• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاک سعودیہ تعلقات مذہبی کارڈ سے قومی مفاد تک؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

پاک سعودیہ تعلقات مذہبی کارڈ سے قومی مفاد تک؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات حکومتی اور عوامی سطح پر بہت اچھے رہے ہیں۔ ارض حرمین کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں موجود احترام کو ہمیشہ آل سعود نے اپنی خارجہ پالیسی کے لیے استعمال کیا ہے۔ جب سعودی عرب کی کسی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو فوراً مذہبی بیانیہ کے اعتراضات سامنے آجاتے ہیں اور بات اصل مسئلہ سے فرقہ واریت کی طرف چلی جاتی ہے۔ قومی ریاستیں اپنے تعلقات میں جذبات اور مذہب کی بجائے مفادات کو عزیز رکھتی ہیں اور ہر صورت میں اسی کا تحفظ چاہتی ہیں۔ ہم امہ کے درد میں الجھ کر بڑا عرصہ سعودی مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بیالیس ملکوں کا فوجی اتحاد بنایا گیا، جس کا ہیڈکوارٹر ریاض بنا تو یہ کہا گیا کہ یہ اتحاد عالم اسلام کی حفاظت کرے گا۔ ہم نے اس وقت بھی بارہا کہا تھا کہ یہ عالم اسلام کے تحفظ کا اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ آل سعود کے تحفظ کا تحاد ہے، جس پر ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ ایسا ہی تھا۔

جب کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر صیہونیوں اور بھارتی استعمار کی طرف سے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے تو یہ اتحاد کہیں نظر نہیں آیا، مگر جیسے ہی یہ لگا کہ یمن کے مظلوم لوگ آزادی کا سانس لے رہے ہیں تو یہ اتحاد اس مومن مسلم ملک کی نہتی عوام پر حملہ آور ہوگیا۔ پچھلے چند دنوں سے کچھ اشارے مل رہے تھے کہ وطن عزیز کی فیصلہ کرنے والی قوتیں پالیسی شفٹ کا فیصلہ کرنے والی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان اس موڑ پر آگیا ہے، جہاں اسی امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی ہر موقع پر بے وفائی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ہم چین کے ساتھ ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی وعدے کے باوجود اس وقت مدد نہ کی، جب وطن عزیز کی افواج جنگ لڑ رہی تھیں اور پاکستان اس کی بے وفائی اور دھوکے کی وجہ سے دو لخت ہوگیا۔ بہت سے لوگ امریکی بیڑوں کا انتظار کرتے رہے، جو نہ آئے اور نہ ہی انہیں آنا تھا۔ چین کی بھاری انویسٹمنٹ اور امریکہ کی بار بار پاکستانی حدود کی بیحرمتی اور ہر موقع پر بھارت نوازی نے رہی سہی کسر نکال دی۔

چند دن پہلے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یمن میں ایک انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے اور پاکستان نے یمن میں قیام امن کے لیے کوشش کی ہے۔ اس سے وزیراعظم نے یمن پر سعودی پالیسی کو بلواسطہ انسانی المیہ کو جنم دینے والی قرار دیا۔ ایک دو دن پہلے یہ خبر آئی کہ پاکستان نے چین سے ایک ارب ڈالر کا قرض لیا ہے اور اس سے سعودی قرض کو ادا کیا گیا ہے۔ یہ بڑی حیرت والی بات تھی، یہ یقیناً قارئین کو معلوم ہوگا کہ جب عمران خان صاحب وزیراعظم بنے تھے تو پاکستان کے ریزروز بڑھانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی، اس وقت انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور سعودی عرب نے تین ارب ڈالر دیئے تھے، جس میں تیل کی موخر ادائیگیاں وغیرہ بھی شامل تھیں۔ اب یوں پاکستان سے پیسے مانگنا جب کرونا سے ہماری معیشت بھی اچھی نہیں ہے، کچھ بگڑے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

ہمارے وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی صاحب نے ایک انٹرویو میں بڑی بلند آواز میں بظاہر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف بہانوں سے وزرائے خارجہ کے اجلاس کو نہیں ہونے دیا جا رہا ہے اور ہمارے لیے کشمیر بہت اہم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد کشمیر پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ مل بیٹھیں اور انڈین استعمار کا سدباب کریں۔ اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم سے ایسا نہیں ہوتا تو ہم جو دوست ہمارے ساتھ ہیں، ہم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے باہر ان کو بلا کر اجلاس کریں گے۔ وزیر خارجہ نے سعودی عرب کو یاد دلایا کہ جب ملائیشیا میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اجلاس ہو رہا تھا، اس وقت ہم نے سعودی درخواست پر اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اب وقت ہے کہ سعودی عرب ہمارے مسئلے کو سمجھے۔ یہ بیان سعودی عرب کو سفارتی چینلز کے ذریعے غالباً بارہا دیا جا چکا تھا، جس کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور دوسرا پاکستان کے عوام کو سعودی عرب کی اس خیانت کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری تھا کہ کس طرح سعودی عرب کشمیر پر وزرائے خارجہ کا اجلاس نہیں ہونے دے رہا۔

عقیدت کی آڑ میں یہاں موجود آل سعود نواز حلقوں کو یہ بتانا ضروری تھا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ہمیں سعودی حمایت کی ضرورت ہے اور وہ حیلے بہانے کر رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں اسی دن فاصلہ آگیا تھا، جب ہم نے سعودی عرب کے کہنے پر یمن میں فوج نہیں بھیجی تھی، یہ بات سعودی عرب کو آج تک ہضم نہیں ہوئی۔ اسی کے ردعمل میں سعودی عرب نے مودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا تھا، جو آج تک ہمیں کھٹک رہا ہے۔ سعودی عرب اجلاس بلا کیوں نہیں لیتا؟ تو جناب انڈیا امریکہ کا یار ہے، یہ سعودی عرب کا سرپرست ہے، اگر تھوڑا سا بھی انڈیا کے خلاف بات کی گئی تو امریکہ ناراض ہو جائے گا اور امریکہ کی ناراضگی آل سعود کو کسی صورت میں قبول نہیں ہے۔ حالانکہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، تیس پنتیس ممالک کے وزرائے خارجہ بیٹھیں گے اور کشمیر پر بات کریں گے، مگر سعودی عرب کو یہ بھی گورا نہیں ہے۔

ویسے بھی جب انڈیا نے پچھلے سال کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی تھی، اس وقت ایران، ترکی اور ملائیشیا نے ہی انڈیا کے اس اقدام اور کشمیر میں اس کے مظالم کی مذمت کی تھی۔ پاکستان کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان مسلمانوں کے ایسے بلاک کو تشکیل دے، جو باہمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی بلائی گئی کانفرنس روشنی کی ایک کرن تھی، مگر امریکہ میں اس کانفرنس کا ناکام بنانے کا کام آل سعود کو سونپا گیا، جن کی وجہ سے ہمارے وزیراعظم بھی وعدے کے باوجود اس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے اور یہ موقع ضایع ہوگیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان نے چین سے مضبوط تعلقات کا فیصلہ کر لیا ہے، اس کے لیے امریکہ اور امریکہ کے اتحادیوں جن میں سرفہرست سعودی عرب ہے، دوری اختیار کرنا پڑے گی۔ ایران نے انڈیا کو چاہ بہار سمیت بڑے پروجیکٹس سے نکال دیا ہے، اس سے پاکستان ایران کے قریب ہوا ہے اور ساتھ ہی ایران چین کے سلک روڑ منصوبے کا حصہ بنا ہے اور پچیس سال کی شراکت داری کے معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت تعلقات کو آگے بڑھانا ہے اور انہیں دفاعی پارٹنرشپ میں تبدیل کرنا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر یو پی کے مسلمان رہنما بدر کاظمی صاحب نے خوب تبصرہ کیا ہے، لکھتے ہیں: دراصل غلطی ہم عجمیوں کی ہے، جنہوں نے عربوں کی تمام تر خباثتوں اور فتنہ سامانیوں کو حجاز مقدس کے تصدق کے صدقہ میں نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی عقیدتمندانہ، عاجزانہ اور فدویانہ رویہ اختیار کیا اور انہیں فرعون وقت بننے کا موقع فراہم کیا۔ کتنے دن کی بات ہے کہ وہ ہمارے اوقاف اور تعاون کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتے تھے، جس کا مطلب انہوں نے یہ نکالا کہ ہم ان کی مذہبی اجاداری اور پیٹرو ڈالر کے عوض اپنی غیرت، خود داری اور قومی مفادات کو بھی قربان کرنے پر مجبور ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چونکہ عام مسلمانوں کے جذبات و احساسات میں حرمین و شریفین کی محبت اور مرکزی کردار کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ مسلم ممالک چاہ کر بھی تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود ہمارے خلاف نہیں کھڑے ہوسکتے اور اس کے لئے وہ مذہبی طبقہ کو مضبوط بنانے اور ان کی حمایت قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی قیمت بطور مذہبی امور تعاون کے طور پر بھرپور ادا کرتے رہے ہیں۔ سو اس غلط فہمی کے ازالہ کا وقت آگیا ہے، دیر آید درست آید کے مصداق اب وہ اپنی اوقات میں آجائیں گے، بشرطیکہ پاکستان مضبوطی کے ساتھ اسٹینڈ لیتے ہوئے سب سے پہلے “قومی مفاد” کو ترجیح دے۔ ہم عجمیوں سے زیادہ اس بات اور مزاج کو دوسرا نہیں سمجھ سکتا، سو اس سلوک کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ بہت جلد پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آئیگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply