انقلاب کے بعد (28)۔۔وہاراامباکر

بہادر شاہ ظفر کی جلاوطنی کی جگہ برما طے کی گئی۔ دہلی سے دور اور یہاں کی مقامی آبادی کو ہندوستان کے معاملات سے سروکار نہیں تھا۔ بہادر شاہ سفر میں خوشگوار موڈ میں تھے۔ یہ دہلی کی قید سے بہتر صورتحال تھی۔ شروع کے کچھ ہفتے اچھے گزرے۔ راستے میں کہیں پر جلی ہوئی عمارتیں یہ یاد کرواتی تھیں کہ سفر کیا کیوں جا رہا ہے۔ الہ آباد کے قریب پہنچے تو برٹش فوج شہر پر حملہ آور ہونے کی تیاری میں تھی۔ یہ آخری جگہ تھی جہاں پر برٹش افواج نے بغاوت ختم کی تھی۔

قافلے کی خواتین کے درمیان اختلافات ہو جانے کے سبب آدھی پارٹی الگ ہو گئی اور دہلی واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ بہادر شاہ ظفر کے قافلے میں پندرہ لوگ تھے۔ اٹھارہ نومبر کو یہ مرزاپور پہنچے اور سٹیمر پر سوار ہو گئے۔ بہادر شاہ کے لئے بحری جہاز پر سفر کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ گنگا میں سفر میں اس کے شاندار گھاٹ، بنارس کی عمارتیں، برٹش جنگی کشتیاں جو بکسار کی جنگ سے بھاگنے والے انقلابیوں کی نگرانی کے لئے تھیں۔۔۔ یہ سب بہادر شاہ کے لئے نئے نظارے تھے۔ بکسار وہ مقام تھا جہاں مغل اور برٹش پہلی بار 1764 میں آمنے سامنے آئے تھے۔ رامپور میں سٹیمر تبدیل کیا اور چار دسمبر کو کلکتہ پہنچ گئے۔

یہاں سے بحری جنگی جہاز ماگارا پر سوار کر دیا گیا۔ پانچ روز کے بعد یہ سمندر پار کر کے دریائے رنگون داخل ہو گیا۔ رنگون کی بندرگاہ پر بہت سے لوگ قیدی کو دیکھنے آئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل 1852 کو کمپنی کی فوج نے جس میں سکھ رجمنٹ تھی، رنگون پر حملہ کیا تھا۔ برما کی فوج کو منڈالے تک دھکیل دیا گیا تھا۔ یہاں پر بھی مالِ غنیمت تلاش کرنے والوں نے شہر کو لوٹا تھا اور شہر کی عبادت گاہوں میں بت توڑ دئے تھے تا کہ جواہرات تلاش کئے جا سکیں۔ رنگون بھی دہلی کی طرح ری ماڈل کیا جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“لگتا ہے پورا شہر مسمار کیا جا رہا ہے۔ سب سے مشہور بازار، خاص بازار، اردو بازار اور خانم کا بازار غائب ہو گئے ہیں۔ یہ بھی نہیں پتا لگتا کہ وہ کہاں تھے۔ گھر والے اور دکاندار اشارہ کر کے بھی نہیں بتا سکتے کہ ان کی دکان اور گھر کدھر تھے۔ کھانا مہنگا ہے اور موت سستی”۔

غالب کا لکھا یہ پیراگراف ایک منصوبے پر ہونے والے عملدرآمد کا بتا رہا تھا۔ اصل پلان تو زیادہ بڑا تھا اور لاہور کرونیکل میں شائع ہوا تھا۔ “سزا کے طور پر دہلی کا نام و نشان مٹا دیا جائے”۔ اس پلان کے بہت سپورٹر تھے۔ انڈیا میں بھی اور لندن میں بھی۔ لارڈ پامرسٹون نے کہا کہ دہلی کو نقشے سے ہی ختم کر دیا جائے اور ہر عمارت کو، خواہ کتنی ہی مقدس ہو یا کتنی ہی آرٹسٹک، بغیر تمیز کے ختم کر دیا جائے۔ گورنر جنرل کیننگ اس تجویز کی حمایت میں تھے لیکن جو شخص انہیں اس سے منع رکھنے میں کامیاب رہے، وہ جان لارنس تھے۔

جان لارنس کو لاہور سے دہلی فروری 1858 کو ٹرانسفر کیا گیا۔ وہ پنجاب کے چیف کمشنر رہے تھے اور دہلی کو فتح کرنے میں بڑا ہاتھ تھا، اس وجہ سے ان کی رائے اثر رکھتے تھے۔ وہ قتلِ عام اور دہلی میں پھیلائی جانے والے تباہی کے مخالف تھے۔ سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ قتلِ عام کے پرجوش حامی اور اپنے پیشرو تھیو میٹکاف کو جبری رخصت پر انگلستان بھجوا دیا۔ 2 مارچ کو تھیو ہمیشہ کے لئے ہندوستان چھوڑ گئے۔

اپریل کو لارنس نے عام معافی دینے کی سفارش کی۔ غیرمتوقع طور پر اس میں انہیں اپنے حامی بنجمن ڈسرائیلی کی صورت میں مل گئے (جو بعد میں برطانوی وزیرِاعظم بنے) جنہوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “میں نے وہ سنا ہے اور پڑھا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ مسیح کے نام پر ہم مسیح کے بجائے مولک کا طریقہ اپنا رہے ہیں”۔ (مولک کنعان میں دیوتا تھا جس کے آگے بچوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا تھا)۔

یکم نومبر 1858 کو ملکہ وکٹوریا کے جاری کردہ فرمان سے یہ سرکاری پالیسی بن گئی۔ اس کے ساتھ Act for Better Government of India عمل میں آ گیا۔ تاجِ برطانیہ نے ہندوستان کی حکومتی ذمہ داری ایسٹ انڈیا کمپنی سے ختم کر کے خود اپنے پاس لے لی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی چوبیس ہزار کی ملٹری فورس برٹش آرمی کا حصہ بن گئی۔

ہندوستان اپنے شئیرہولڈرز کے لئے کام کرنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی حکمرانی کے بجائے باضابطہ کالونیل حکومت میں آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دہلی کو مسمار کئے جانے پر بحث چلتی رہی۔ کیننگ نے دہلی کی دیواروں اور دفاعی حصار کو مسمار کرنے کے احکامات جاری کر دئے تھے لیکن لارنس نے انہیں رکوا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنی میل لمبی دیوار گرانے کے لئے بارود دستیاب نہیں۔ 1859 کے آخر تک کچھ حصہ گرانے پر اتفاق ہو گیا۔ 1863 میں چاندنی چوک سے ضریبہ تک مسماری کا آپریشن جاری رہا جو اس کے بعد ترک کر دیا گیا۔ اس دوران دہلی کا بہت سے حصہ گر چکا تھا جس کا ذکر غالب اپنے خطوط میں اداسی سے کرتے رہے۔ راج گھاٹ (جو دریائے جمنا کے پاس مشرق میں تھا) سے جامع مسجد کے درمیان بلامبالغہ صرف اینٹوں کا ڈھیر تھا۔ غالب کے خط کا اقتباس۔
“راج گھاٹ کے دروازے کو گرا دیا گیا ہے۔ ملبے کا ڈھیر ہے۔ چوڑی سڑک بنانے کے لئے کلکتہ دروازے اور کابل دروازے کے درمیان زمین ہموار کی گئی ہے۔ پنجابی کٹہرا، دھوبی وارا، رام جی گنج، سادات خان کا کٹہرا، مبارک بیگم کی حویلی (جو اوکٹرلونی کی بیوہ تھیں)، صاحب رام کی حویلی اور باغ ۔ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا”۔

غالب کے دوسرے خطوط میں اکبرآبادی مسجد، کشمیری کٹہرا مسجد، شیخ کلیم اللہ جہان آبادی کے مزار، مولوی باقر کے امام باڑہ، بلقی بییگم کے محلے، ضریبہ کے دروازے کے منہدم ہونے کا ذکر ہے۔ شہر کے چار بڑے شاندار محل مکمل طور پر مسمار کئے گئے۔ جس میں جھاجر کے نواب کی حویلی (جن کو پھانسی دینے کے بعد اسے گرایا گیا)، بہادر گڑھ اور فرخ گڑھ کے نواب اور بلب گڑھ کے راجہ کی حویلی تھی۔ شالیمار باغ، جہاں اورنگزیب کی تاجپوشی ہوئی تھی، کو زرعی اراضی کے طور پر نیلام کر دیا گیا۔ جہاں مغل عمارتیں نہیں گرائی گئیں، ان کے نام بدل دئے گئے۔ بیگم باغ اب کوئنز گارڈن ہو گیا۔

لارنس نے کوشش کی تھی کہ لال قلعے کو بچایا جا سکے لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ انہوں نے جامعہ مسجد اور محل کی دیواروں کو بچا لیا لیکن لال قلعے کا اسی فیصد حصہ ڈھا دیا گیا۔ ہئیریٹ ٹیلر اس سب پر رنجیدہ تھیں۔ انہوں نے دہلی کی دیوانِ عام کے اوپر سے تصویر بنائی ہے جو مغلیہ دہلی کی آخری امیج ہے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے، “دہلی میں موت کا سناٹا تھا۔ خالی گھر اور ہو کا عالم۔ جیسے کسی بدن سے روح نکل گئی ہو”۔

لال قلعے کو نومبر 1857 سے مسمار کئے جانا شروع ہوا۔ سب سے پہلے شاہی حمام سے یہ کام شروع کیا۔ آرکیٹکچر کے مورخ جیمز فرگوسن لکھتے ہیں کہ یہ قلعہ یورپ کے کسی بھی قلعے سے دگنا ہو گا۔ مارچ 1859 تک یہ جاری تھا۔ چھوٹا رنگ محل، حیات بخش باغ، مہتاب باغ ختم ہوئے۔ دریائے جمنا کے کنارے اس کا بیس فیصد حصہ بچ گیا اور یہ بچت اس لئے ہوئی کہ اس کو برٹش فوجیوں نے اپنا آفس اور میس بنا لیا تھا۔

گنبد اور سنگِ مرمر کی فٹنگ کو اتار لیا گیا اور مالِ غنیمت میں داخل کر دیا۔اس میں شاہ جہان کا کروایا گیا پرچین کاری کا شاندار کام بھی تھا جو ان کے تخت طاوس کے پیچھے تھا۔ نقار خانہ، جہاں اصفہان یا قسطنطنیہ سے سفیروں جیسے اہم مہمانوں کی آمد پر باجے اور ڈھول بجائے جاتے تھے، برٹش سٹاف سارجنٹ کے کوارٹر بن گیا، دیوانِ عام آفیسرز لاونج میں تبدیل ہوا۔ شاہی خوابگاہ کینٹین بن گئی، رنگ محل آفیسرز میس میں بدل گیا۔ ممتاز محل کو ملٹری جیل بنا دیا گیا۔ لاہور دروازے کا نام وکٹوریا گیٹ رکھ دیا گیا۔ ظفر محل جو تیرتا پویلین تھا افسروں کے لئے سوئمنگ پول۔ جب کہ حیات بخش باغ کے خیمے ٹائلٹ بنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغاوت کے ایک سال بعد شہر میں 1858 میں دہلی کے ہندووٗں کو واپس آنے کی اجازت آہستہ آہستہ ملنے لگی۔ دہلی کے مسلمانوں کا داخلہ تقریباً منع رہا۔ دسمبر 1859 میں دہلی کے مسلمانوں کی طرف سے ملکہ وکٹوریا کو درخواست کی گئی کہ انہیں واپس آنے دیا جائے، وہ شدید مشکل میں ہیں اور ملکہ سے رحم کی توقع کرتے ہیں کہ وہ انہں معاف کریں گی اور واپس دہلی جانے دیں گی۔ ان کے پاس نہ سر پر چھت ہے اور نہ سردی سے بچنے کا انتظام۔ یہ اجازت 1860 میں ملی لیکن جو تاجِ برطانیہ سے اپنی وفاداری ثابت نہیں کر سکے، ان کے گھر ضبط کر لیے گئے۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی صورتحال اتنی بری تھی کہ برٹش پریس میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ جون 1860 میں موفصلائیٹ میں اس پر لکھا مضمون ہے، “ہمارا غصہ، آخر کب تک؟”۔

ضبط شدہ جائیدادیں نیلام ہوئیں۔ ان کو خریدنے والے زیادہ تر ہندو کھشتریہ اور جین بینکار تھے، جیسا کہ چُنا مل یا رام جی داس یا مہیش داس۔ چنا مل نے فتح پوری مسجد بھی خرید لی جبکہ ایک ہندو نانبائی نے زینت المساجد خریدی۔ مغل دور کی اشرافیہ اب یا تو غربت میں تھی یا کچھ لوگوں کو سکول ٹیچر یا ٹیوٹر جیسے کام مل گئے تھے۔

مرزا غالب نے جنوری 1862 میں دوست کو خط لکھا ہے۔ “یہ وہ دہلی نہیں جہاں تم پیدا ہوئے تھے، سکول گئے تھے، جہاں تم میرے گھر آیا کرتے تھے۔ یہ وہ دہلی نہیں جہاں میں نے اکاون برس گزارے۔ یہ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان یا تو ہنرمند ہیں یا برٹش کے ملازم۔ باقی سب ہندو ہیں۔ شاہی خاندان کے مرد اب برٹش سرکار سے پانچ روپے مہینہ وصول کرتے ہیں۔ شاہی محل کی خواتین اگر زیادہ عمر کی ہیں تو دلالہ ہیں، کم عمر کی ہیں تو طوائف”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغلوں کے خاتمہ کے ساتھ ہی دہلی کے ادب اور کلچر کا خاتمہ ہوا۔ لائبریریاں تباہ ہوئیں۔ مسودے ضائع ہو گئے۔ مدارس بند کر دئے گئے۔ سب سے بڑی درسگاہ مدرسہ رحیمیہ رام جی داس نے نیلام میں خریدی تھی اور اسے گودام بنا لیا تھا۔

غالب شکوہ کرتے ہیں کہ کتابوں کے اس شہر میں ایک بھی کتاب فروش نہیں رہا، جلدساز یا خطاط نہیں رہا۔ شاعر غائب ہو گئے۔ “ممنون کہاں ہے؟ ذوق کہاں ہے؟ مومن خان کہاں ہے؟ دو باقی بچے ہیں۔ ایک آزردہ جو خاموش ہے اور دوسرا غالب جو گم ہے اور حواس میں نہیں۔ کوئی شعر کہنے والا نہیں اور کوئی شعر کا قدردان نہیں”۔ غالب کا اپنا بہت سا کام ضائع ہوا۔ وہ اپنی غزلوں کی کاپیاں اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔ ان کے دوستوں کی نجی لائبریریاں جہاں یہ موجود تھیں، تباہ ہونے کے ساتھ غالب کا بہت سا کام بھی چلا گیا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں، “کچھ روز پہلے ایک خوش الحان فقیر تھا جسے میری غزل کہیں سے ملی تھی اور اس نے اسے لکھ لیا تھا۔ جب اس نے مجھے دکھائی تو میری آنکھ میں آنسو آ گئے”۔

ایک اور 1861 کے خط میں، “شہر صحرا بن گیا ہے۔ دہلی والے اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں۔ کیا بے کار کی باتیں ہیں۔ اردو بازار تک تو بچا نہیں، اردو نے کہاں بچنا ہے۔ دہلی کو چار چیزیں زندہ رکھتی تھیں۔ قلعہ، جامعہ مسجد کا مجمع، جمنا کی سیر اور سالانہ پھولوں کا میلہ۔ ان میں سے کچھ نہیں رہا تو دہلی کہاں رہ سکتا تھا۔ ہاں، ہندوستان میں کبھی اس نام کا بھی ایک شہر ہوا کرتا تھا”۔

ایک اور خط میں، “آنسو پیاس نہیں بجھاتے۔ جب مایوسی حد سے بڑھتی ہے تو خود کو بس خدا کی رضا کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ مجھے اب موت کی امید ہے جو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ میری روح جسم میں ویسے ہے جیسے قفس میں بے قرار پرندہ”۔

نہ دہلی کالج رہا اور نہ مدرسے، نہ چھاپہ خانے اور نہ اردو اخبار اور مغل دربار کی سرپرستی کے بغیر دہلی کے آرٹ مرجھا گئے۔ انڈواسلامک تہذیب ختم ہوئی۔ غالب نے موت سے کچھ قبل لکھا، “یہ سب بس اس وقت تک تھا، جب تک بادشاہ تھے”۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر لال قلعے کے دیوانِ خاص کی۔ اس کو آفیسرز میس بنا لیا گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply