خواب۔۔افراح مرتضیٰ

کمرے میں چاروں طرف اے سی کی خنکی پھیلی ہوئی تھی۔ عالیشان کمرے میں ہر چیز اپنی مثال آپ تھی سب کچھ بالکل ویسا ہی تھا جیسا اسے پسند تھا۔ اسے لگتا تھا وہ اپنی خوشیوں کا محل تعمیر کر چکی ہے۔ لیکن وہ غلط تھی۔اسے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو چکا تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں گھٹن کا احساس زور پکڑتا چلا جا رہا تھا۔ اسے اس قدر روشنی سے وحشت ہونے لگی تھی کمرے میں موجود ہر روشن چیز کو گل کرنے کے بعد اسنے آگے بڑھ کر کھڑکی کا پٹ کھول دیا۔ اور اپنے بےجان وجود کو کھڑکی کے سامنے پڑی کرسی پر ٹکا دیا۔
اسکی آنکھیں دور خلاء میں کسی اور ہی نقطے پر جمی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا  چھانے لگا۔
وہ ایک کال کوٹھری میں قید ہے
اس کے سارے وجود کو بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا ہے
بیڑیاں، خوابوں کی بیڑیاں اس کے نرم و نازک جسم پر اپنے نشان چھوڑتی جا رہی ہیں۔
اس کے بے داغ وجود کو داغ دار کر رہی ہیں۔
کرب ہے انتہا کا کرب
کچھ آوازیں شامل ہو رہی ہیں اس سارے ماحول میں بدنما آوازیں
آوازوں کا شور بڑھتا جا رہا ہے۔
لوگ بین کر رہے ہیں خوابوں کے ٹوٹنے پر ان میں شامل ایک آواز اس کی بھی ہے۔ ۔
فاریہ ۔۔ وہ اپنے نام پر چونکی اس نے بیڑیوں میں گھری اپنی ناتواں گردن کو آواز کی سمت اٹھایا۔
اک لا حاصل خواب ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کہاں تھی اسے معلوم نہیں تھا۔ چاروں طرف گہری تاریکی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا اور اک ناقابل بیان سناٹا اسکی روح میں اترتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے انگلیوں کی پوروں سے گہرے اندھیرے کو ٹٹولتی گرتی پڑتی ایک غیر مانوس راستے پر چلتی جا رہی تھی۔
وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ اسکی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ خوف کے سائے اس کے چہرے پر صاف دکھائی دینے لگے تھے۔اسکی سانسیں اکھڑنا شروع ہو چکی تھیں۔ سفر مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا تھا۔اس نے گھبرا کر پکارنا شروع کیا
کوئی ہے؟؟
کیا کوئی ہے یہاں؟
میں کہاں ہوں؟
کوئی تو جواب دو۔۔
پل بھر کے لیے اس کے دائیں جانب روشن فانوس نمودار ہوئے۔ قریب جا کر دیکھنے پر اسے معلوم ہوا وہ فانوس اصل میں فانوس نہیں درخت ہیں جگنوؤں سے سجے ہوئے روشن چمکدار۔۔۔
ہر درخت پر ایک نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ ابھی وہ اطراف کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ آسمان کو چھوتے درخت روئی کی طرح ہوا میں بکھر کر غائب ہونے لگے تھے۔ قطار در قطار روشن جنگل ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ اور دودھ کی طرح پھیلی چاندنی پھر سے قبر کی تاریکی میں بدل چکی تھی۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ایک واحد آواز جو اس سناٹے میں سنی جا سکتی تھی وہ اس کے ڈرے سہمے دل کی تھی۔
اس ویرانے میں اسے ایک طرف روشنی کی کرن یکھائی دی۔ جیسے ناامیدی میں امید کی کرن جو انسان کو روشن راہ کی طرف گامزن کرتی ہے۔ نا امیدی میں پھنسے دل کو امید کی شمع سے روشن کر دیتی ہے۔

تیز تیز قدموں کے ساتھ اس ایک روشن کرن کی انگلی تھامے آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ روشنیوں کا مجسمہ اس کے سامنے تھا لیکن ابھی بھی کچھ مسافت تہہ کرنا باقی تھی۔ اس نے اردگرد نظر گھما کر چاروں اطراف کا جائزہ لیا۔وہ ایک طویل ویران راستے سے نکل کر ایک چھوٹے سے رہائشی علاقے میں پہنچ چکی تھی۔ ہر طرف ویرانی تھی ہر گھر کے اوپر ایک عجیب قسم کا سایہ تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر گھروں کے اندر کا جائزہ لینا شروع کیا لیکن خاموشی اور اندھیرے کے علاوہ وہاں کچھ نہ تھا۔
اس نے اپنی توجہ پھر سے اس روشن مجسمے پر ڈالی جو اس رہائشی علاقے سے کچھ اونچائی پر واقع تھا۔ ڈھلوانی راستے کو عبور کر کے وہ اب اپنی منزل تک پہنچ چکی تھی۔ وہاں کھڑی وہ ابھی تک نیچے واقع علاقے کی وحشت کو محسوس کر سکتی تھی ۔ اسکی نظر آسمان پر پڑی تو ناامیدی اور ادھورے خوابوں کا پرندہ اس پورے علاقے کے اوپر منڈلا رہا تھا۔

موسم بھی شدت پکڑتا جا رہا تھا۔ ہواؤں کا زور اور بادلوں کی گرج اسکا وہاں کھڑے رہنا مزید مشکل بنا رہی تھی۔اسنے  خود کوموسم کی سختی سے بچانے کے لیے مجسّمے کی اوٹھ میں پناہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی،اسی اثنا میں اسے وہاں موجود گھر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔

بیٹی تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
ایک متوسّط العمر شخص دروازے کے پیچھے سے نمودار ہوئے۔ چہرے پر پھیلا سکون و اطمینان۔آنکھوں سے چھلکتی شفقت، سر اور داڑھی کے بال چاندی کی طرح سفید،چہرے پر پھیلا نور، سفید شلوار قمیض پر خاکی رنگ کا چوگا پہنے آواز میں ڈھیروں چاشنی سمیٹے وہ اس کی مشکل دریافت کر رہے تھے۔
وہ۔۔ بابا مجھے ایک سوال کے جواب کی تلاش ہے فاریہ نے کہا۔

آؤ اندر آ جاؤ۔ باہر زیادہ دیر رکنا ٹھیک نہیں۔ بابا اپنی گہری بھوری آنکھوں سے آسمان کا جائزہ لیتے اسے حالات سے آگاہ کر رہے تھے۔
گھر کا دروازہ عبور کر کے وہ ایک حال نما کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔ کمرے کے وسط میں ایک بڑا سا میز رکھا گیا تھا جس پر خوبصورت کانچ کے چھوٹے چھوٹے puzzle box نما ڈبے پڑے دکھائی دے رہے تھے۔ کمرے کے دائیں اور بائیں جانب شلف بنائے گئے تھے جس پر عجیب سے تھیلیاں رکھی گئی تھیں جن سے مختلف رنگ نکلتے دکھائی دے رہے تھے۔
تم یہاں بیٹھو بیٹی کچھ دیر آرام کرلو لگتا ہے کافی لمبا سفر کر کے تم یہاں تک پہنچی ہو۔ میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔یہ بات کہہ کر بابا کمرے کے عقب میں پڑی لکڑی کی جالی نما دیوار کے پیچھے غائب ہو گئے۔
کمرے میں ٹھلتے وہ ہر ایک چیز کا عمومی جائزہ لے رہی تھی۔ اسکی نظر میز پر پڑے کانچ کے بکسوں پر جا ٹھہری جیسے ہی اس نے ان کانچ کے بکسوں کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ایک گرج دار آواز نے اسے وہی شل کر دیا
ہاتھ مت لگانا اسے( بابا کی آواز)
اسے اس سارے وقت میں پہلی بار بابا سے خوف آیا تھا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔
بابا نے جلدی جلدی سارے کانچ کے بکسوں کو اپنے تھیلے میں چھپا لیا۔
اور پھر شفقت سے فاریہ کو گرم دودھ کا پیالہ تھمایا۔ اور اس کے سامنے بیٹھ گئے۔
گرم دودھ کے گھونٹ بھرتے وہ بابا کی معمولی باتوں کا جواب دیتی جاتی۔ پھر اس نے ہمت کر کے بابا سے پوچھا:
بابا ان کانچ کے بکسوں میں کیا ہے؟ اور یہ ہر طرف اتنی رنگیں روشنياں کہاں سے آ رہی ہیں؟
ایک توقف کے بعد  بابا کی آواز پھر سے ماحول میں گونجنے لگی۔
وہ خواب ہیں بیٹی قیمتی خواب۔
کس کے خواب بابا؟؟ فاریہ کی آواز پر بابا نے سوچتی آنکھوں سے
شلف پر پڑی ننھی ننھی تھیلیوں کو دیکھا۔اور پھر سے گویا ہوئے
میں خواب فروش ہوں بیٹی۔ لوگو کو خواب بیچتا ہوں۔
فاریہ نے دلچسپی سے پوچھا کیا میں صرف ایک بار ان خوابوں کو دیکھ سکتی ہوں؟

بالکل نہیں!
خواب بہت نازک ہوتے ہیں بیٹی ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ مخمل کی طرح نازک ذرا سختی سے چھو بھی لیا جائے تو ٹوٹ کر بکھر  جاتے ہیں۔ اور ان ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں خواب دیکھنے والے کی آنکھوں میں تاعمر قید رہتی ہیں۔ ہزاروں خواہشیں  پوری ہو بھی جائیں لیکن پھر بھی ادھورے خواب پیچھا نہیں چھوڑتے۔
بابا! فاریہ کی آواز پر خواب فروش کی باتوں کا تسلسل ٹوٹا
میں دور سے ہی دیکھوں گی وعدہ کرتی ہوں بس ایک بار ۔۔۔۔

ابھی اسکی بات پوری نہ  ہوئی تھی۔۔ ٹھیک ہے چلو میرے ساتھ لیکن دھیان رکھنا میں نے کہا ہے نا بہت قیمتی اور نازک ہوتے ہیں یہ خواب اگر نقصان ہو گیا تو اسکا ازالہ ناممکن ہوگا پھر خواب فروش کے پیچھے ایک ایک قدم اٹھاتی وہ ساری ہدایات اپنے دماغ کے اندر انڈیلتی جا رہی تھی۔ گھر کے عقبی دروازے سے نکل کر وہ ایک بار پھر سے جگنوؤں سے جگمگاتے جنگل کے سامنے کھڑی تھی۔
یہ جگنو دیکھ رہی ہو یہ خواب ہیں خوبصورت خواب جو ہر کوئی اپنے دل میں چھپائے رکھتا ہے۔ جن کو اپنے دل کے خاص صندوق میں رکھ دیا جاتا ہے تا کہ یہ تاعمر اسی طرح خوبصورت رہیں۔
وہ ہر جگنوؤں سے اٹے فانوس کے آگے رکتی جاتی۔ ہر فانوس پر اس کے مالک کا نام درج تھا۔ کئی مانوس نام بھی اسکی نظروں کے آگے سے گزرے۔
ارے یہ تو حوریہ کے خواب ہیں روشن چمکدار (کالج میں ایڈمشن ہو جاۓ بس اور قسمت کی دیوی نے اس خواب کو پورا کر دیا) ان گنت خواب نظر آرہے تھے۔
اس سے آگے ایک طرف گلی میں گھومتے چھوٹے بچے
علیان
زویا
زوار
انکی ننھی آنکھوں میں قید کھلونوں کی جستجو سے لے کر ننھے ننھے خواب آنکھوں کی دہلیزوں سے چپکے ہوئے تھے ۔
ایک روشن درخت پر اسکی نظر جا اٹکی
اس پر اس کے نام کی تختی لگی دکھائی  دے رہی تھی۔
فاریہ زمان
اس نے اپنے خوابوں کے فانوس کے نیچے کھڑے ہو کر بچپن سے لے کر ایک ایک خواب ایک ایک یاد کا بغور جائزہ لیا۔
لاکھوں خواہشات کا ڈھیر اور قیمتی خوابوں کے خزانے اس کے سامنے تھے۔
بچپن کی toy cycle کی خوائش سے لے کر کالج ٹائم تک کا ایک ایک خواب اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔
وہ سرما کی پہلی بارش کی یادیں

 بہار میں کھلتے پہلے گلاب کی خوشبو

پہلی محبت ۔۔
اور یہ کیا خواہشات اور روشن خوابوں کا انبار ٹوٹ کر بکھرنے لگا تھا۔ ارے یہ میرے خواب کیا ہو رہا ہے دیکھتے ہی دیکھتے فانوس کے تمام جگنو اُڑچکے تھے اور ایک بے یقینی کی کیفیت سے وہ اپنے مرجھائے ہوئے لاغر درخت کو دیکھ رہی تھی۔ جسے ہجر کی دیمک چاٹ کر ختم کر چکی تھی۔ اور اب یہ زہر اسکی جڑوں تک اتر چکا تھا۔
جن کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان کا انجام یہی ہوتا ہے بیٹی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بار خواب فروش کی آواز بھی اس کے ذہن میں چلتے تسلسل کو توڑ نہ   سکی۔ اسے اس کے سارے جواب مل چکے تھے۔ اسے سمجھ آ چکا تھا کہ مستقبل کی تلاش میں ہم اتنا آگے نکل آتے ہیں کہ بہت سی چیزوں کو ماضی میں ہی چھوڑ آتے ہیں یا یوں کہیں کہ چھوڑنا پڑتا ہے لاحاصل کو حاصل بنانے کے لئے لیکن ہمارا دل وہیں کہیں ماضی کو قید کئے اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ماضی کی حسین اور تلخ یادیں بھی دل کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں ۔ پھر ایک دن ہم زندگی کے مصروف ترین ايام سے تھک ہار کر جب کمرے کے کسی کونے میں پڑی کرسی پر سر ٹکا کر دیر تلک دلِ ویراں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ دل کی وادی میں جابجا خواہشوں کا ڈھیر پڑا نظر آتا ہے کہیں لاحاصل کی تمنا کہیں جنوں کہیں کرب کہیں حاصل کا نشہ تو کہیں مصنوئی خوشیوں کا انبار پڑا ملتا ہے۔ دل کے مدفن میں دروازے کے اُس پار ایک صندوق پڑا نظر آتا ہے۔ جس میں یادوں کے خزانے پڑے ملتے ہیں۔ ایک ایک حسین یاد کھلکھلاتی نظر آتی ہے۔ حسین یادوں کی ریل چلنے لگتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے وقت کے چکر کو الٹا گھما دیا ہو ماضی پھر سے لوٹ آیا ہو یا پھر ہمیں ہی اٹھا کر اس سنہرے دور میں پٹخ دیا ہو۔ یادوں کے میلے میں دور سب کے بیچ ایک سب سے متعبر یاد شاہی پوشاک پہنے پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے تخت پر براجمان نظر آتی ہے۔ سب یادوں پر حکمراں سب سے افضل آہستہ آہستہ باقی تمام یادوں کی چمک مانند پڑنی شروع ہو جاتی ہے۔ہمیشہ کی طرح اس بار پھر سے جیت اسی کی ہوئی ایک انتظار کی ایک ادھورے خواب کی ۔یہ دل بھی عجیب چیز ہے ادھورے قصوں کو مکمل پر فوقیت دے جاتا ہے۔ زندگی بھر کی خوشیوں پر خاک ڈال کر ادھورے قصوں کو مکمل کرنے کے خواب بُنتا ہے اور تاعمر اس خواب کی تعبیر کا انتظار کرتا ہے۔ جن کو بھول جانا لازم ہو انہی کو یاد رکھتا ہے۔ یہ دل بس ایسا ہی ہے اب دل پر کسی کا زور تھوڑی ہے۔ فون کی آواز سے یادوں کا تسلسل ٹوٹا وقت کا پہیا پھر سے گھوما اور پھر سے حال میں لا پھینکا کمرے کی اسی تنہائی میں سب پہلے جیسا ہی تھا وہی تاریک کمرہ، گھڑی کی سوئیوں کی آواز کھڑکی سے آتی تیز ہوائیں اضافہ ہوا تھا تو بارش سے پہلے مٹی کی خوشبو کا اور بس۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”خواب۔۔افراح مرتضیٰ

Leave a Reply to افراح مرتضیٰ Cancel reply