کامریڈ نذیر عباسی کون تھا؟۔۔محمد نواز کھوسو

کامریڈ نذیر عباسی 10 اپریل 1953 کو ٹنڈو اللہ یار میں جان محمد عباسی کے گھر پیدا ہوئے۔ حساس دل اور بیدار ذہن کے مالک نذیر عباسی طبیعتا” مزاحمتی تھے۔ محکوم طبقات کی مدد اپنی حیثیت کے مطابق کرتے تھے۔

کامریڈ نزیر عباسی نے سیاست کی شروعات مقامی قوم پرست طلبہ تنظیم “آزاد مارووڑا اسٹوڈنس فیڈریشن ” سے کی۔ اس نے اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزدوری بھی کی۔ اپنی اسٹوڈنس تنظیم کی طرف سے ٹنڈو اللہ یار میونسپل ورکرز کی حمایت میں بھوک ہڑتال کرنے کے جرم میں پہلی مرتبہ جیل گئے۔

سندھ یونیورسٹی جام شورو میں داخل ہوئے تو وہاں ان کی ملاقات ترقی پسند طالب علم رہنماؤں سے ہوئی۔ قوم پرست خیالات چھوڑ کر بائیں بازو کی مقبول طلبہ تنظیم “سندھ نیشنل اسٹوڈنس فیڈریشن” میں شامل ہوئے۔

1967-68 میں ملک میں ون یونٹ کی وجہ سے آگ لگی ہوئی تھی۔ ہر طرف لسانی نفرت اور نابرابری کی فضا تھی۔ بنگال کی سیاسی تحریک عروج پر تھی۔ ان حالات میں سیاست دان، طالب علم، ادیب، دانشور، شاعر، صحافی و کسان مزدور سب اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس ماحول کا نذیر عباسی کی زندگی پر گہرا اثر ہوا۔ مختلف مواقع پر ہونے والے احتجاجوں، بھوک ہڑتالوں میں شامل ہونا نذیر عباسی کا نصب العین بن گیا تھا۔

یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران نذیر عباسی نے مارکس، اینگلز، لینن اور اسٹالن کے افکار کا خوب مطالعہ کیا۔ ان سے انھیں معلوم ہوا کہ جدوجہد کے مقاصد کیا ہونے چاہیئں؟ انسانی سماج کے تضادات کیا ہیں؟ کون سا طبقہ تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔؟ نظریاتی سیاست نے اس کی انقلابی تربیت، ان میں اعتماد اور رہنمائی کی صلاحیتیں پیدا کیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے نذیر عباسی ملکی سطح پر ایک انقلابی طالب علم رہنما کی حیثیت میں ابھر کر سامنے آئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنس کے وائیس چیئرمین رہے۔ جو چاروں صوبوں کی ترقی پسند طلبہ تنظیموں کا اتحاد تھی۔ اس اتحاد میں بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن، سندھ نیشنل اسٹوڈنس فیڈریشن، پختون اسٹوڈنس فیڈریشن اور پنجاب اسٹوڈنس یونین شامل تھیں۔

ٹنڈو اللہ یار میونسپل ورکرز یونین ہو یا ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں، پٹ فیڈر کی ہاری تحریک ہو یا اسٹوڈنس فیڈریشنز کی تحریکیں نذیر عباسی ہر جگہ، ہر وقت پیش پیش رہے۔

کامریڈ نذیر عباسی کی شادی کامریڈ حمیدہ گھانگرو سے 4 فروری 1978 میں محراب پور میں ہوئی۔

نذیر عباسی پیدائشی انقلابی تھا۔ وہ استحصالی سماج اور سامراجی لوٹ مار کے سخت خلاف تھا۔ وہ طبقاتی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ اور کم عمری ہی میں کمیونسٹ پارٹی میں اہم مقام حاصل کر لیا۔ اس میں انقلابی لیڈر کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ نذیر سے پہلے کمیونسٹ پارٹی زیر زمین تھی کیونکہ حکومت کمیونسٹوں ملک دشمن قرار دے کر جیل میں ڈال دیتی تھی۔ اور عام لوگ مولویوں کے کہنے پہ انھیں کافر سمجھتے تھے۔

لیکن نزیر عباسی ببانگِ دہل مقامی و بین الاقوامی مسائل پر کھل کر گفتگو کرتا تھا۔ ایسی دیدہ دلیری بعض اوقات انھیں مہنگی بھی پڑ جاتی تھی۔ کارل مارکس کے بقول ” پرولتاری کے لیے کھونے کے لیے غلامی کی زنجیریں اور فتح کرنے کے لیے ساری دنیا پڑی ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

نذیر عباسی کو آخری مرتبہ مرتبہ 31 جولائی 1980 کو کراچی میں پارٹی دفتر سے گرفتار کیا گیا۔ آگے پیچھے اس دفتر سے کمیونسٹ پارٹی کی پوری قیادت گرفتار ہوگئی۔ اور ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جو جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ مسلسل 9 دن جسمانی تشدد و اذیت دے کر آمر ضیاءالحق کے گماشتے امتیاز بلا نے انھیں شہید کیا۔ اور اس طرح دنیا کے اس بہادر کمیونسٹ نے شہادت کا جام پینا تو گوارا کیا مگر آمریت کے آگے سر نہ جھکایا۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply