انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس32)

آج دوپہر کے بعد طالب علم داخل مجلس ہوا۔وہ کچھ دن شہر میں گزار کر آیا تھا۔اس نے مسافر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ آج کل شہر میں زبان پر بحث ہو رہی ہے۔زبان ہماری تہذیب کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اگر زبان درست استعمال کی جائے اور الفاظ کے معانی صحیح معلوم کر لئے جائیں۔ تو انسان کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے بہت سے مسائل زنان کے پیدا کردہ ہیں۔ ہمیں اپنے تصورات کو راسخ کرنا ہے۔ انہیں ابہام سے پاک کرنے کے لیے پرانے معیار کو تبدیل کرنا ہے۔
ابوالحسن طالب علم کی گفتگو سنتا رہا، طالب علم اپنے نقطہ نظر پر مصر تھا۔

ابوالحسن نے کہا۔ طالب علم الفاظ تو اطلاع دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ابلاغ ماورائے زبان ہوتا ہے۔ الفاظ سے بالا ہے۔ مفہوم سننے والے کے ذہن میں ہوتا ہے الفاظ میں نہیں۔
دیکھ، ایک شخص نے تیس سال جیل میں گزارے۔ اس جملے کا مفہوم سوائے اس کے اور کچھ نہیں۔ ایک شخص کے بارے بتایا جا رہا ہے کہ وہ تیس برسوں تک جیل میں قید رہا۔ جیل کیا ہے۔اور قید کیا ہے۔ہر شخص کے ذہن میں اس کا مفہوم مختلف ہے۔ اور اسی تصور کے مطابق اس شخص کی تکالیف اور صعوبتوں کا احساس ہو گا۔جب ہم یہ فقرہ کہتے ہیں۔ضروری نہیں۔کہ سب تک اس کا مفہوم یکساں پہنچے۔یہ ممکن ہے کہ لوگ اس پر توجہ ہی نہ دیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ توجہ تو دیں لیکن اہمیت نہ دیں۔پس ثابت ہوا۔معانی الفاظ میں نہیں الفاظ سے الگ ہیں۔
پس زبان کی اہمیت اس سے زیادہ نہیں۔ اس میں زیادہ ذہن نہ کھپاؤ۔زبان کو لوگ ہی بامعنی بناتے ہیں۔یہ معاشرتی عمل ہے۔جو نسل در نسل جاری ہے۔

دانش ور طالب علم سے مخاطب ہوا، کہنے لگا۔ میں نے بہت غور کیا۔ہمارا مسئلہ زبان نہیں۔قانون کی حکمرانی ہے۔ اگر قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے۔تو تمام مسائل حل ہو جائیں۔طالب علم نے دانش ور کو ٹوکتے ہوئے کہا۔قانون کی بھی تو زبان ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابوالحسن نے کہا۔طالب علم ٹھیک کہتے ہو۔اگر واقعی ہی قانون کی حکمرانی ہو اور معاشرے میں عدل قائم ہو۔ تو وہ معاشرہ جنت ہے۔مگر ایسا ہوتا نہیں۔قانون کی حکمرانی کی بجائے قانون والوں کی حکمرانی ہو جاتی ہے۔ مسائل وہی کے وہی پڑے رہتے ہیں۔ پس یہ فرق بڑا اہم ہے۔اسے جاننا چاہیے۔
آج کی مجلس طویل ہو گئی۔ مغرب کے وقت اختتام پذیر ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply