جنت یا بعد الموت اخروی جہان کی جنت، ہر دو جنت یا جنتاں کے حصول کی چابی ماں کے قدموں میں رکھ دی گئی۔
جاؤ اور اٹھا لو چابی اپنی جنت کی ۔ لیکن ا سکے لئے جھکنا پڑے گا جنت کی چابی ماں کے پاؤں تلے ہے۔پورے ادب پورے احترام سے جھک کر لے لو۔ذرہ برابر اکڑ ،کجی اور تکبر باقی رہاتو چابی کو چھو نہ پاؤ گے ، جنت تک پہنچ نہ پاؤ گے۔
۳) یہ معنی بھی اس پر حکمت کلام میں داخل ہیں کہ معاشرے کی تشکیل میں ماں کا کردار بہت بڑا ہے۔فرد جو معاشرے کا لازمی وجود ہے وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا۔چور اچکا بنے گا یا مفید وجود۔معاشرے کو برباد کرنیوالا ہوگا یا تعمیر میں حصہ لینے والا۔اسکا فیصلہ ماں کی گود کریگی۔
اس کلام بے نظیر نے ماں کو بھی باندھ کے رکھ دیا۔رتبہ بھی کمال عطا فرمایا۔پر جتنا بڑا رتبہ اتنی بڑی ذمہ داری۔جتنا بڑا مقام عزت اتنا بڑا مقام خوف۔
ماں فیصلہ کریگی کہ کل کا معاشرہ کیسا ہو۔ماں وہ پنیری پیدا کریگی جو کل تناور درخت ہونگے۔وہ درخت سایہ دار ہونگے پھلوں سے لدے ہوئے یا کانٹوں کے جھنڈ۔ماں اپنے دکھ اور قربانیوں کا ایک حصہ تو پہلے ہی ادا کر رہی تھی آج بھی کر رہی ہے۔گھرانہ امیر ہو یا غریب ماں کی تکلیف ماں کا دردماں کا دکھ سانجھا ہے ایک جیسا ہے۔تخلیق کبھی بھی آسان نہ تھی ماں خالق کی ظل ہے۔اسکے وجود میں بحکم کن تخلیق ہوتی ہے۔کوئی تخلیق درد اور painسے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ماں کے شکم میں لمحہ لمحہ تخلیق آگے بڑھتی ہے ۔ لمحہ لمحہ اور دھڑکن دھڑکن اپنے بچے کو پالتی ہے۔ جسم کا ایک حصہ اس سے الگ ہوتا ہے ۔ماں سے زیادہ تخلیق کی تکلیف اور کون جان سکتا ہے۔
جب اس ہستی یعنی ماں کو کوئی دکھ دے تو وہ مورکھ انسان کیسا ہو گا۔ وہ تو انسان کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔کیونکہ انسان میں تو دو طرح کے انس رکھے گئے تھے۔ پھر وہ انسان کہلا کر ظالم کیسے بن سکتا ہے ۔ انسان کہلا کر ماں کی توہین کیسے کر سکتا ہے ۔ یہ دو باتیں اکھٹی تو ہو نہیں سکتیں ۔ماں کو دکھ دینے والوں کا حشر کیسا ہوگا ۔ ہر صاحب فراست کی روح اس نظارے کو محسوس کرکے کانپ اٹھتی ہے ۔
پر آج ہم نے بحثیت معاشرہ ماں کو صرف دکھ نہیں دیا،ہم نے ماں کو مار دیا ہے اور ہر روز مار رہے ہیں۔گولی کسی کو لگے مرتی تو ماں ہی ہے۔ماں کی آ ہیں اور نالے آج وطن عزیز کی گلی گلی سے اٹھ رہے ہیں۔کبھی اس بچاری کی صدا اٹھتی ہے گوجرانوالہ کے جلتے مکانوں سے۔ کبھی یہ بھسم کر دینے والی دعا نکلتی ہے بھسم ہوتی ہوئی فیکٹری سے۔کبھی ماڈل ٹاؤن سے تو کبھی گڑھی شاہو سے۔کبھی قصور کی گلیوں سے تو کبھی سیالکوٹ کے بازاروں سے۔کبھی ہزارہ کی سڑکوں پر اور کبھی بلند و بالا چوٹیوں پر۔ماں کرلاتی رہی چیختی چلاتی رہی پر ہم نے کان بند کر لئے۔ماں بلاتی رہی مگر ہم نے رخ موڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔کبھی ہم نے سوچا شیعہ کی ماں رو رہی ہے کبھی ہم نے کہا احمدی کی ماں ہے۔کبھی ہم نے کہا غریب کی ماں تھی۔کاش ہم ماں کو تقسیم نہ کرتے ،کاش ہم ماں کو دکھی نہ کرتے تو آج ہم بھی دکھی نہ ہوتے۔ماں ماں ہوتی ہے ۔ماں شیعہ ،سنی احمدی، بریلوی، ہزاروی نہیں ہوتی۔ یہی فرمایا تھا آقا دوجہاں ﷺ نے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔کسی خاص مذہب ،خاص فرقے ،خاص رنگ و نسل،غریب یا امیر ماں کے قدموں تلے جنت کی خوشخبری نہ دی تھی۔
ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگر ہم چشم تصور میں وطن عزیز کے گلی کوچوں سے اٹھنے والی ماں کی آہیں دیکھ لیں۔ قصور کے بچوں کی بے قصور ماں کی پکار سن لیں ،کبھی ان کان پھاڑتی صداؤں کو سن لیں تو یقین کریں ہم سو نہ سکیں ہم ہنسنا چھوڑ دیں ۔ہم ماں کو تقسیم کرنا چھوڑ دیں۔ماں میں بڑی طاقت ہے برداشت کی ہمت اورحوصلہ بھی ہے۔آؤ ،ماں کی طاقت کو صحیح معنوں میں استعمال کریں۔ماں کی دعاؤں کی طاقت طوفانوں کے رخ موڑنے کے قابل ہے۔ماں کا حوصلہ چٹانوں کو ریزہ ریزہ کرنے کے قابل ہے۔ماں کی برداشت پہاڑ جیسی ہوتی ہے اور ماں کی دعا عرش الہٰی کو ہلا دیتی ہے۔آؤ اپنی کھوئی ہوئی جنت کو تلاش کریں کہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے تم جنت کو ٹھوکر مار کر کس جنت کی تلاش میں ہو۔دوسرے کی جنت اجاڑ کر تم کونسی جنت بسانے چلے۔
میرے آقا و مولیٰ ﷺ نے فرمایا اپنے والدین کو گالی نہ دو۔عرض کیا ایسا بد بخت کون ہوگا جو اپنے ہی والدین کو گالی دے۔فرمایا جب تم کسی کے والدین کو گالی دیتے ہو تو گویا اپنے ہی والدین کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہو۔وہی معاشرہ انسانوں کا معاشرہ ہو سکتا ہے جہاں ادب و احترام یک طرفہ نہ ہو دو طرفہ ہو اور یک طرفہ ہو بھی نہیں سکتا۔ہمیں درس دیا گیا تھا کہ جو اپنے لئے چاہتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔پر ستیاناس ہو اس خود غرضی کا جس نے یہ عظیم الشان درس بھی ہمیں بھلا دیا۔اور آج نفسی نفسی کرتے کرتے ہم بہت دور نکل گئے۔ اپنی خوشی کے لئے دوسروں کی خوشی سے کھیلنے لگے۔ پر کبھی ہم نے سوچا کہ دحشت گردی کے ہر واقعہ میں، قتل و غارت کی ہر واردات میں ، ظلم کی ہر کہانی میں ، سب سے زیادہ متاثر ماں ہوتی ہے ۔ سب سے زیادہ ماں رُلتی ہے ۔ماں فوجی جانباز کی ہو یا غیر فوجی کی،امیر کی ہو یا غریب کی، شیعہ کی ہو یا سنی کی، بریلوی کی ہو یا دیو بندی کی، پنجابی کی ہو یا ہزاروی کی، سندھی کی ہو یا بلوچی کی، احمدی کی ہو یا غیر احمدی کی۔حرا کی ماں ہو کہ کائنات کی ،مارنے والے کی ماں ہو کہ مرنے والی کی ۔دحشت گرد کی ماں ہو کہ دحشت کا نشانہ بننے والے کی۔ ماں کا ایک ہی روپ ہے ۔ماں ماں ہے۔
اگر ہم چشم تصور میں ماں کی شعلوں جیسی بلند ہوتی آسمان کو چھوتی آہیں دیکھ لیں ،عرش کے پائے ہلانے والی ان زاریوں کو محسوس کر لیں تو کسی کی ماں کو دکھ دینے کا کبھی سوچیں بھی نہ۔
کسی کی جنت اجاڑنے کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔ماں بے چین ہے اور ہم چین کی تلاش میں ۔جب تک ماں بے حال ہے ہم بھی بے حال رہیں گے ۔جب تک ماں پائمال ہے ہماری پائمالی بھی روز بروز بڑھتی رہے گی۔قبل اس کے کہ ماں کے آنسو اتنا بڑا سیلاب بن جائیں کہ خس و خاشاک بہہ جائیں قبل اسکے کہ ماں کی آہیں بجلیاں بن کر کڑکیں اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیں قبل اس کے کہ ماں کی آنکھوں کی سرخی آسمان پر منتقل ہو او ر وہ آگ بگولہ ہو جائے قبل اسکے کہ ماں کا دل ٹوٹنے سے آسمان ٹوٹ پڑے قبل اس کے کہ ماں کے بکھرے بال ہمیں تنکوں کی طرح بکھیر دیں،قبل اس کے کہ ماں کا ننگا سر ہمارے سارے ننگ ظاہر کرنے کا موجب بن جائے ۔ قبل اس کے کہ اس کے اٹھے ہوئے ہاتھ ہمیں ا س جہاں سے ہی اٹھا دیں ۔قبل اس کے کہ ہماری ان کرتوتوں کی سیاہی ہمارے دل و دماغ اور نامہ اعمال سیاہ کردے۔
آؤماں کو منا لیں ۔ہم ماں کا سر ڈھانپ دیں اس کے بال سنوار دیں اسکی دلجوئی کر لیں۔اسکو تھام لیں اور گرنے سے بچا لیں ۔آؤ ماں کی آہیں دعاؤں میں بدل دیں۔آنکھوں کی سرخی محبت میں بدل دیں آنسو پونچھ دیں۔ ماں تو ماں ہے وہ معاف کر دیگی آہیں دعا میں بدل جائیں گی آنسو خوشی کے آنسو ہو جائیں گے دست بد دعا دست شفقت بن جائے گا۔ ہماری جنت کی چابی مرنے مارنے ، پھٹنے اور پھاڑنے میں نہیں۔ ماں کے قدموں تلے ہے ۔ایک بار اس کی طرف متوجہ تو ہوں ۔ ایک بار اس کے پیر محبت سے چھوئیں تو سہی۔
ََِجب اسکے پاؤں پہ جھکیں گے وہ پیٹھ تھپتھپائے گی کہے گی،میرے لعل،میرے پیارے ،خوش رہو،شاد رہو،آباد رہو ،بار آور ہو۔
وہ پاؤں اٹھا دیگی ہم جنت کی چابی پا لیں گے۔
آؤ ماں کو منا لیں۔تیری بھی جنت وہاں ہے اور میری بھی۔ جنت اور حوروں کی تلاش میں نکلنے والے جنت کی چابی ماں کے قدموں تلے بھول گئے۔ماں آج بھی سر راہ کھڑی راہ تک رہی ہے ۔آؤ ماں کو منا لیں۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply