بکھی۔مریم مجید

دن کی دھوپ خاصی پھیل گئی تھی ،جب شوکا کھولی سے باہر آیا،ایک بدبودار سانس فضا میں چھوڑ کر اس نے دونوں بازو پھیلا کر انگڑائی لی،اور پھر تھڑے پر بیٹھ گیا۔کچی بستی میں دن پورا چڑھ آیا تھا،جگہ جگہ میلے سے لگے تھے،بچے بھاگتے پِھر رہے تھے،کچھ مرد کچے گھڑے کی مانند اوندھے پڑے تھے،ان کی عورتیں اپنے اپنے مقدرو ں اور ان کے جنم  کو رو پِیٹ کر   مزدوری پر نکل گئیں تھیں ۔شوکے نے ایک اور انگڑائی لی،اور سستی بھری بیزاری سے افھر ادھر دیکھنے لگا۔گندگی پر بھنکتی مکھیاں اور خارش زدہ کتے کانوں کو کھجاتے ماحول کو  مزید نحوست بخش رہے تھے۔جہاں شوکا بیٹھا تھا قریب ہی آم کے چوسے ہوئے چھلکے دھوپ میں سڑ رہے تھے،اور ان سے عجیب گرم شہوانی  مہک اٹھ رہی تھی،آم کے چھلکوں کو دیکھتے دیکھتے شوکے کے ذہن میں بیتی رات ایک دھماکے سے تازہ ہوگئی۔اور یکدم ہنس پڑا۔۔۔۔بکھی کی مرجھائی ہوئی چھاتیاں بھی تو اسی چوسے ہوئے آم کی طرح  تھیں ۔۔۔۔۔لیکن سالی رانڈ !

اگلے ہی پل وہ ارنے بھینسے کی طرح غصے سے نتھنے پھلانے لگا۔حرام خور ،خداجانے کس بھٹی کی مٹی سے بنی ہے۔۔نچور دیا مجھے نمبو کی طرح۔۔۔۔اوپر سے بان کی ڈھیلی چارپائی نے انگ انگ ہلا دیا۔۔اور لعنتی عورت چھوٹی بھی نہیں ۔خدا کی مار ،نامراد نجانے آج کل کیا چاٹ کر آجاتی ہے کہ وید جی کے سارے کشتے اور طلے پانی بھرتے رہ جاتے ہیں ،اور کتیا منہ سے کہتی ہے،شوکے ڈھیلا ہوگیا ہے تُو۔۔۔۔بکواسن!نفرت سے جھر جھرا کر اس نے زمین پر یوں تھوکا جیسے  سامنے بکھی کا مہاندرہ ہو۔
کچھ دیر تک من ہی من جلنے کڑھنے کے بعد شوکے کو یاد آیا کہ پیٹ میں کچھ ڈالنا ہے۔۔بھوک آنتیں کاٹے ڈال رہی تھی رات بھی بکھی کے چکر میں بس دیسی توڑے کے ساتھ نمکین چنے ہی پھانکے تھے۔۔۔وہ کھڑا ہوا اور کسلمندی سے پاؤں گھسیٹتا ہوا بالو کے ڈھابے کی جانب چل دیا۔۔۔۔
ابھی ڈھابے سے کچھ ہی دور تھا کہ ٹوٹے بنچ پر اسے جمن اور کلو نظر آگئے وہ زوروشور سے نجانے کس بات پر بول رہے تھے۔۔شوکے نے بہترا ان کی نظروں سے بچ کے نکلنا چاہا مگر جمن کی نظر پڑ گئی اور وہ لپک کر اس تک آن پہنچا۔۔۔۔
اب آیا ہے تو؟؟؟جمن نے خبیثانہ رازداری سے دیدے گھماتے ہوئے پوچھا۔۔۔
شوکے کے حلق میں کونین گھل گئی اور اس نے ٹالتے ہوئے کہا” جی اچھا نہیں ہے آج۔۔۔شاید دال باسی تھی رات تبھی پیٹ میں آگ سی لگی ہے”
جمن نے حلق پھاڑ کر قہقہہ لگایا اور واہیات انداز سے کہنے لگا” دال باسی تھی یا گلی ہی نہیں تھی”؟؟؟
شوکے نے اس کی گچی مروڑنے کی خواہش کو بڑی مشکل سے دبایا اور اس کو ٹالنے کی خاطر ڈھابے کے چھوکرے کو چائے پراٹھا لانے کو دوڑا دیا۔جب تک چھوکرا چائے پراٹھا لایا کلو اور جمن شوکے سے گزری رات کا قصہ سن کر اب دوسری باتوں میں مصروف تھے کہ اس بستی میں عورت کی اہمیت بس اتنی ہی تھی۔۔۔اور اس سے زیادہ اس پر وقت ضائع کرنا بیوقوفی سمجھی جاتی تھی۔۔۔۔
شوکا چائے میں پراٹھا ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا اور کلو بھٹا بستی کے قریب کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے افسر کی ماں بہن کو بخشوانے میں مصروف تھا۔۔۔
” میں پوچھوں۔۔۔سالے!تیری ماں کے جنے ہیں ۔۔اولاد میری میں بھٹے میں جھونکوں یا ٹکٹکی پر باندھوں تیرے کو کیا تکلیف ہے۔۔؟،کلو بانچھوں سے کف اڑاتا ہوا بکنے جھکنے میں مگن تھا اور جمن اور شوکا سر دھن رہے تھے۔۔۔
قصہ یہ تھا کہ یہ کچی بستی اینٹوں کے بھٹوں کے قریب آباد تھی اور سارے مردوزن ان بھٹوں کے زندہ ایندھن تھے دن رات کی چار شفٹیں لگتیں اور آدمی عورتیں سبھی پیٹ کا نرکھ بھوگنے کو بٹھوں میں اپنا جیون جھونکتے تھے ۔۔۔جونہی چھوکرا چھوکری گو موت سنبھالنے کی عمر کو پہنچتے تھے ان کو پانچ دس روپے مہینہ پر بھٹے میں چنوا دیا جاتا تھا۔مرد زیادہ تر اپنی کائناتی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کی کمائی ہتھیانا عین کار ثواب جانتے تھے۔۔۔۔اور جیون جیسے تیسے بھوگا ہی جا رہا تھا
بستی والے اپنے حال میں جیے  جا رہے تھے اور شاید روز ازل تک یونہی رہے جاتے کہ ایسی لعنتی بستی اور بستی والوں کو خدا روز قیامت بھی بھول جاتا جیسے کہ وہ انہیں دنیا میں بھولا ہوا تھا۔ مگر نجانے کہاں سے ایک انسانی حقوق کی تنظیم وہاں ٹپک پڑی اور ان کے کاموں میں اڑچن بننے لگی۔۔۔شوکا حیرانی سے سوچتا کہ وہ کس پاسے سے ان کو انسان لگتے تھے جو حقوق پر بھاشن دینے چلے آتے تھے۔۔۔آئے روز کوئی نہ کوئی کارندہ کاغذوں کے پلندے تھامے چلا آتا اور نت نئے دوسری دنیا کے اصول قاعدوں سے ان کے کانوں میں برچھیاں کھبونے لگتا۔۔۔ بستی والے منہ کھول کر سنتے اور جی بھر کر ہنستے ۔۔۔
آج ہی کے قصے میں کچھ اصول ان پر لاگو کیے گئے تھے اور وہی اس وقت زیر بحث تھے۔۔۔
کلو نے بیٹری سلگائی اور واہی تباہی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔” حرامی تنجیم کا بابو۔۔۔بہن  ۔۔! آج کہتا ہے کہ آئندہ کے بعد سولہ سال سے کم کا چھوکرا چھوکری بھٹہ مجوری کے لیے نہیں بھیجنے کا۔۔
پیٹ والی زنانی بھی چار گھنٹہ سے اوپر کام نہیں کر سکتی۔۔۔سالے سے کوئی پوچھے۔۔ بہن کے۔۔۔گابھن کے کیا ہاتھ پیر ٹوٹے ہوتے ہیں کہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی؟؟چھوکرا چھوکری تو پیٹ میں ہووے ۔۔۔اینٹیں تو سر پہ ہی ڈھونی ہوتی ہیں ”
جمن شوکے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے بولا” ہاں تو اور کیا! ! اچھو کمہار کی کھوتی بھی تو گابھن ہے پھر بھی اینٹیں ڈھوتی ہے وہ تو نہیں مری۔۔۔ویسے میں کہوں ۔۔ زنانی گابھن نہ ہی ہو تو بھلا ۔
“وہ کیوں؟ ؟”
اس انوکھی منطق پر شوکے نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔
جمن نے تھوڑا توقف کیا۔۔۔ایک زوردار آواز کے ساتھ ہوا خارج کر کے اطمینان کی سانس لی اور پیٹ تھپتھپا کر بولا ۔۔”وہ اس لیے کہ ۔۔گابھن عورت نہ اپنے کسی کام کی رہتی ہے اور نہ ہمارے۔ نو مہینے پھٹکار پڑی رہتی ہے ۔۔ہر وقت اباکتی رہتی ہے۔۔۔منہ لگانے کو جی نہیں کرے۔۔۔۔ارے اس سے تو گیئا بھلی ۔۔۔گابھن ہووے تو بچھیا کے ساتھ دو وقت دودھ کی دھار بھی دیوے ” جمن نے بات کے اختتام پر وحشی قہقہہ حلق کی گہرائیوں سے برآمد کیا اور تائیدی نظروں سے کلو اور شوکے کی جانب دیکھا ۔۔۔
“بات تو تو سولہ آنے کھری کرے پر یہ بھی تو سوچ کہ زنانی جنے نہ تو پھر زنانی کاہے کی؟؟”کلو نے میلی لنگی کے پلو سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔”بھول گیا ؟ بکھی کو جب خصم نے لات مار باہر کیا تھا ؟؟ارے مورکھ! !!بچے سے ہی تو پتہ چلے ہے کہ آدمی جنا کہ ہیجڑا ۔۔”
اور شوکا جو رات والی ذلت بمشکل بھلائے بیٹھا تھا، اس کے ذہن میں بکھی کا مہنہ کتا مکھی کی طرح پھر سے بھنبنانے لگا۔۔۔”سالی۔۔۔سوکھی کیوں رہی آخر”؟؟؟ابلتے کھولتے دماغ میں بکھی اور اپنی پرچھائیاں پھر سے تانڈو کرنے لگی تھیں ۔۔وہ تو بھلا ہو کہ بھٹی کی شفٹ کا بھونپو چلا پڑا اور وہ تینوں اٹھ کر بھٹی کی طرف چل پڑے۔۔۔
********************

Advertisements
julia rana solicitors london

بستی کی معاشی بدحالی تو جو تھی سو تھی مگر ٹکوں کے ساتھ ساتھ مان مریادہ اور خلق اخلاق سے بھی ھاتھ دھوئے بیٹھے تھے۔۔۔۔
جانوروں کے بد حواس ریوڑ کی طرح ان کا جیون دو بھوکوں کی ریکھاوں کے بیچ جھولتا تھا۔۔۔پیٹ کی بھوک۔۔اور تن کی بھوک۔۔اور اس کو پورا کرنے کا بھی ان کا انوکھا طریقہ تھا۔۔ جس کے ہاتھ جو لگے۔۔نہ کسی کے شملے میں آگ لگتی تھی کہ اسکی زنانی کسی اور کے بھانڈے چاٹ آئی ہے اور نہ ہی کسی عورت کا کلیجہ اس بات پر جھلستا تھا کہ فلاں نے جو آج مسی منہ پر ملی ہے اس کا روپیہ اس کے مرد کے کھیسے سے گیا ہے۔۔۔
اصل میں معاشی اور اخلاقی پستی نے ان لوگوں کو گپھاؤں کے دنوں میں دھکیل دیا تھا جب آدم زاد صرف ضرورتوں کو پورا کرنا سیکھ رہا تھا۔ ۔نہ طبقے تھے نہ فرقے۔۔نہ احساس ملکیت اور نہ ہی پاپ پن کے جھگڑے ۔۔۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ مرد زنانی کو جھگی سے باہر جاتا دیکھ کر آنکھ داب لیتا اور کبھی زنانی برابر کی ہلتی کھاٹ کو در فٹے کہہ کر کروٹ بدل لیتی۔۔۔
یہاں بات دستیابی کی تھی۔۔۔جس کو جب مل جائے ۔۔۔
مرد جب ایک زنانی سے اوبھ جاتے تو منہ کے سواد کی خاطر کسی اور کو ڈھا لیتے۔۔۔
مگر عورتیں؟ ؟
اصل میں عورتیں بھی بہت کائیاں تھیں ۔۔۔روکھی گیلی کھاتے جب کبھی من چٹپٹے آلو یا برف والی سوڈے کی بوتل کے لیے مچلتا تو وہ اپنے سرمائے سے بھرپور فائدہ اٹھاتی تھیں ۔۔۔
سیانی تھیں تبھی تو ہر ایک کا گارا اپنے سانچوں میں بھر نہیں لیتی تھیں ۔۔۔بس وہی جو زبان کی چاٹ پورا کرنے کو تیار ہو۔۔۔
بکھی بھی اسی بھٹہ بستی کا حصہ تھی ۔۔کالی سیاہ۔۔مانو کالی کا روپ۔۔بڑی بڑی کوری آنکھیں، اینٹوں کی تگاری مسلسل سر پہ اٹھانے سے اندر کو دھنسا ماتھا اور مکرانی کنڈل والے بیجڑے کے گھونسلے سے بال۔۔۔مگر اس کے کالے سیاہ جسم سے جنسی وحشت ایسے بہتی تھی جیسے صحرا میں چشمہ ابلتا ہے۔۔
ناک میں تانبے کا بڑا سا بلاق پہنے، لنگی میں کسا بدن اور جب وہ اینٹیں ڈھوتی تھی تو اس کے کولہوں کی اٹھتی گرتی حرکت کو کم ہی سہار پاتے۔۔۔آدھوں کے منہ سے رال بہ رہی ہوتی اور کئی اپنی لنگی بھینچ کے رہ جاتے۔
دو سال پہلے تک تو خصم والی تھی مگر اس کی بھٹی گارے کو کچی حالت میں ہی نکال پھینکتی تھی سو نکالی گئی ۔۔
جب پہلی بار آدھے دنوں میں ہی درد پڑ گئے تو بکھی نے چلا چلا کر بستی اکٹھی کر لی تھی اور پوری رات کی جنگ لڑ کر ایک کچی پکی ماس اور خون کی لوتھ نکال باہر پھینکی اور سکھ کا سانس لیا۔۔۔
اس لوتھ کو دائی چھیمو نے پرانے اخبار میں لپیٹا اور روڑی پر پھینک آئی جہاں کچھ دن تو وہ پڑی سڑتی رہی پھر جانے کس نے اس کو اینٹوں کے ٹوٹوں کا کفن دے دیا ۔۔ویسے بات سمجھ میں نہیں آنے والی تھی کہ اتنے دن اس ماس کے لوتھڑے کو کسی کتے بلے نے کیوں نہ چبایا؟
شاید وہ ڈرتے ہوں کہ اسے کھانے سے آدم کی نحوست انہیں بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔۔۔خیر جب دوسری اور تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا تو میدے،بکھی کے خصم کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کوٹ پیٹ کر نکال پھینکی کہ لعنتی عورت !میرا ست خون ہی رہ گیا ہے روڑی پر رلنے کو۔۔۔؟؟؟
کچھ دن تو بکھی تیرے میرے کی جھگیوں میں رلتی رہی پھر مالک کو ترس آگیا اور ایندھن کی کوٹھڑی میں آگ لگنے سے تین چار مزدور جل مرے ان میں میدا بھی تھا۔۔۔۔بکھی کو کھولی واپس مل گئی اور ساتھ ساتھ آزادی بھی۔۔۔اب تو ایک طرح سے بکھی ٹھکیائی ہی بن گئی تھی ہر رات کوئی نہ کوئی بھوکا پیاسا اس کے  پیالے سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا تھا۔۔۔
شوکے نے پہلی بار تب ہی بکھی کے وحشی بدن کو آزمایا تھا جب وہ آخری لوتھ جن کے فارغ ہوئی تھی۔۔
“کیا بات ہے ہاتھ کیوں نہ لگانے دیوے”؟؟ جب بکھی نے تڑپ کر شوکے کے ہاتھ چھاتی سے ہٹائے تو اس نے پوچھا۔۔
“حرام کے۔۔۔۔۔۔دکھتا ہے۔۔۔بکھی نے پیڑھ میں ڈوبی آواز میں کہا تو شوکے نے چمنی کی بتی بڑھا کر اس کا سینہ دیکھا۔۔۔
کالی کالی چھاتیوں پر بے حد سفید دودھ کی بوندیں تھیں ۔۔”ارے تو تو لیری ہے ” وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔۔۔۔
قدرت بھی عجیب ہے۔۔۔بنا پوچھے ہی سارے فیصلے کر لیتی ہے۔۔۔۔
بکھی کی کوکھ تو ہر بار اُجڑتی ہی رہی پر چھاتیوں کا رس سوکھنے میں بڑا سمے لگا۔۔۔۔
کئی بار دودھ کی بہتی دھاریں اس کے چولے کو اکڑا دیتیں تو کئی بار وہ خود سے نکال کر موری میں بہا دیتی ۔۔۔اب وہی دودھ اس کی رگوں میں سوکھ کر وڑوں کی طرح چبھتاتھا ۔
بستی والے تو بس جھوٹا سچا جیون بھگتا کر مرنے کے لیے ہی بنے تھے۔۔کسی کل کے پرزے نہ تھے وہ۔۔
اور سکھ کے سپنے دیکھنے کے لیے تو ان کی آنکھیں بنی ہی  نہ تھیں ۔۔۔پر جانے کیسے بکھی کی کوری آنکھوں میں ایک اڑیل خواب آن بیٹھا۔۔بستی چھوڑ کر شہر کی کسی کوٹھی کی نوکری کا خواب۔۔۔کچھ روپیہ تو اس نے جوڑ رکھا تھا اور باقی کے لیے جان مار کر مزدوری کرتی تھی۔۔
ان ہی دنوں میں تنظیم کا دفتر کیا کھلا مانو بکھی کی تو چاندی ہو گئی ۔۔۔
تنظیم کے بابو کو دفتر میں ہی چھوٹی سی بنگلیا ملی ہوئی تھی۔۔۔
اس کی جھاڑ پونچھ اور برتن بھانڈے کی خاطر  انہی نکوئی زنانی چاہیے تھی۔۔۔بستی والوں کو تو بابو سے یونہی بیر تھا کہ آئے دن کوئی نہ کوئی پخ نکال کر ان کا دھندہ ماٹھا کرنے آن پہنچتا تھا سو کوئی نہ گیا پر بکھی کی آنکھوں میں تو شہری سپنے آن بیٹھے تھے۔۔۔
شفٹ لگاتی اور چپکے سے بابو کی بنگلیا میں جا پہنچتی۔
اینٹیں بھٹی میں پکانے کے لیے چن کر شوکے نے ذرا دیر کمر ٹکائی تھی کہ سامنے سے بکھی آتی نظر پڑی اور غصہ گیس کی طرح شوکے کے بھیجے میں بھر گیا ۔۔۔وہ لپک کر اس تک پہنچا اور اس کی بانہہ دبوچ کر اسے زمین پر گھسیٹ لیا۔۔۔
“شوکے!!اوپر والے کا واسطہ! مجھے جانے دے”بکھی کراہی۔۔۔
“جانے دوں؟؟ایسے ہی؟؟شوکے نے کرودھ کی اگنی میں جھلستے ہوئے کہا۔۔”تب تک نہ چھوڑوں گا بہن کی ۔۔جب تک بتائے گی نہیں کہ تو چھوٹی کیوں نہ تھی؟؟”شوکے کی بھدی انگلیاں بکھی کی بانہہ میں مورے کر رہی تھیں ۔۔۔
“جانے دے۔۔۔۔میں کہوں ۔۔شوکے ۔۔۔جانے دے۔۔۔” بکھی مریل کتیا کی طرح چونہہ چونہہ کر رہی تھی۔۔۔
شوکے کے من میں بکھی کوبے بس پا کر تراوٹ سی اتر آئی اور اس نے جھٹکا دے کر چھوڑ دیا اس کو۔اپنے کرودھ میں وہ لاش کی طرح پیلی پھٹک بکھی کی آنکھوں میں سڑتا جیون دیکھ ہی نہ پایا۔۔
دو چار دن بھی نہ گزرے تھے کہ شوکے کے من میں پھر سے بکھی کا پنڈا کھسوٹنے کی چاہ جاگ پڑی۔۔۔اور تمباکو والے پان اور دو روپے کے وعدے پر اس نے بکھی کو ڈھا لیا۔۔۔
مگر۔۔۔شوکے کی ذلت کا سامان ابھی باقی پڑا تھا۔۔۔
آدھی رات تک جان مارنے اور کھاٹ توڑنے کے بعد بھی بکھی کا تن سوکھا تھا ۔۔۔کسی اتری ہوئی ندی کے پاٹ کی طرح۔۔۔اور شوکا سوکھے میں پھاوڑا چلا چلا کر کتے کی طرح ہانپنے لگا پر بکھی کے تن کی تراوٹ کو شاید بھٹی کی آگ چاٹ گئی تھی ۔۔۔وہ کسی چھپڑ کی طرح ساکن تھی۔۔۔۔جب شوکا تھک ہار کر ایک طرف کو لڑکھ گیا تو اس نے جانگہیں بند کیں۔۔لنگی لپیٹی اور خاموشی سے جھگی سے باہر چلی گئی ۔۔۔
شوکے کو اس ناکامی نے لون کا پتلا بنا دیا۔۔۔اور اس کو یقین ہو گیا کہ وہ نامرد ہو چکا۔۔۔۔اپنے جسم سے گھن کھانے لگا۔۔۔کبھی من کرتا کاٹ کر پھینک ڈالے کبھی سوچتا بکھی کی کوکھ میں انگارے بھر دے جس نے اس سے مردانگی ہی چھین لی تھی۔۔۔اور جانے کیوں پر من یہ بھی کرتا تھا کہ بکھی سے لپٹ کر اتنا چلائے اتنا بنکارے کہ اوپر والا یا تو اسے بکھی کر دے یا ہیجڑا ۔۔۔شوکے کو مرد ہونے سے گھن آنے لگی تھی۔۔ مزدوری پر جیسے تیسے جاتا اور آ کر کھولی میں دبک جاتا۔۔۔کبھی پہروں لنگی کھول کر اپنے بدن کو گھورتا۔۔۔چٹکیاں لیتا اور پھر بے بسی سے آنکھیں موند کر پڑ رہتا۔۔
رفتہ رفتہ شوکے کی حالت یہ ہو گئی کہ موتنے کے علاوہ لنگی کھولتا ہی نہ تھا۔ جب کسی کتے یا گدھے کو نسل بڑھاتے دیکھتا تو خیال آتا “ارے میں بھی تو مرد جاتی کا ہوں”؟؟؟
وہ جو ایک کتا مکھی اس رات اس کے بھیجے میں گھسی تھی اب جانے کتنی مکھیوں کو جنم دے چکی تھی کہ اس کو ہر پاسے بھن بھن کی آواز ہی آیا کرتی ۔۔۔
****************
شوکا آج دو دن بعد کھولی سے نکلا تھا اور من من کے قدم گھسیٹتا بالو کے ڈھابے کی طرف جا رہا تھا کہ سامنے سے کلو اور جمن بے قابو سانسوں اور بے ڈھبے قدموں سے بھاگتے نظر آئے ۔۔۔
“شوکے!!!او شوکے۔۔۔۔تو نے کچھ سنا؟؟؟”جمن چلایا
اور شوکے کی آنکھوں کے آگے دنیا اوندھی ہو گئی ۔۔۔”ضرور بکھی نے سب کو بتا دیا ہے کہ۔۔شوکا نامرد ہے۔۔۔”اس نے ڈوبتے سانسوں سے سوچا اور لڑکھڑاتی آواز میں بولا “:نہیں ۔۔۔بکتی ہے سالی “””
مگر کلو اور جمن نے سنا ہی نہیں اور کہے گئے ۔۔۔
“ابے شوکے اوپر والے نے اپنی سن لی۔۔۔وہ حرامی تنجیم کا بابو۔۔۔سالا وہ حرامی رات بھاگ گیا ۔ اب اوپر والے کے کرم سے ہمیں کوئی نہ ستاوے۔۔۔”
دفتر کو داروغہ لوگوں نے بند کر دیا”
شوکے کے تن میں جان لوٹ آئی۔۔۔۔
“ارے پر یہ ہوا کیسے”؟؟؟
شوکے نے پوچھا تو کلو حلق پھاڑ کو ہنسنے لگا۔۔۔
“ابے بکھی کی وجہ سے’
“بکھی کی وجہ سے” ؟؟ ابے کیا تنجیم کے بابو کے ساتھ نکل گئی وہ؟؟” شوکے نے پوچھا۔۔۔تو جمن اور کلو نے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور خوشی سے پھٹی ہوئی آواز میں بولے
“نہیں رے۔۔۔بکھی مر گئی”
شوکے کو ایسا لگا کی آسمان سے برف کی تلوار کسی نے اس کی پیٹھ میں گھسیڑ دی ہے۔۔۔
“کیا کہہ رہا ہے” چٹے پڑتےہونٹوں سے اس نے پوچھا۔۔
مگر وہ دونوں تو اپنی کہے جا رہے تھے۔۔۔
:ہاں شوکے! وہ بکھی تنجیم کے بابو کے جھاڑو برتن کرنے جایا کرتی تھی ناں، تو اس نے جنے کون سا ولایتی کشتہ بکھی کو کھلا دیا تھا کہ چھوٹے نہیں۔۔۔۔
اور کل تنجیم کا بابو اپنے یار بھی لایا تھا۔ سب نے مل کر اس کو رگڑ دیا ۔۔سہہ نہ پائی ۔۔۔سوکھے میں چار مشٹنڈوں نے چیر ڈالا۔۔۔”
وہ نجانے اور بھی کیا کیا کہے جا رہے تھے پر۔۔۔
شوکے کو آج نیا جیون ملا تھا جیسے۔۔۔اس کی رانوں میں جیسے پھنیر ناگ پورے تن کے ساتھ کھڑا تھا اور بدن کا ہر انگ کھل رہا تھا۔۔۔
بکھی کی موت شوکے کی مردانگی لوٹا گئی تھی۔۔۔
وہ بھدی سیٹی بجاتا اور ٹھڈوں سے روڑے اڑاتا بالو کے ڈھابے کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply