یہ ٹائیگرز نہیں فائیٹرز ہیں ۔۔۔ہما

ہم سب جانتے ہیں پاکستان میں ہر سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کو کسی نہ کسی لقب سے پکارتی ہے،پیپلزپارٹی جیالا، ایم کیو ایم ساتھی بھائی تو نواز شریف نون لیگی ،عمران خان نے بھی اسی مناسبت سے اپنے کارکنوں کو ٹائیگرز کہہ کر متعارف کروایا،ایسے ٹائیگرز جن کی درست قیادت دی جائے تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں،عمران خان جلسوں میں میرے ٹائیگرز کہہ کر نوجوان نسل سے مخاطب ہوتے رہے۔برسراقتدار آنے کے دوسرے سال عمران خان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش آیا وہ “کورونا”تھا۔

کورونا جس وقت چائنہ سٹی ووہان میں تباہی و بربادی مچارہا تھا اس وقت سے اہل فکر نے پاکستانی حکومت کو اقدامات کے لئے خبردار کرنا شروع کردیا تھا۔لیکن جس وقت تک پاکستان میں یحییٰ  جعفری کا پہلا کیس رجسٹر نہیں ہوگیا کورونا سے نمٹنے کے لئے کچھ خاص حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے،وزیراعظم عمران خان نے کافی نقصانات کے بعد ایک ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا۔
جس کے ذریعے عوام الناس کی گھر گھر جاکر ہر طرح سے مدد کو ممکن بنانا تھا۔

اس ضمن میں ویب پورٹلز قائم کئے گئے، لاکھوں کی تعداد میں نہ صرف ٹائیگرز رجسٹر ہوئے بلکہ ان کیلئے یونیفارم اور سواریوں کا انتظام بھی کیا گیا۔لیکن یہ ویب رجسٹرڈ ٹائیگرز فورس عوامی پیسہ خرچ کرنے کے باوجود میدان عمل میں نہ آسکی۔

اس مشکل وقت میں جب سفید پوش طبقہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے ترس رہا تھا اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کی جانب نظریں مرکوز کی ہوئی تھیں انہیں وعدوں اور تسلیوں کے سوا کچھ نہ ملا ۔۔

میری نظر میں کورونا غریب ملک میں امیرانہ وبا تھی، کیونکہ لاک ڈاؤن ہونے کی صورت میں امیر تو خود کو گھر میں قید کرکے صحت مند غذا کھاکر محفوظ رکھ سکتا تھا لیکن غریب کیلئے دو وقت کی روٹی ہی  ایک بہت بڑا چیلنج تھی کیوں کہ ہمارے ہاں اکثریت سفید پوش طبقہ”روز کنواں کھود کر روز پانی پیو”” کے مترادف  روٹی حاصل کرپاتا ہے
سندھ حکومت کورونا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کیلئے سب سے پہلے متحرک ہوئی اور بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا کہ عوام اپنے گھر بیٹھے ہم انہیں گھر تک راشن پہنچائیں گے
سندھ حکومت  اپنےاس دعوے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ،لیکن ایسا نہیں تھا کہ پاکستانی قوم کو اس قوم کے زندہ دل اور مخیر لوگوں بھوک سے تڑپنے اور مرنے کیلئے لاوارث چھوڑ دیا ہو
تمام فلاحی انجمنیں اپنی اپنی بساط کے مطابق عوامی مدد کیلئے حکومت کا ہاتھ بٹانے میدان عمل میں آئیں۔

جن میں سے بڑے ناموں سے تو سب واقف ہیں ،آج ہم ایک ایسی فلاحی جماعت کا تعارف جانیں گے جس کے رضاکار وزیراعظم کی لاکھوں کی ٹائیگرز فورس سے ذیادہ متحرک رہے لیکن یہ ٹائیگرز نہیں تھے
بلکہ یہ فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کے ٹائیگرز تھے ۔
آئیے فائیٹرز کا تفصیلی تعارف جانتے ہیں،
ملک کی ابتر صورتحال کے پیش نظر فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کے فائٹرز کورونا کا پہلا کیس منظر عام پر آنے کے بعد عوام کی خدمت کیلئے میدان عمل میں آئے تو اپنی ہر کوشش عوام کے نام کردی ۔

فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کے صدر عبداللہ احسان سید نے کورونا کا پہلا کیس منظر عام پر آنے کے بعد سے ہی سندھ حکومت کے نام ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کی حمایت کی ساتھ ہی اپنی جماعت کے رضاکاران کے ذریعے افرادی قوت سے مدد دینے کی بھی یقین دہانی کروائی ۔۔۔

لاک ڈاؤن کے فوراً بعد ہنگامی بنیادوں پر راشن کی ترسیل فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کے ہیڈ آفس سے شروع کردی گئی جس میں اس جماعت کے رضاکار (فائٹرز )رات دن ایک کرکے عوامی خدمت کیلئے گھر گھر راشن پہنچاتے رہے۔

جب عوام میں بیروزگاری، بھوک اور کورونا کا خوف بڑھ رہا تھا اس وقت اس فائیٹررز کو بھی اپنا دائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت پیش آئی
اور اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک ٹاسک فورس یونٹ قائم کردیا گیا اور بھرپور طریقے سے عوام تک گھر گھر راشن پہنچایا گیا ،

راشن کی گھر گھر ترسیل کے لئے ایک باقاعدہ منظم نظام ترتیب دیا گیا، فائیٹرز رات، دن، دھوپ، گرمی میں عوام کی ضروریات کا خیال فقط انسانی جذبے کے تحت بلاغرض کررہے تھے،

جب راشن کی طلب اور رسد بڑھ گئی تو اس وقت بیروزگار لوگوں کو راشن گھر گھر پہنچانے کیلئے روزانہ کی اجرت پر رکھا گیا جس سے لاک  ڈاؤن سے متاثر بیروزگار لوگوں کو گھر چلانے میں مدد ملی،

فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی نہ صرف عوام کا خیال رکھنے میں مصروفِ عمل تھی بلکہ ساتھ ساتھ فرنٹ لائن ویریئرز کو بھی حفاظتی حصار میں لینا چاہتی تھی
حکومتی اقدامات چوبیس گھنٹے حاضر رہنے والے ڈاکٹرز کی حفاظت کیلئے بھی ناکافی تھے،
اور دوران لاک ڈاؤن ہم نے دیکھا کہ فیس شیلڈ مانگنے والے ڈاکٹرز پر ایک صوبے میں پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا گیا
انسانی جان بچانے کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھنے والے ڈاکٹرز ، اور پیرامیڈیکل اسٹاف میں فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کی جانب سے بلا معاوضہ فیس ماسک، اور فیس کور شیلڈز کراچی اور حیدرآباد کے مختلف کے مختلف ہسپتالوں میں تقسیم کی گئیں،
ساتھ ہی سڑکوں پر ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں کو بھی فیس شیلڈز اور ماسک دیئے گئے،


مارچ اور اپریل کے تھکا دینے والے ماہ کے باوجود مئی میں بھی ان فائیٹرز کے حوصلے بلند تھے
رمضان میں راشن کے ساتھ ساتھ افطار کا انتظام بھی ضروری تھا تاکہ لوگ اس ماہ کی عبادات کے ساتھ برکتیں سمیٹ سکیں
فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کی جانب سے عام عوام کو لاتعداد افطار باکس روزانہ کی بنیاد پر تقسیم کرکے اس نیک عمل میں بھی حصہ لیا ،
یہ فائیٹرز رات دیکھتے اور نہ ہی دن بلکہ گھر سے دور عوام کی خدمت کیلئے چوبیس گھنٹے حاضر رہے
رمضان کے بعد عید کی خوشیاں جب اس مشکل وقت میں عوام سے بہت دور نظر آرہی تھیں تو “کورونا بازار “کے ذریعے فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی نے یہ خوشیاں عوام سے قریب کرنے کا فیصلہ کیا
اور کورونا بازار کے ذریعے 2500 مستحق خاندانوں کو عید کی تیاریاں کپڑے، چپل، چوڑیاں اور دیگر چیزیں مفت خریدنے میں مدد فراہم کی گئی،

 

ابھی یہ سفر ختم نہیں ہوا عید پر جب کورونا ڈیوٹیز پر ڈاکٹرز ہاسپٹلز میں ڈیوٹی دے رہے تھے
تو ان کی حوصلہ افزائی کے لئے فائیٹرز نے پھول، مگ اور کیک ان تک پہنچائے، تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں کہ ان کی خدمات سراہی جارہی ہیں ان کی خدمات بے مقصد رائیگاں نہیں جارہیں،

ٹاسک فورس یونٹ کا دوسرا مرحلہ عید کے بعد شروع ہوا جب عوامی خدمت کیلئے ایک ہیلپ لائن کا آغاز کیا گیا

اس ہیلپ لائن پر یہ ٹائیگرز 24/7 عوامی رہنمائی اور مدد کے لئے موجود تھے
صرف ایک کال کے ذریعے مستحق لوگوں میں مفت آکسیجن سیلنڈر، آکسیمیٹرز اور ادویات فراہم کی گئیں، ساتھ ہی شہر کے معروف ڈاکٹرز کورونا آگاہی سیشنز کا اہتمام بھی کرتے رہے ، یہ ہیلپ لائن سینٹر اور اسکی خدمات اب تک جاری ہیں ۔۔۔

کورونا کا سفر اور زور شاید اب ملک سے ختم ہونے کو ہے مشکل وقت میں ہم نے اس ملک کے سپریم نمائندوں کو صرف زبانی کلامی ٹائیگرز فورس بناتے دیکھا
لیکن ساتھ ہی یہ مشاہدہ بھی ہوا کہ یہ قوم لاوارث کبھی نہیں رہی،
اس قوم میں کبھی ایدھی آئے اور کبھی ان کے نقش قدم کو چھونے کی خواہش کرنے والے ۔۔۔

فائٹرز کی جس جماعت فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کا آپ نے ابھی طویل تعارف پڑھا
اس جماعت کے بانی عبداللہ احسان سید نے مشکل وقت میں حوصلے سے کام کرتے ہوئے اپنے فائٹرز کو متحرک رکھا

کورونا جاتے جاتے بہت سے نقصانات کے ساتھ ہماری قوم کو  ایسے بلند حوصلہ لوگوں کے ذریعے ایک مثبت دے گیا اور وہ یہ کہ ۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو یہ مٹی تو بڑی زرخیز ہے ساقی…

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply