• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تصوف کی ضرورت اور اربابِ تصوف کے بارے میں عمومی غلط فہمیاں۔۔حافظ صفوان محمد

تصوف کی ضرورت اور اربابِ تصوف کے بارے میں عمومی غلط فہمیاں۔۔حافظ صفوان محمد

نوٹ (1): کیا اسلام اور تصوف مترادف ہیں؟ کیا مذہب اور تصوف مترادف ہیں؟ کیا تصوف سکھانے کے لیے صوفی مبعوث ہوتے ہیں جیسے مذہب سکھانے کے لیے نبی مبعوث ہوتے تھے؟ وغیرہ وغیرہ جیسے سوالوں کے جوابات کے لیے یہ چند سطریں اردو انگریزی بولنے والے عام لوگوں کے لیے اُن کی سمجھ میں آنے والے الفاظ میں لکھی جا رہی ہیں، اور صرف اُتنا لکھا جا رہا ہے جو اُن کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی مذہبیات کی مدرسی تعلیم پائے لوگ اِس مضمون کے مخاطب نہیں ہیں۔
(2): یہ واضح کر دوں کہ میں تصوف کا “منکر” نہیں ہوں۔ میں نے اپنے والد صاحب کے حکم پر سب سے پہلے مولانا محمد احمد انصاری اور مفتی زین العابدین صاحب کو بیعت و اصلاح کے لیے خطوط لکھے اور ہر دو حضرات کے تحریری حکم پر حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی سے بیعت کی۔ یہ بیعت رائے ونڈ کے مجمع کی عمومی بیعت کے علاوہ یعنی خصوصی بیعت تھی۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا خان محمد صاحب سے بیعت ہوا، جن کے خلیفہ مولانا نذر الرحمٰن صاحب اس وقت تبلیغی جماعت کے امیر ہیں۔
.

Advertisements
julia rana solicitors

قرآن جیسی کتاب کو خدا نے سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے اور بار بار اعلان کیا ہے کہ اِس میں سے کمی یا کجی نکالو۔ یہ اعلان اور دعویٰ یقینًا اہلِ علم بلکہ رسوخ فی العلم والے لوگوں سے کیا گیا ہے۔ قرآن میں غور و فکر کی دعوت بھی اہلِ علم و فکر کو دی گئی ہے۔
وہ قرآن جو ہدایت کی کھلی اور واضح کتاب ہے اور جس کو سمجھنے کے لیے آسان بناکر ساری انسانیت کے لیے اتارا گیا اور قیامت تک آنے والی انسانیت کے فہم و ادراک پر اعتماد کرتے ہوئے نبیوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا، اُس کے بارے میں خدا نے اشارۃً بھی نہیں کہا کہ اِسے سجھنے کے لیے فلاں فلاں کے پاس جانا ہوگا یا فلاں فلاں علوم حاصل کرنا ہوں گے۔ خدا نے ہر قسم کے اربابًا من دون اللہ (خدا کے علاوہ اور خداؤں ربوں مشکل کشاؤں کارگزاروں) کا کھلا اور قطعی انکار کیا ہے اور ایسی کسی بھی کوشش یا خواہش کو شرک (Associationism) کہا ہے، اور اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سوائے اِس کے سبھی گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔
اب ایسی کتابیں جنھیں لکھنے والوں نے خود کہا ہے کہ اِن کے مضامین و مفاہیم خفیہ ہیں اور اِن کو سمجھنے کے لیے اُن جیسے انسانوں کی ضرورت رہتی ہے، تو یہ کتابیں اور یہ علوم قرآن جیسی واضح اور کھلی کتابِ ہدایت کے متوازی ہیں۔ یہی بات علامہ اقبال نے تصوف کے بارے میں کہی تھی کہ تصوف سرزمینِ اسلام میں اجنبی پودا ہے۔ اصولی بات ہے کہ جب حال اور قال میں فرق ہوتا ہے اور حال یعنی احساسات و جذبات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا تو جن صوفیہ نے تصوف کی باتیں (قال) اپنی کتابوں میں لکھی ہیں اُن کی کیا حیثیت ہے؟ اگر کسی کتاب میں لکھی باتوں کا زبان و بیان کے اصولوں سے جو مطلب نکلتا ہے وہ درست نہیں ہے تو ایسی کتابیں لکھی اور چھاپی کیوں جاتی ہیں؟ کیا انسان کو ہدایت کے لیے معمیاتِ جامی یا Gibsons Oxford Puzzle وغیرہ پر عبور ہونا چاہیے؟ کیا اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہدایت صرف چند خاص اور ذہین ترین لوگوں کے لیے ہے اور باقی ساری انسانیت بے عقل و شعور چوپایوں جیسی ہے؟ اور اگر ایسا ہے کہ تو اِس انسانیت سے قیامت کے روز حساب کس چیز کا لیا جائے گا؟
اہلِ تصوف کہتے ہیں کہ دین کا منتہائے کمال “احسان” ہے، جس کے حصول کا کوئی طریقہ قرآن و سنت میں بیان نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ درجہ آپ کی صحبت ہی سے حاصل ہو جاتا تھا لیکن آپ کے بعد جب اِس کا حصول لوگوں کے لیے مشکل ہوا تو یہ اربابِ تصوف (تصوف کے رب) تھے جنھوں نے اپنے اجتہاد سے اِس کے طریقے “ایجاد” کیے اور بالآخر ایک فن کی صورت میں اِسے بالکل مرتب کر دیا، جسے “طریقت” کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جیسے نورانی قاعدہ الہامی کلام نہیں اور نہ اِس کے پڑھنے کا کوئی اجر ہے بلکہ یہ تجوید سیکھنے کا ایک آلہ ہے بالکل یہی طریقت کا بھی حال ہے۔
الہام و کشف بلاتفریقِ جنس و مذہب کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ نبی کے الہام و کشف کو اصطلاحًا وحی کہتے ہیں۔ الہام و کشف کی بنیاد پر صرف نبی ہی اپنا حکم ماننے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ یہی نبوت کا منصب ہے اور یہی خدا کا حکم ہے۔ وحی کا سلسلہ قیامت تک کے لیے بند کیا جاچکا ہے۔ یاد رہے کہ آج کل عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر آپ خدا سے باتیں کرتے ہیں تو آپ دماغی طور پر ٹھیک ہیں لیکن اگر خدا آپ سے بات کرتا ہے تو آپ کا ذہنی توازن خراب ہے، یعنی آپ کو Hallucinations ہوتی ہیں۔
قرآن اپنا مقصدِ نزول یعنی ہدایت دِہی پورا کر رہا ہے اور آج تک لوگ اِسے پڑھ کر ایمان لا رہے ہیں۔ اگر آپ ہدایت کے لیے قرآن کو ناکافی سمجھتے ہیں اور تصوف کی مشقوں کو ضروری خیال کرتے ہیں تو ضرور کیجیے۔ کمزور اور بیمار لوگ مختلف قسم کی دوائیں لیتے ہی ہیں، آپ بھی لیجیے۔ تصوف کی دوا یا رنگین شراب کا ذائقہ وہی جانے گا جس نے یہ پی رکھی ہوگی۔ تصوف کی شراب کا نشہ بھی صرف اُسے چڑھے گا جس نے یہ پی رکھی ہوگی۔ جس نے جتنی زیادہ یا تیز اثر شراب پی رکھی ہوگی اُس کا نشہ اُتنا ہی تیز ہوگا اور عقل کا فتور بھی ایضًا۔ چنانچہ تصوف کی شراب کا نشہ جوں جوں چڑھتا جاتا جاتا ہے توں توں انسان اپنے سماج سے لاتعلق ہوتا جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ رندانِ باہوش اِس سرمستی (حال) میں بھی خوب ہوشیار رہتے ہیں۔ ہاں، کچی شراب پینے والا ضرور مرے گا۔ ٹھرّا پینے والا کب تک باحواس رہ سکتا ہے؟
الغرض جسے صوفی بننا ہے وہ اِس فن میں مہارت حاصل کرنے کی ضرور مشقت کرے، کس نے روکا ہے؟ آپ ڈاکٹر انجینئر سائنسدان فوجی مکینک وغیرہ بننے کے لیے بھی تو مشقت کرتے ہیں۔ ضرور کیجیے۔ بس یہ مہربانی کیجیے کہ صوفی بننے کو اسلام یا ایمان کا مترادف نہ بنائیے۔ جیسے ہر انسان کے لیے ڈاکٹر یا انجینئر یا سائنسدان یا فوجی یا مکینک بننا ضروری نہیں ویسے ہی ہر مسلمان کے لیے صوفی بننا بھی ضروری نہیں۔ معاشی ضروریات کے لیے جیسے ڈاکٹر انجینئر فوجی یا مکینک بنا جاسکتا ہے ویسے ہی صوفی بھی بنا جاسکتا ہے اور اپنے فرقے کی مخصوص صوفیانہ وضع قطع بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شرعی عذر نہیں۔ پیشے میں کیسی شرم؟ الکاسب حبیب اللہ۔
القصہ اسلام اور تصوف یا مذہب اور تصوف مترادف نہیں ہیں۔ تصوف ایک ہنر اور فن ہے جسے محنت سے کمایا (Earn) یعنی حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے حصول کے لیے کسی مذہب کی شرط نہیں ہے۔ کسی بھی مذہب والا یا لامذہب شخص، مرد ہو یا عورت، بقدرِ ہمت و مشق اِسے سیکھ سکتا ہے۔ جتنے اچھے اور مہنگے کوچ سے یہ ہنر سیکھا جائے گا اُتنی ہی اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل ہونے کا امکان ہے۔ خوبیِ قسمت سے اگر عالمی شہرت اور رسائی رکھنے والے کوچ سے کوچنگ لینے کا موقع مل جائے تو اُس کے سالک کو بھی یہ نسبتیں مل جائیں گی۔ تاہم راہِ تصوف میں سالک ہمیشہ سالک ہی رہتا ہے اور اِس شعبے کی قدیمی گدیوں ہی میں سے کسی ایک کا تازندگی مرید و خادم ہوتا ہے۔ اپنے پیر اور پیر خانے کے بارے میں محض ایک چشم زدن کا خیالِ غلط بھی “فیض کی لہر کٹ جانے کا سبب” ہوتا ہے۔ راندۂ درگاہ (Driven out) اُس سالک کو کہتے ہیں جسے پیر کی درگاہ سے نکال دیا گیا ہو۔
جاننا چاہیے کہ پیر خانے یا خانقاہ کا تصور اسلام سے بہت زیادہ پرانا ہے چنانچہ طریقہائے تصوف بھی ایضًا۔ صوفی زندہ پیر کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے نہ کہ قبر کے کتبے پر۔ اگر کسی متوفیٰ سے ارادت ہو تو اُس کی تعلیمات کا دائرہ کھینچتا ہے۔ گرجا گھروں سے ملحق قبرستان اور درس و تدریس کے انتظامات پر نگاہ ڈالیے، پھر جدِ نبوی کے اہلِ صوف اور ازاں بعد مسجدِ نبوی سے ملحق روضۂ رسول کی روایت سے مصر و شام کے مقابر اور زائرین کی روایت کو آگے بڑھاتے چلے جائیے۔ اب معاملہ قبر پرستی سے بڑھ کر تعلیمات کے اتباع تک جا پہنچا ہے۔ البتہ مسلمانوں کو حجتِ مسلسل کی عادت ہے اِس لیے وہ تصوف سے انکار بھی کرتے چلے جاتے ہیں اور مقابر پر چڑھائی جانے والی چادروں کا کاروبار بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ زندہ صوفی اِن کے راستے کی رکاوٹ ہے، اِسے زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکتے البتہ قبر کو زندہ رکھنے کی لامتناہی تعبیر کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ قبریں زندہ ہیں اور تعلیمات مر گئی ہیں۔
مذہب سکھانے کے لیے نبی مبعوث ہوتے تھے جو انسانیت کے لیے بلامعاوضہ یہ خدمات انجام دیتے تھے لیکن تصوف سکھانے کے لیے صوفی خدا کی طرف سے مبعوث نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ یہ کام کسبًا اور بطور پیشہ کرتے ہیں اور اِس کا معاوضہ و نذرانہ لیتے ہیں خواہ آپ کو اِس کا فوری احساس ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ تصوف کے پیشے سے منسلک لوگ آپ کو ظاہراً کسی طرح کی محنت مشقت کرتے نہیں ملیں گے۔ اِن کی شاہانہ گزر بسر آپ جیسوں کے محنت سے کمائے ہوئے پیسے پر ہوتی ہے۔
جو شخص خدا اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی طرح جان لے کہ ہر پیشے کی طرح تصوف کے پیشے کا تعلق بھی صرف دنیا اور دنیا داری سے ہے۔ آنکھ بند ہوتے ہی اِس کا حاصل وصول ختم۔ قبر حشر میں اِس کا کوئی پرسان نہیں ہے۔ قیامت کے دن تصوف کی کسی مشق کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا اور نہ کسی صوفیانہ چلے وظیفے پر کوئی اجر دیا جائے گا۔ قرآن ایسی کسی خبر سے خالی ہے کہ قبر حشر کے سوالات میں تصوف کا کوئی سوال شامل ہوگا۔ ابنِ عربی ہوں یا غزالی یا کوئی اور قطب زید بکر عمرو، قیامت کے دن ان کا حساب عام انسانوں ہی کے ساتھ ہوگا نہ کہ نبیوں کے ساتھ۔ لوگوں کو اپنے عملوں کا حساب دینا ہوگا جب کہ اِن خدا دان اربابِ تصوف کو اپنے لکھے کا حساب بھی دینا ہوگا۔ اے عدم کے مسافر، ہوش کر ہوش!

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply