انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس31)

سٹرک کے کنارے بیٹھی ہوئی عورت نے پوچھا۔ کیا دن نکل آیا ہے۔ مسافر نے ادھر اُدھر دیکھا اور کہا ابھی رات ہے۔ مسافر پریشان ہو گیا۔ کہ وہ گھر سے نکلا تھا تو دن تھا۔ اور ابھی چند ہی قدم چلا ہے تو رات ہو گئی ہے۔ وہ تیز تیز چلنے لگا۔ راستے میں شیخ المقتول سے ملاقات ہو گئی۔ شیخ نے کہا مسافر نور و ظلمت کا منبع ایک ہے تو وجود بھی ہے اور عدم بھی۔ تو نور بھی ظلمت بھی۔ مسافر اور تیز تیز چلنے لگا۔ راستے میں اسے لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم نظر آیا جو زور زور سے پر جوش نعرے لگا رہا تھا۔ہمیں جمہوریت چاہیے۔ہمیں حقوق چاہیں۔ ہمیں جمہوریت چاہیے۔
دن ڈھل چکا تھا۔عشاء کا وقت تھا، مسافر مجلس میں آیا اور کہنے لگا۔ابھی ابھی میں نے لوگوں کا بڑا ہجوم دیکھا ہے۔ جو حقوق مانگتا ہے اور جمہوریت مانگتا ہے۔ یہ کیا ہے۔
مسافر تھکے ہوئے ہو۔بیٹھ جاؤ اور سنو۔انسان بڑا بیوقوف ہے۔اس نے اپنے حقوق تو اداروں کو دے دئیے۔ اب ان سے واپس مانگتا ہے۔ریاست صرف علاقے کا نام ہے۔حکومتی ادارے ریاست پر غالب آ چکے ہیں۔یہ ان کی مرضی ہے کہ جمہوریت کو جس طرح چاہیں چلائیں۔کیسی جمہوریت اور کیسے حقوق۔ یہ سب دھوکا ہے۔افسوس کہ انسان ابھی تک اس طلسم نہیں سمجھ سکا۔
یہاں پر مجلس برخاست ہوئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply