مغرب میں مشینی چھاپہ خانے کی آمد کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے ادبی اور اساطیری متون کو شائع کرکے محفوظ کیا جس کی وجہ سے کاتبوں کے نقل کرنے میں در آنے والی اغلاط اور تلبیس پر قابو پالیا۔ انگریزی ادب اور بائبل کے تراجم بے یقینی اور علمی سفاہت کے اس گرداب سے تیرھویں صدی عیسوی میں نکل آئے۔ ہمارے ہاں چھاپہ خانہ آنے کے بعد بھی صورتِ حال دگرگوں ہے۔ اردو میں بغیر طباعتی اغلاط کے چھپنے والی کوئی اہم کتاب شاید ہی ملے۔ اور طباعتی اغلاط تو رہیں ایک طرف، یہاں جانتے بوجھتے اپنی ضرورت کے مطابق متنی تبدیلیاں کھلے عام کی جاتی ہیں۔
میں نے مولانا محمد الیاس کے “ملفوظات” کا انگریزی ترجمہ کیا تو معلوم ہوا کہ مارکیٹ میں موجود تین مختلف پبلیشرز کی شائع کردہ کتب میں خاصا فرق ہے۔ چنانچہ مجھے مولف مولانا محمد منظور نعمانی علیہ الرحمہ کے ذاتی کتب خانے مکتبہ الفرقان لکھنؤ سے شائع کردہ نسخہ حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرنا پڑی۔ اسی طرح “مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت” کا صحیح ترین نسخہ آج بھی وہ ہے جو مولانا محمد اسلم صاحب نے خود کتابت کروا کے مکتبہ حقانیہ ملتان سے شائع کرایا تھا۔ یہ الگ بات کہ اب مارکیٹ میں اس کے کئی لش پش ایڈیشن موجود ہیں، اگرچہ ان کی استنادی حیثیت میری نظر میں صفر ہے۔
میرے ابا جان پروفیسر عابد صدیق صاحب نے اپنے پاس موجود شبلی کی “الفاروق” کے ایک قدیمی نسخے کو سامنے رکھ کر اور پاکستان میں بڑے طمطراق سے شائع ہونے والے اس کے ایک ایڈیشن میں پہلے چند ابواب میں اتنا فرق نکال دیا کہ کیا بتائیے۔ فارسی شاعری کی امہات الکتب کے اردو تراجم آج بھی وہی قابلِ اعتبار ہیں جو قاضی سجاد حسین صاحب نے کیے اور ان کا عکس شائع ہوتا ہے۔
ہماری مذہبی اور علمی کتابوں اور تفسیروں تک میں یہ تبدیلیاں موجود ہیں۔ اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ احادیث کے مجموعوں میں بھی ایسی کاریگریاں موجود ہیں جنھیں محض اختلافِ نسخ نہیں کہا جا سکتا۔ اور اس میں پبلشروں کی بد دیانتی سے زیادہ ان کی سہل انگاری کو دخل ہے.
بڑے بڑے اشاعتی اداروں کی کتب کے ایسے دو تین تجربات ہوئے تو واللہ اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ اہلِ علم سے درخواست ہے کہ اقتباس کرتے میں یہ پہلو ضرور نگاہ میں رکھا کریں۔ میں تو E J Brill کے شائع کردہ مآخذ کو ترجیح دیتا ہوں. ان کے ہاں علمی بد دیانتی کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ اشاعتی بے احتیاطی کا.۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں