عید قرباں :عشق الہی کا عظیم مظہر۔۔مظفراحسن رحمانی

عید قرباں َکبھی سوچتا ہوں تو عزم واستقلال کے دو نمایاں عظیم شخصیتیں نگا ہوں کے سامنے آکر ایک عظیم یغام دے جاتی ہیں ,جسکا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی اللہ نے جنت کے بدلے خرید رکھا ہے تمہارا کیا ہے تم تو اس آقا کے غلام ہو جو کائنات کا خالق ہے ,شجرو حجر کا مالک ہے ,خشک وتر جس کے قبضہ قدرت میں ہے ,جس نے پتوں کو ہریالی بخشی ,دریاؤں کو روانی دی ,سمندروں کو طغیانی بخشا, کوئل کی کو حسن بخشا ,چرندو پرند کو آسمانوں میں تیرنے کا حوصلہ بخشا ,سمندر کی مچھلیوں کو رزق پہونچایا ,پھولوں کو خوشبو عطا کی ,آسمان کو وسعت عطا کیا ,زمین کو فرش بناکر مخلوق کو زندگی گذارنے کا ڈھنگ سکھایا ,بیش قیمتی نعمتوں سے آراستہ وپیراستہ کیا ,ارضی اور عرشی مخلوق میں گروہ انسانیت کو اشرف بنایا ,وہ اللہ ہے جو تم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ تمہاری تخلیق کا اس کی رضا اور خوشنودی ہے اور ان دونوں اولوالعزم نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے برت کردکھا دیا ,
زندگی کے اس آغاز کو دیکھئے آپ دم بخود ہو جا ئنگے ,عمرنے ابھی زندگی کے چند سال ہی گذارے تھے ,شعور نے آوازدیا اور اپنے والد سے اس طرح گویا ہوئے ان مورتیوں کو بنانا اور پھر ان سے مرادیں مانگنا ہرگز زیب نہیں دیتا ہمیں تو اس کے سامنے جبین نیاز خم کرنا چاہئے جو ارض وسما ,بحروبر ,شجرو حجر,گل ولالہ , خشک وتر اور کل کائنات کا مالک وخالق ہے ,ایک موحد بر حق کی یہ بات ہزاروں خداؤں کے سامنے جھکنے والے سر نے حق وصداقت کی اس آواز پر لبیک کہنے کے بجائے گھر سے باہر نکال دینے کی دھمکی دی ,اور تاریخ نے اپنی کھلی آنکھوں دیکھا کہ ملک کے بادشاہ نمرود نے عزم وحوصلہ کے اس پر عزم شخص کے لئے پوری مملکت میں یہ آواز لگوائی کہ لکڑیوں کو جمع کیا جائے اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے ایسے انگاروں کو جنم دیا کہ گذرنے والے چرندو پرند اپنے پروں کے حوصلے سے بے پرواہ ہوجاتا ,اس دہکتے آگ میں بظاہر سب سے زیادہ مضبوط انسان نے یہ سوچ کر سب سے کمزور آدمی آگ کے حوالے کیا کہ آج کے بعد کہانی دم توڑدے گی , لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ سب سے زیادہ طاقتور خدا اس کی حفاظت کے لئے آگ کو یہ حکم دے گا “اے آگ تو میرے محبوب پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا “پورے تماش بینوں نے دیکھا کہ وہ آگ جس کے اندر جلانے کی صلاحیت ہے اس سے ایک انسان زندہ اور سلامت واپس آرہا ہے , اس کامیابی کے بعد ہجرت کا حکم اور پھر ایسی جگہ قیام جہاں دوردور تک انسانی جانوں کا اتہ پتہ نہیں ,نہ ہی کھانے کی چیزیں اور نہ ہی حلق کو تر کرنے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ ,امتحان نے بھی حد کردیا آزمائش کا یہ لمحہ بھی کتنا دردوکرب اپنے سینے میں چھپائے ہوگا یہ حکم ہوا ہوگا کہ اپنے لخت جگر اسمعیل اور محبت کرنے والی بیوی بیابان جنگل میں چھوڑ کر دور کہیں دور چلا جائے ,بچہ بھی کتنا چھوٹا اور معصوم کہ پانی کے لئے زبان کے بجائے پاؤں سے اشارہ ,اور قدم بھی کتنا مبارک کہ نقش پا کے اشارے نے پوری دنیا کو اس بات کے لئے تڑپ پیدا کردیا کہ کاش ایک چلو ہمیں بھی نصیب ہوجاتا ,اور ایسے گھر کی تعمیر مقدر کردیا کہ ہر مومن اس کی زیارت کے لئےترسے اور تڑپے اور بے شمار نعمتوں سے بھرا یہ شہر حضرت ابراہیم کی کو دعا کو یاد تازہ کرتا ہذے ,ابھی تو حضرت اسمعیل نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا ہی تھا مکتب عشق میں تپنے کا شعور پروان چڑھ رہا تھا کہ الہی حکم سے زمین کا ذرہ ذرہ تڑپ اٹھا کہ ایک باپ کو یہ حکم ہوتا ہے کہ اپنے لخت جگر کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اللہ کے راہ میں قربان کیا جائے ,چشم فلک نے حیرت سے دیکھا ,سورج کی شعاعوں نے آنسو بہائے,زمین کا ذرہ ذرہ حیرت واستعجاب میں مستغرق اشکہائے محبت کا نذرانہ پیش کررہا تھا ,سمندروں کی طغیانی بپھرتی اور تعجب خیز نگاہوں سے دیکھ کر واپس چلی جاتی , وہیں اس جواب نے جو حضرت اسمعیل نے اپنے والد سے کہا “ابا حضور آپ وہ کر گذریں جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے,آپ ہمیں صبر کرنے والوں میں پائنگے ,تو پوری کائنات کی خلقت کو تعجب میں ڈالدیا, وقت نے اس لمحے کو بھی دیکھا جب ایک باپ نے اپنے لخت جگر کے حلقوم پر دھار دار چاقو چلادیا ,رب کو امتحان مقصود تھا اپنے حبیب کی اس قربانی کو قبول کیا ,اور قیامت تک آنے والی ہراس امت پر واجب کردیا جو قربانی کی طاقت رکھتی ہو , اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے جواب میں فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ,اور فرمایا جو استطا عت کے باوجود قربانی نہ کرتا ہو وہ ہماری عیدگاہ تک نہ آئے ,یہی وجہ ہیکہ اللہ کے نزدیک قربانی کے دن اللہ کے راستے میں اللہ کے لئے خون بہانے سے زیادہ کوئی دوسرا عمل پسندیدہ نہیں ہے ,
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی سے امت کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں جب کبھی اسلام کی سربلندی کے لئے قربانی دینے کی ضرورت ہوتو ہمارے پاؤں میں لغزش نہ ہو ,اور کبھی فکر پیچھے مڑ کر نہ دیکھے خدا کرے آپ کی قربانی دربار الہی میں قبول ومقبول ہو ,

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔