طواف حج و عمرہ، پالکی سے وہیل چئیر تک کاسفر۔۔منصور ندیم

سلام ان بیٹوں کو جنہوں نے اپنے کندھوں پر بٹھا کر کبھی اپنے بوڑھے والدین کو طواف کروایا اور مبارک ہیں وہ والدین جنہیں ایسی اولاد نصیب ہوئی، حج یقینا ًایک جسمانی مشقت سے بھر پور عبادت ہے، آج کے دور میں مکہ منورہ میں حج کے اہتمام کے لیے وہ تمام جدید سہولتیں میسر ہیں، ماضی کے مقابلے میں جنہوں نے حج کو بہت آسان کردیا۔ آج سعودی عرب میں دنیا بھر سے آنے والے حجاج کرام کی میزبانی کے لیے شاندار سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاہم اب سے چند دہائیوں قبل منظر نامہ کچھ مختلف تھا۔

خانہ کعبہ کا طواف تو اس وقت ایک آسان عمل تھا کیونکہ اس وقت آج کی طرح لوگوں کا ہجوم نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت عازمین حج کو خانہ کعبہ کے اندر داخلے کی اجازت بھی تھی۔ خانہ کعبہ اور مطاف میں اس وقت پکے فرش بھی نہیں بچھائے گئے تھے۔ نہ ہی سایہ میسر تھا اور نہ ائیر کنڈیشن کی سہولت تھی، اس وقت گھوڑا گاڑیاں آمد و رفت کا نہایت آسان ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔حجاج کرام قربانی کے لیے اپنی مرضی کے جانور کا انتخاب کرتے تھے۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران کچھ حجاج اپنے جانوروں کو اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے۔ جانوروں کی قربانی کے بعد انہیں گدھے پر لاد کر لے جایا جاتا تھا۔ حجاج ہاتھ سے بنے چولہوں پر اپنا کھانا خود تیار کیا کرتے تھے۔ شیطان کو کنکریاں مارنا یعنی جمرات کے لیے مٹی کا ایک ستون استعمال ہوتا تھا۔

مرور زمانہ کے ساتھ خانہ کعبہ کے دیدار کے لیے آنے والے اللہ کے مہمانوں کی مقام مقدس میں سہولیات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عمر رسیدہ اور معذور عازمین حج وعمرہ کو لکڑی کی بنی پالکیوں پر اٹھا کر طواف کرایا جاتا اور آج اس کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں نے لے لی ہے۔ حرم کعبہ میں میں جا بجا پر ویل چیئر میسر ہوتی ہیں، اس کے علاوہ وہیل چئیر چلانے والے خدام بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

لیکن پرانے ادوار میں خانہ کعبہ کے گرد طراف کے دوران اکثر’لکڑ کی الشبریہ’ کی آوازیں سنائی دیتیں۔ الشبریہ لکڑی سے بنی ایک پالکی ہوتی تھی جس میں معذور اور عمر رسیدہ عازمین کو بٹھا کر طواف کرایا جاتا۔ اور کچھ مقامی لوگ بعوض معاوضہ یہ سہولت مہیا کرتے تھے۔

الشبریہ میت اٹھانے کے لیے استعمال کی جانے والی چارپائی کی شکل کی ہوتی تھی اور اسے خصوصی طور پر معذور اور بزرگ عازمین حج و عمرہ کے لئے طواف کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، دوسرے عازمین الشبریہ میں بیٹھے شخص کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے۔ الشبریہ کو خوبصورت ڈیزائن اور مختلف رنگوں میں بھی تیار کیاجاتا تھا، ان پر ریشم اور روئی کے کپڑے بچھائے جاتے تھے تاکہ معذور یا بزرگ افراد بہت سہولت سے بیٹھے رہیں، بعض الشبریہ سرخ اور کچھ سبز رنگ کی ہوتیں تھیں ۔ عام طور پر ایک الشبریہ کو چار کونوں سے چار افراد اٹھاتے تھے ۔

پرانے ادوار میں طواف کے دوران اکثر ‘خشب خشب’ یعنی لکڑی سے تیار کردہ الشبریہ کی آوازیں سنائی دیتیں۔ آوازیں لگانے کا مقصد پیدل چلنے والے عازمین حج وعمرہ کو راستے سے ہٹانا ہوتا۔ اور آج بھی ویل چیئر پیر چلانے والے خدام “حاجی حاجی” پکار کا راستہ مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں، اہل مکہ الشبری کو ‘الشباری’ بھی کہتے تھے اور یہ انڈونیشی لکڑی سے تیار کی جاتی تھی۔ جو مضبوط ہوتی تھی اور اس پر زیادہ وزن بھی ڈالا جاسکتا تھا۔

مگر اب الشبریہ کی جگہ الیکٹرک گاڑیاں اور وہیل چیئرز آگئی ہیں ۔ حرمین شریفین کی انتظامیہ نے مسجد حرام اور طواف کعبہ میں 10 ہزار ایسی الیکٹرک گاڑیاں مقرر کر رکھی ہیں جو عمر رسیدہ اور معذور عازمین حج کے طواف کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسجد حرام میں بھی الیکٹرک وہیل چیئر کے لئے 15 مقامات مخصوص ہیں جہاں سے حاجیوں کو کو الیکٹرک وہیل چیئر فراہم کی جاتی ہیں تاکہ کسی بھی معذور یا عمر رسیدہ شخص کو نقل وحرکت کے لیے فوری مدد فراہم کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے دھکیلنے والی وزیر ویل چیئر اکثر عازمین حج و عمرہ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں ہیں ورنہ ہاتھ سے دھکیلنے والی وہیل چئیر وہاں پر فری میں بھی مل جاتی ہے، اور اگر آپ نے اس کو دھکیلنے کے لیے سہولت حاصل کرنی ہے تو کچھ رقم کے عوض ہے وہاں پر خدام بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply