• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • داعیان دین و صالحین متوجہ ہوں۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

داعیان دین و صالحین متوجہ ہوں۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

میں اس تحریر کے ذریعے   عام پاکستانیوں اور مسلمانوں سےبالعموم اور داعیانِ دین، صالحین، مذہب پسندوں اور اسلامی تحریک کے جملہ دانشوران و مجاہدین سے بالخصوص  مخاطب ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چند دن قبل مسجد وزیر خان لاہور میں اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید نے اپنے ایک گانے کی عکس بندی کی، غالباً اُس میں رقص بھی شامل تھا۔ یہ ایک انتہائی قبیہہ، ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول فعل تھا کہ اللہ کے گھرکو اللہ کے ذکر کی بجائے رقص وسرود سے آباد کیا جائے۔ اس پر ایک غلغلہ اٹھا اور اٹھنا بھی چاہیے تھا، اسی شور کا نتیجہ ہے کہ اداکارہ اور گلوکار دونوں  نے اپنے فعل پر شرمندگی کا اظہار بھی کیا اور معافی کے طلبگار بھی ہوئے۔
میں نے اس تحریر کو داعیانِ دین، صالحین، مذہب پسندوں اور اسلامی تحریک کے جملہ دانشوران و مجاہدین کے لیے اس لیے مخصوص کیا ہے کہ اُن کی غیرت نے اس معاملے پر سب سے زیادہ جوش مارا اور بڑے بڑے سکالرز سمجھے جانے والے افراد نے بھی اس واقعے کی مذمت میں باقاعدہ بازاری زبان استعمال کی اور اگر میں گالم گلوچ کہوں تو بھی موزوں ہی ہو گا۔ میرا اُن تمام داعیانِ دین، صالحین، مذہب پسندوں اور اسلامی تحریک کے جملہ دانشوران و مجاہدین سے ایک سوال ہے کہ آپ نے کب ان اداکاروں/اداکاراؤں اور گلوکاروں/گلوکاراؤں سے  ملنے، انہیں دین کی دعوت دینے، صحیح راستے کی پہچان کرانے کے لیے کوئی تگ ودو کی؟ ایک تو چھوڑیئے، کوئی آدھی پونی کوشش ہی بتائیے کہ آپ نے اس قبیل کے لوگوں سے باہم میل جول کرنا چاہا ہو، اِن کو اپنے پاس بلا کر یا خود ان کے پاس جا کر کوئی دین کی بات اُن تک پہنچائی ہو؟ اُن کے پاس جانا یا اُن کو اپنے ہاں دعوت دینا تو دور، آپ کو تو زعمِ تقویٰ ہی اتنا ہے کہ آپ تو اُن کو سادہ گناہگار مسلمان ہونے کا درجہ بھی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔  جس نحوت سے اور جس نفرت سے آپ نے اُن کے لیے بازاری زبان استعمال کی، بار بار کی اور اُس پر اصرار بھی کیا، اُس سے تویہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ اُن کو ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کا درجہ دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
فیس بک پر چند منٹ لائیو آ کر، اپنا یوٹیوب چینل بنا کر اور واٹس ایپ پر اپنی یوٹیوب ریکارڈنگز کے لنک (اپنے ہی حلقے کے لوگوں کو) بھیج کراگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے دعوتِ دین کی ذمہ داری پوری کر دی تو آپ دھوکے میں ہیں۔ لوگوں کو اُن کی غلطیوں پر ٹوکیے، اُن کی اصلاح بھی کیجیے لیکن جو انداز اور زبان آپ نے اختیار کی ہے وہ نبوی طریقِ کار سے متصادم ہے، اسی لیے لوگ آپ کے قریب آنے کی بجائے آپ سے دور بھاگتے ہیں۔ آپ کا زعمِ تقویٰ اور آپ کی تند خوئی لوگوں کو آپ سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ قرآن میں اللہ نے نصیحت کی ہے کہ
“اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ” فرمایا کہ لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے رب کے طریقے کی طرف بلاؤ اور اگر بحث کی نوبت آئے تو بحث بھی عمدہ طریقے سے کرو اور پھر اللہ نے یہیں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی فرما دیا کی اللہ کو خوب خبر ہے کہ راستے سے بھٹکا ہوا کون ہے اور ہدایت پر کون ہے۔ اِس آیت کے آخری حصے پر صالحین غور کریں اور اگر  اللہ توفیق دے تو اللہ سے  ڈریں بھی۔
اللہ نے قرآن میں مزید حضور نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ “اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں، اگر آپ تند خو اور اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے بخشش مانگیں”۔۔ داعیانِ دین اس آیت کی روشنی میں اپنا آپ دیکھیں۔ جس قدر تند خو اور سخت دل داعیانِ دین، صالحین، مذہب پسند اور اسلامی تحریک کے جملہ دانشوران و مجاہدین ہیں، ذرا دَم لے کر سوچیے کہ  یہ جو آپ اتنے سخت دل اور تند خو ہیں، کہیں آپ  اللہ کی رحمت سے محروم تو نہیں ۔ اور لوگوں سے درگزر اور اُن کے لیے بخشش مانگنا تو بہت دور کی بات ہے، آپ کا تو پسندیدہ مشغلہ یہ ہے کہ لٹھ لے کے لوگوں کو جہنم کے دروازے تک ہانکا جائے، لوگوں کے رب کی مرضی چاہے ہو یا نہ ہو۔
مجھے یہ بات برملا کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ میں مولانا طارق جمیل کا کبھی بھی مداح نہیں رہا اور اب تو سرکار دربار کی طرف اُن کے جھکاؤ نے میرا دل اور بھی اُن کی طرف سے کھٹا کر دیا ہے لیکن ایک خوبی جس سے اللہ نے انہیں نوازا ہے کہ جنہیں صالحین اور زعمِ تقویٰ کے قیدی مسلمان تو کیا، انسان کا درجہ دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے، مولانا اُن کے ساتھ بیٹھتے ہیں، دین کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی مولانا کا احترام کرتے ہیں،ادب سے ان کی بات سنتے ہیں۔ بات دلوں میں بٹھانے والی اور دلوں کو پھیرنے والی ذات اللہ کی ہے، ایسے بہت سے ہیں جو مولانا کی کاوشوں سے دین کی طرف پلٹ آئے، جنید جمشید شہید تو اس کی زندہ مثال ہیں۔۔ سمجھ لیجیے کہ خوبی یہ نہیں ہے کہ ننگے سر والی خاتون کو آپ زانیہ اور دھندے والی بول دیں، خوبی یہ ہے کہ آپ اُس کے سر پر چادر اوڑھا دیں لیکن اِس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
صالحین متوجہ ہوں کہ زعمِ تقویٰ کہیں آپ کو لے ہی نہ ڈوبے اور چلتے چلتے ایک مشورہ داعیانِ دین اور صالحین کے لیے یہ بھی  کہ حسن البناء شہید، جن کے ساتھ آپ فخر کے ساتھ امام کا سابقہ بھی لگاتے ہیں، اُن کی زندگی کا مطالعہ کیجیے کہ انہوں نے دعوتِ دین کا آغاز کن لوگوں سے اور کن جگہوں سے کیا تھا۔
اب آئیے میری اور آپ کی جانب، سادے گناہگار مسلمانوں کی جانب۔ کچھ عرصے سے یہ فیشن سا بن گیا ہے کہ نکاح فیصل مسجد، بادشاہی مسجد یا بحریہ ٹاؤن کی مسجد میں کیا جائے، کیوں بھئی! محلے کی مسجد میں نکاح نہیں ہوتا کیا؟ نکاح تو ہوجاتا ہے لیکن چھوٹی سی اور سادہ سی مسجد میں فوٹو شوٹ نہیں ہوسکتا جوفیصل مسجد، بادشاہی مسجد یا بحریہ ٹاؤن کی مسجدوں میں ہوتا ہے۔ آپ مسجدوں میں نکاح کرنے نہیں، فوٹو شوٹ کرنے جاتے ہیں۔ نکاح کے بعد مساجد کے دالانوں، بارہ دریوں اور صحنوں میں جب آپ اپنی منکوحہ کی بانہوں میں بانہیں ڈالے، اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے سینے سے لگائے، اور ایک دوسرے کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے مسجد کے فوارے کے ساتھ بیٹھے فوتوشوٹ کرواتے ہوئے پیشہ ور ماڈلز کو مات دے رہے ہوتے ہیں تو کیا تب مساجد کا تقدس پامال نہیں ہوتا؟ اس وقت یہ غیرت دھنیہ پی کے ٹھنڈی ٹھار کیوں ہو جاتی ہے؟ غلط بات اور غلط کام کے خلاف آواز ضروربلند کیجیے، معاشرے کی اصلاح کا بیڑا ضرور اٹھائیے لیکن اصلاح کا آغاز خود سے کیجیے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن بہت ضروری کام ہے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply