کچھ عرصہ قبل ڈین گبسن کی تھیوری پیٹرا یا پٹرا کا ذکر سوشل میڈیا پر اختلافی مباحث میں کافی مقبول رہا تھا۔ جس کے مطابق مکہ مکرمہ کا اصل مقام پیٹرا ہے اور ڈین گبسن کی تھیوری کے مطابق مکہ مکرمہ کا مقام تبدیل کیا گیا ہے، یقیناً یہ ایک مفروضے پر مبنی انتہائی بودی تحقیقی تھیوری تھی، ڈین گبسن کے اس تحقیقی مواد کو مغرب میں بھی کافی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ 1400 سالہ تاریخ سے اگر مسلم مورخین کی تاریخ سے ہٹ کر بھی اسے ، ماضی بعید یا ماضی قریب کے Free Historian , Greek حتیٰ کہ مستشرقین (Orientalist) میں سے بھی آج تک یہ نقطہ یا ایسے کسی مفروضے کو نہ جان سکا یا اس بابت کوئی تذکرہ ملتا ہے، اس تھیوری کو تو اسلام مخالف کسی گروہ نے بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اس کی بنیاد پر سہارا لے کر کوئی بات کرتا۔
گزشتہ سال جولائی سنہء 2019 ایک اور ایسا ثبوت اسرائیل سے ملا ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ مسلمانوں کا کعبہ مکۃالمکرمہ میں ہی ہے، اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے صحرائے نقب میں 1200برس پرانی مسجد کے کھنڈرات دریافت کرلیے ہیں، یہاں اب تک اس علاقے میں اس جیسی کوئی اور عمارت ریکارڈ پر نہیں آئی۔ اس مسجد کا رخ قبل حالیہ مکہ مکرمہ شہر کی طرف ہی ہے ۔
اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کی تاریخی کھدائیوں کی ٹیموں کے سربراہ جان سلیجمان اور شاہار زور نے بتایا کہ جس مسجد کے کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں وہ ایک چھوٹی سی قدیم مسجد کے آثار ہیں۔ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق اس مسجد کا ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں آباد شہر سے تعلق رہا ہوگا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد انکشاف ہے۔ ’بیئر السبع‘ شہر کے شمالی علاقے میں اس قسم کی مسجد کے کھنڈرات کی موجودگی حیرت ناک ہے۔
ماہرین کے مطابق اس دریافت ہونے والی مسجد کا تعلق غالباً ساتویں یا آٹھویں صدی ہجری میں یہاں پر آباد شہر سے رہا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق یہ چوکور طرز کی عمارت ہے۔ اوپر سے کھلی ہوئی ہے اور اسکی محراب دائرہ نما ہے۔ مسجد کا رخ مکہ کی جانب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں آباد کاشتکار اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہوں گے۔
ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران ایک زرعی فارم کے نشانات بھی ملے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی سے ہوگا۔ زرعی فارم میں متعدد مکانات بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انداز سے پتہ چلتا ہے کہ کاشت کار ان میں رہتے ہونگے۔ ’گھروں کے صحن، گودام اور کھانا تیار کرنے والے چولہے بھی ملے ہیں۔‘
اسرائیلی ماہر آثار قدیمہ جدون افنی نے بتایا کہ اس علاقے میں دریافت ہونے والی یہ قدیم ترین مسجد ہے۔ اور اسکا تعلق اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے ہے۔ جو یہاں کے اس وقت کے قائم شہر شہر کے لوگوں کی کی عبادت گاہ تھی۔
یہ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کے آرکیالوجسٹ کی رپورٹ یقیناً غیر جانبدار ہے کہ ملنے والی مسجد کا قبلہ رخ حالیہ مکہ مکرمہ کی جانب ہے اور اس پر یقیناً پوری دنیا کے آرکیالوجی کے ماہرین کام کررہے ہیں ، کم ازکم ابتدائی صدیوں میں اس شہر کے آثار ایک اور مہر ثبت کرنے کے لئے کافی ہیں ،کہ ڈین گبسن کی تھیوری یقیناً غلط ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں