پانی کے مسئلے کا حل۔۔زین سہیل وارثی

پانی خدا کی ایک نعمت ہے، اس کا ضیاع مت کیجیے۔ یہ حدیث نبویﷺ  عام طور پر کم و بیش ہر مسجد میں وضو کرنے والی جگہ پر موجود ہوتی ہے۔ مگر افسوس اس پر عملدرآمد کے معاملے میں ہم کوسوں دور ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کے ذخائر بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شہروں میں کسی زمانے میں 100 سے 150 فٹ تک کھدائی کرنے پر صاف پانی میسر آ جاتا تھا مگر اب یہی 250 سے 350 فٹ تک چلا گیا ہے، جو انتہائی تشویشناک بات ہے۔ 1977 کے بعد سے اب تک کوئی بڑا آبی ذخیرہ یا ڈیم نہیں بنایا جا سکا۔ حالیہ دنوں میں بھاشا اور مہمند ڈیم کی سنگ بنیاد رکھی گئی ہے اور تعمیراتی کام شروع ہوا ہے، جو کم از کم 10 سال میں مکمل ہو گا، اگر مالی مدد چلتی رہی۔ ایسے میں پانی کی قلت سے بچنے کیلئے کچھ سدباب کرنا چاہیے، کیونکہ آئندہ آنے والے وقت میں ہماری آنے والی نسلوں کو بجلی و پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔

اگر حکومت چند ایک تجاویز پر عملدرآمد کر لے تو کسی حد تک اس اُبھرتے بحران پر قابو پا سکتی ہے۔
تمام ترقی یافتہ ممالک میں باورچی خانہ اور نہانے والے پانی کی نکاسی کیلئے علیحدہ پائپ کا انتظام ہوتا ہے۔ جو اس علاقے کے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کو جاتا ہے اور دوبارہ سے صاف اور شفاف ہو کر بذریعہ پائپ واپس اس علاقے کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ فضلہ جات والہ پانی علیحدہ پائپ کے ذریعے نکاسی آب کا حصہ بنتا ہے۔

اس کے علاوہ اکثر ممالک نے زیر زمین اور زمین کے اوپر تالاب بنائے ہوئے ہیں، جو بارش کا پانی ذخیرہ کرتے ہیں۔ اسے صاف کرکے شہر کی روزمرہ ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تمام کام وہاں کے ایم این اے اور ایم پی اے کی بجائے مقامی کونسل یا کارپوریشن کرتی ہے، اس میں باقاعدہ منصوبہ بندی اور پانی کا انجنیئر موجود ہوتا ہے، جو اس تمام عمل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
پانی کا بل طے شدہ (فکس) رکھنے کی بجائے، اگر لیٹرز کے حساب سے طے کر لیا جائے، نیز پیمائشی (میٹرنگ) نظام وضع کر لیا جائے، تو پانی کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے، جس کی بنیادی وجہ جیب پر اضافی بوجھ ہے۔

اس کے علاوہ زراعت کے شعبہ میں ہمیں اپنی تکنیکی سہولیات کو بدلنا پڑے گا۔ ان میں سب سے پہلے وہ فصلیں کاشت کرنی پڑیں گی، جو پانی کم استعمال کرتی ہیں۔ دوسرے حصے میں ہمیں پانی کی فراہمی کے لئے   کچے نالوں اور کھالوں کی بجائے پائپ کا سہارہ لیکر مختلف کھیتوں اور زمینوں کو پانی فراہم کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں معینہ وقت کے حساب سے چلنے والے والو valve اور سپرینکلر sprinkler استعمال کرنے پڑیں گے۔ جو کہ معینہ وقت کے لئے اور مخصوص مقدار میں چلیں۔ گرمیوں میں کھیتوں کو رات کو پانی لگانے پر زور دینا ہو گا۔ اس سے نا صرف پانی کا ضیاع کم ہو گا بلکہ اور بھی بہت ساری صنعتوں کو روزگار ملے گا۔ جن میں پائپ فٹر، فیبریکیٹر، فورمین، اور پلمبر شامل ہیں۔ اس طرح زراعت کے شعبے میں نئی جدت لائی جا سکتی ہے، نیز نہری پانی کی بندر بانٹ میں بےضابطگیوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کے مسائل میں بھی کمی آ سکتی ہے، کیونکہ ہر چیز آٹو میٹڈ ہو جائے گی۔ جس سے کرپشن اور دیگر تنازعات کا بھی سدباب ہو گا، اس آبپاشی کے نظام کے لئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک سے مدد لی جا سکتی ہے۔

آخری مسئلہ جو پانی سے متعلق ہے وہ ہمارا نکاسی آب کا نظام ہیں۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب بھی بارش ہوتی ہے تو نشیبی علاقوں میں سیلاب آ جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ ہم نے اپنی مرضی کے بین الاقوامی معیار سے مبّرا پائپ ڈیزائن کروا کر اپنی مرضی سے گھروں میں ڈلوائے ہوئیں۔ جن سے ہر قسم کا گند گزر کر نکاسی آب میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس میں پلاسٹک کے شاپنگ  بیگ، گیند اور نجانے کون کون سی اشیاء شامل ہیں۔ نتیجتاً  جب بارش ہوتی ہے، تو ہمارے گٹر جو عمومی طور پر پہلے سے بھرے ہوتے ہیں، ابلنے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں اب کم از کم اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ گھر کا گند خالی پلاٹوں اور سڑکوں پر پھینکنے کی بجائے مخصوص جگہ کا تعین کرکے ضائع کریں اور اس سے کھاد اور گیس بنانے جیسی مفید اشیاء پیدا کر سکیں۔ اگر ایسا نہ  ہوا تو آپ اس ملک کے ہر کونے میں نکاسی آب کے لئے ہر طرح کا پائپ ڈال لیں، آپ اس مسئلے کا حل کبھی نہیں نکال سکیں گے۔ اس کے علاوہ حکومت کو گھر کی نکاسی کے لئے پائپ کا معیار اور سائز فکس کر دینا چاہیے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں 1 سے 2 انچ کا پائپ سائز متعین ہے۔ تاکہ مختلف قسم کے نکاسی آب کے غیر معیاری پائپ اور سائز سے چھٹکارا ملے، تا کہ اگر پائپ میں کچھ غلط چیز چلی بھی جائے، تو وہ گھر میں ہی سنک (Sink) بند کر دے۔ بجائے اسکے کہ پورے علاقے کا گٹر ابلنا شروع ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان سب اقدامات سے سیاستدانوں کی ڈیم نہ  بننے کی وجہ سے غداری کے طعنوں سے، بارش میں فوٹو سیشن کرواتے وقت بوٹوں سے اور کشتیوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ مگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply