انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس28)

آج سہ پہر دانش ور ہمراہ مسافر اور چند دوستوں کے داخل مجلس ہوا۔ابوالحسن پلنگ پر دراز تھے۔سر اٹھایا۔پوچھا۔
دانش ور! کتنا عرصہ ہوگیا۔کہاں رہ گئے تھے۔ابوالحسن! میں قریہ قریہ، شہر شہر، ملک ملک پریشان گھومتا رہا۔مجھے کہیں بھی انسان کی تکریم نظر نہیں آئی۔یہ تم جو ہمیں درس دیتے ہو کہ انسان عظیم ہے۔انسان کی تکریم کرو۔یہ تکریم نہ مجھے تاریخ میں نظر آتی ہے نہ دنیا میں۔ تاریخ میں طاقت کے بل بوتے پر انسان کی عزت کو پامال کیا گیا۔ اور اب اصولوں کے نام پر اس کی تذلیل ہوتی ہے۔ آخر یہ کیا ہے۔اتنا بڑا تضاد کیوں۔
دانش ور سن! میں نے کئی بار کہا ہے۔ انسان بڑا ظالم ہے۔اور وحشی ہے۔ ظالم اس لیے یے کہ جاہل ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ حقیقت کیا ہے۔ پس جان لو محبت، ایثار، احسان ہی انسان کی تکریم کی بنیاد ہیں۔مجھے دکھ ہے آج کی مہذب دنیا کا انسان ظالم ہے۔بس محبت کرو اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں۔انسان کی تکریم ہی سب کچھ ہے۔یہی فضیلت ہے۔
ابن الحکم تمہارے شہر میں انسان کی تحقیر کی جا رہی ہے۔سن اور یاد رکھ انسان اپنی تحقیر کا زخم کبھی نہیں بھولتا۔جب اپنی تحقیر یاد آتی ہے۔ تو وہ غصے میں آتا ہے۔پس تشدد کی یہی وجہ ہے۔جب ہر جگہ تحقیر اور تشدد ہو تو پھر کیا حالت ہو گی۔
ہر شخص ہر شخص پر شک کرتا ہے۔اس سے بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔بداعتمادی سے توازن بگڑتا ہے۔جا اور لوگوں کو بتا کہ انسان کی تکریم کرنا سیکھیں۔ تاکہ معاشرے میں توازن قائم رہے۔
شام ہونے لگی، ابوالحسن نے مجلس برخاست کر دی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply