• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ اور مذاکرات۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ اور مذاکرات۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹا کر دیکھیں تو کشمیر پر غاصبانہ محکومیت اور تحریک حریت کی تاریخ محض تہتر سال پرانی نہیں ہے بلکہ یہ ڈیڑھ صدی سے زائد پر محیط ہے۔ جی ہاں کشمیری عوام پر ظلم و بربریت 1846 میں شروع ہوا جب انگریز نے جنت وادی کشمیر کو ایک رئیل سٹیٹ سمجھتے ہوئے اور کشمیری عوام کو غلام سمجھتے ہوئے مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ محض75 لاکھ میں فروخت کر دیا۔ غالباً اسی پر علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
دہقان و کِشت و جوے و خیابان فروختند،
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔

حکمرانوں نے دہقان، کھیت، نہر اور باغات کو فروخت کردیا۔ بلکہ انہوں نے پوری قوم کو فروخت کردیا اور ستم یہ ہے کہ بہت سستا فروخت کیا۔ بہرحال وقت گزرتا گیا اور بالآخر 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک پورے زور و شور سے جاری تھی اور حریت پسندوں نے کشمیر کا کچھ علاقہ بزور شمشیر آزاد کروایا جبکہ باقی علاقہ کو آج بھی مقبوضہ کشمیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ معاملہ ہر فورم پر اٹھایا گیا۔

یکم جنوری 1948 کو بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ اقوام متحدہ نے ٹھیک ایک ماہ بعد یہ فیصلہ دیا کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جائے گویا کشمیری عوام کو حق رائے دہی دیا گیا۔ بھارت نے اس سے انکار کیا اور اقوام متحدہ کے اس فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ بھارت نے نہ صرف اس سے انکار کیا بلکہ تب سے لے کر اب تک عرصہ دراز سے کشمیری عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور اقوام متحدہ مسلسل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی حیثیت کا اندازہ لگائیں کہ 1948 سے لیکر آج تک اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کروا سکا۔ اس ساری صورتحال کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کی امید رکھنا دیوانے کا خواب کے مترادف ہے۔

گزشتہ سال پانچ اگست کے اقدام کو اگر دیکھیں تو ایک سال سے تاریخ کا سب سے بڑا ظلم کشمیری عوام پر ہو رہا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی حقوق انسانی کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی تاریخ دیکھیں تو یہ ایک ایسی تنظیم بن کر رہ گئی ہے کہ جو سرمایہ دار ممالک کو کھلی چھٹی دیتی ہے کہ وہ جس ملک پر چاہیں چڑھ دوڑیں انھیں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ۔ افغانستان کے اندر امریکہ نے اٹھارہ سال جنگ کی بالآخر طالبان سے مار کھانے کے بعد امریکہ کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا کیونکہ طالبان نے پوری طاقت کیساتھ اپنا قبضہ منوایا۔

اب اس میں اقوام متحدہ کا کیا کردار نظر آتا ہے۔ امریکہ نے اپنی مرضی سے افغانستان پر حملہ کیا اور اپنی مرضی سے ہی اس جنگ سے نکل رہا ہے۔ افغانستان اور کشمیر کو چند لمحوں کیلئے ایک طرف رکھیے۔ عراق اور فلسطین کی مثالیں بھی آپ کے سامنے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس میں کیا کردار ادا کیا۔ سکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے اہم ادارہ ہے۔ چین، فرانس، برطانیہ، روس اور امریکہ بہادر اس کے مستقل اراکین ہیں۔ اقوام متحدہ میں کوئی بھی قرار داد اس وقت تک پاس نہیں ہو سکتی جب تک یہ پانچوں ممالک نہ چاہیں۔ اگر ایک بھی ملک ویٹو کر دے تو وہ قرارداد ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہے۔

اب ذرا غور کیجیے۔ چین کو چھوڑ کر ان تمام ممالک کیساتھ بھارت کے قریبی روابط ہیں۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اقوام متحدہ کے بجٹ کا بیس فیصد سے زائد امریکہ دیتا ہے۔ روس کبھی بھی کھلے بندوں بھارت کی مخالفت نہیں کرے گا۔ اگر فرانس کو دیکھیں تو حال ہی میں فرانس نے 7۔87 بلین یورو کے عوض بھارت کو رافیل طیارے فروخت کئے۔ برطانیہ نے خود 1846 میں کشمیری قوم کو فروخت کرکے اس ظلم و بربریت کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح دیگر ممالک کیساتھ بھی بھارت کے قریبی روابط ہیں اور انکے معاشی مفادات بھارت کیساتھ وابستہ ہیں۔

گزشتہ بیس سال کے دوران اگر دیکھیں تو بھارت کی سفارتی لابنگ بہت مضبوط رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے بارہا مذاکرات ہوئے جو بے نتیجہ رہے۔ اگرچہ مذاکرات ایک بہت بڑی حقیقت ہیں لیکن اس صورت حال میں اگر ہم دیکھیں تو دو طرفہ مذاکرات سے فی الحال یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

جہاں تک پاک بھارت جنگ کی بات ہے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دونوں ممالک نیوکلیئر طاقتیں ہیں۔ جنگ نہ صرف دونوں ممالک کے لئے بلکہ دنیا بھر کی تباہی کا باعث بنے گی۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی البتہ مذاکرات کی میز پر لانے کا ایک پیش خیمہ ضرور ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اقوام متحدہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ نہیں ہے اور مذاکرات بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو رہے تو پھر یہ مسئلہ حل کیسے ہو گا۔ موجودہ دور میں سفارتی ہتھیاروں کیساتھ ساتھ پوری طاقت کیساتھ فزیکلی اپنا قبضہ منوانا ہی مسئلہ کشمیر کا حل نظر آتا ہے۔ آزادی کیلئے پرامن احتجاج، مسلح جدوجہد، جنگ اور مذاکرات چار مختلف اقدامات ہیں۔ پاکستان کے سفارت خانے دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں موجود ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام سفارت خانوں کو متحرک کیا جائے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے اپنے ممالک کے اندر پوری ذمہ داری سے پیش کریں۔

ڈاکومنٹریز بنا کر کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم و بربریت کو ہائی لائٹ کیا جائے اور بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا جائے۔ کشمیری عوام کا مقدمہ دنیا بھر میں ہر فورم پر پیش کیا جائے۔ اقوام عالم کی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے تاکہ دنیا کے تمام ممالک بھارت پر زور دیں کہ کشمیری عوام پر ظلم و بربریت بند کرے اور اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرے۔ مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل نے اپنے آباؤ اجداد پر مظالم ہوتے دیکھا ہے۔ کشمیری عوام کے اندر آزادی کی ایک نئی تحریک پھوٹ رہی ہے۔ اس نسل میں آزادی کا ایک جوش اور ولولہ موجود ہے جس سے بھارت بہت خوفزدہ ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیری عوام کو نئی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے بھرپور طاقت دکھانا ہو گی۔ پاکستان کو کشمیری عوام کی طرف سے آزادی کیلئے اٹھائے گئے ہر اقدام کی دنیا بھر کے تمام فورمز پر پوری شد و مد سے حمایت کرنا ہو گی۔ تب جا کر مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے ورنہ اقوام متحدہ سے مذاکرات کا دباؤ ڈالنے کی توقع رکھنا عبث ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply