حقیقی لیڈر اور حقیقی تحریک۔۔عبدل ولی

اگر حق تلفی اور استحصال کی بات کی جائےتو بلا امتیاز اس ملک کا ہر غریب اس کا شکار ہے۔ یہاں سب کے ساتھ ہی زیادتی ہورہی ہے اور سب ہی محرومی کا شکار ہیں۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ ملک میں استحصال کسی مخصوص گروہ صوبہ یا نسلrace کا ہی ہورہا ہے۔ اور کوئی خاص فیکٹر ہی اس استحصال کی وجہ عظیم ہے۔ اس ملک میں ہر وہ شخص استحصال کا سبب ہے جو صاحب اختیار ہے۔ اور اسی طرح ہر وہ شخص استحصال کا شکار ہے جو بے اختیار ہے۔ یہاں جسے جب اور جہاں موقع ملا اس نے اپنے سے کم تر پر ظلم کیا اس کا استحصال کیا۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ ایک معمولی رکشہ ڈرائیور یا کلرک سے لیکر اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان سیاست دان, وڈیرے, جاگیردار, سردار, سرمایہ دار اور صاحب اقتدار ہر ایک اپنی اپنی  استطاعت کے مطابق اس کار خیر کو انجام دے رہا ہے۔ یہاں کوئی ایک نہیں سب ہی شریک جرم ہیں۔ استحصال کی وجہ دراصل مجموعی سسٹم ہے ناکہ  اس سسٹم کا کوئی مخصوص فرزہ۔ اور نہ ہی یہ کسی ایک صوبہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ چاروں صوبوں کا باہم مشترکہ مسئلہ ہے۔

اگر چھوٹے صوبے محرومی کا شکار ہیں تو اس ملک کے سب سے بڑی صوبہ میں بھی کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہیں۔چنانچہ مشترکہ عملی جدوجہد میں ہی سب کے مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ بحیثیت مجموعی ایک قوم بن کر ہی اس ملک میں کوئی تبدیلی یا سدھار لایاجاسکتا ہے۔ تعصب, فرقہ پرستی اور لسانیت دراصل خوبصورت نعروں کی آڑ میں تقسیم در تقسیم کی  آواز  ہیں، یا سیاست کرنے کے مکرو طریقے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں اس طرح کی اٹھنے والی تمام تحریکوں کے پیچھے کسی نہ کسی طرح بیرونی قوتوں کی سپورٹ ضرور رہی ہے۔ کسی بھی محاز پر لمبی لڑائی لڑنے کے لیے سپلائی ضروری ہوتی ہے۔ بغیر سپلائی کے لڑائی مزید آگے بڑھ نہیں سکتی۔ چنانچہ ایسی تمام تحریکوں کی طوالت میں مختلف طریقوں سے سپلائی جاری اور ساری ہے۔

کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے اول تو باہمی اتفاق کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اور دوسرا یہ کہ تبدیلی یا سدھار لانے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ یعنی کہ طریقہ کا بے حد ضروری ہے۔ دنیا میں جب بھی کوئی بدلاؤ آیا ہے۔ وہ یا تو پُرامن اور طویل جدوجہد سے آیا ہے یا پھر بذریعہ تشدد کے آیا ہے۔ مشاہدہ یہ بتا رہا ہے کہ آج کے دور میں تشدد کا طریقہ کار مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ اب بزور شمشیر  مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ اقوام عالم کی سطح پر بدلاو بذریعہ تشدد کی اگر بات کی جائے تو ماضی میں چنگیز خان, ہلاکو خان کی طرح تشدد کے سب سے بڑے علمبردار ہٹلر کو 5 کروڑ اور 70 لاکھ انسانوں کے قتل عام کے باوجود بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ماضی قریب میں کراچی میں بندوق کے زور پر جو کیا گیا۔ اس کے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں۔ مہاجروں کے نام نہاد مسیحا (بھائی لندن والے) نے مہاجروں اور کراچی کی آزادی کے نام پر پختونوں کا بڑی بے دردی سے اور بے دریغ قتل عام کیا۔ اس دوران تقریباً 40 ہزار بے گناہ پختونوں کو مارا گیا۔ تاہم ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کراچی میں بلا امتیاز سب ہی کی لاشیں گرنے لگیں۔ خود ہزاروں کی تعداد میں اردو  سپیکنگ حضرات اس خوفناک کھیل کی نذر  ہوگئے۔

یوں اگر دیکھا جائے تو نقصان سب ہی کا ہوا۔ خود اہل اردو زباں کو بہت زیادہ قیمت دینی پڑی اس ناکام و نامراد خونی انقلاب کی۔ کسی زمانے میں قلم, علم و ادب اور شائستگی کراچی اور کراچی والوں کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ بڑے بڑے عالم فاضل, ادیب, دانشور, کھلاڑی اور فنکار اہل اردو زباں کے یہاں جنم لیا کرتے تھے۔ لیکن بھائی لندن والے کی مہربانی سے کن کٹا, لنگڑا اور پہاڑی جیسے درندے جنم لینے لگے۔ اور کراچی روشنیوں سے نکل کر اندھیروں کا اسیر ہوگیا۔اور اہل کراچی کی مسلسل دو نسلیں اس لاحاصل جنگ کی نذر  ہوگئیں ۔

دوسری طرف پُرامن جدوجہد کی مثال ماضی بعید میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ  اور ماضی قریب میں ساؤتھ افریقہ کے عظیم سیاہ فام رہنما جناب نیلسن منڈیلا کی ہے۔

پیغمبر اسلام نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اہل مکہ نے آپ ﷺ  پر ظلم اور ستم کے پہاڑ ڈھا دیے۔ آپ ﷺ  کے ساتھیوں کو زدوکوب کیا۔ آپ ﷺ  کا اہل مکہ نے مکمل بائیکاٹ کیا۔ یوں آپ ﷺ کو مجبوراً مدینہ ہجرت کرنی پڑی اور اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ مخالفین نے یہاں پر بھی بس نہیں کیا اور وہ مدینہ پر باربار حملہ آور ہوتے رہے۔ تاہم نبیﷺ  نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ صبر کی تلقین کی اور اپنی دعوت کو پرامن طریقے سے لوگوں تک باہم پہنچاتے رہے۔ یہاں تک کہ  اللہ تعالیٰ نے آپ   کی مدد فرمائی اور اپنے مشن میں آپ ﷺ کو مکمل طور پر کامیاب اور کامران فرمایا۔

فتح مکہ کے وقت آپ ﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابہ کرام کا لشکر تھا۔ آپ اگر چاہتے تو مخالفین کے خون سے مکہ کی گلیوں کو رنگین کرسکتے تھے۔ اپنے ساتھ کیے گئے ہر ظلم کا بدلہ لیے سکتے تھے۔ لیکن آپ ﷺنے ایسا ہرگز نہیں کیا (سبحان اللہ)۔ نبی علیہ السلام کے ‘طریقہ امن’ کی دراصل ایک خاص وجہ تھی وہ یہ کہ آپ ﷺ مستقبل میں اپنے آنے والے پیروکاروں کو پرامن جدوجہد کی ترغیب دینا چاہتے تھے۔

بالکل ایسی ہی ایک مثال ماضی قریب میں ہمیں نیلسن منڈیلا کی ملتی ہے۔ جنہوں نے 27 سالوں تک قید و بند کی سختیاں اور اذیتیں برداشت کیں۔ جیل میں ان کے ساتھ انتہائی ظلم و جبر برتا جاتا رہا۔ انہیں انتہائی غلیظ کھانا کھلایا جاتا تھا۔ انھیں سخت سردیوں میں بھی ایک چڈی اور بنیان پہننے کو ملتا۔ جب وہ غسل کرتے تو نسل پرست سفید فام سپاہی ان کے سامنے بیٹھ جایا کرتے اورانھیں برہنہ نہاتے ہوئے دیکھا کرتے۔ ایک انتہائی تنگ اور تاریک کمرے میں انھیں قید میں رکھا گیا تھا۔ ان سے روزانہ تپتی ہوئی دھوپ میں انتہائی سخت محنت اور مشقت کروائی جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز جیل میں منڈیلا سے ایک قبر کھدوائی گئی۔ جب قبر تیار ہوئی تو منڈیلا کو اس میں لیٹنے کو کہا گیا۔ منڈیلا سمجھا کہ شاید ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن یہ قبر دراصل ان کی موت کے لیے نہیں بلکہ انہیں اذیت پہنچانے کے لیے تھی۔ جب وہ قبر میں لیٹے تو اس دوران سفید فام سپاہیوں نے اپنی پتلونوں کی زپیں کھولیں اور کھڑے ہوکر ان پر پیشاب کیا۔ منڈیلا کے بقول انھیں سب سے زیادہ تکلیف تب ہوئی جب ان کا جوان بیٹا کار ایکسیڈنٹ میں مارا گیا اور اسے اس کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان سب زیادتیوں کے باوجود منڈیلا نے کبھی بھی تشدد کا راستہ نہیں چنا انھوں نے کبھی بھی اپنے پیروکاروں (سیاہ فام جو کہ جنوبی افریقہ کی آبادی کا تقریباً  75 فیصد ہیں) کو تشدد اختیار کرنے یا اسلحہ اٹھانے کی ترغیب نہیں دی (اسے کہتے ہیں لیڈر رہبر و رہنما۔

جبکہ دوسری طرف ہمارے یہاں اکثر نام نہاد لیڈر خود تو لندن، ایمسٹرڈیم, یورپ و امریکہ میں عیش و عشرت کی زندگیاں گزارتے ہیں۔ تاہم مرنے مارنے کے لیے یہاں غریبوں کو چھوڑدیتے ہیں۔) یوں منڈیلا کا  صبر, استقامت اور پُرامن اور طویل جدوجہد ایک دن رنگ لائی اور انھیں آزادی نصیب ہوئی۔ چنانچہ وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔ سیاہ فام لیڈر چاہتا تو سفید فام اقلیت جو کہ ساؤتھ افریقہ کی آبادی کا محض 9 فیصد ہی تھے ان سے اپنے ہر کیے کا بدلہ سود سمیت لے سکتا تھا۔ وہ جوہانسبرگ, کیپ ٹاؤن اور اسی طرح ساؤتھ افریقہ کی ہر گلی کوچے کو سفید فام اقلیت کے لہو سے نہلا سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ نیلسن منڈیلا نے نبی علیہ السلام کی طرح سب کو معاف کیا اور جنوبی افریقہ کو ہمیشہ کے لیے ایک بہت بڑے خون خرابے سے بچا لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کوئی ہے کہ جو نیلسن منڈیلا کی طرح نبی ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ظلم اور جبر کی اس گھڑی میں ہماری رہنمائی کرسکے۔ جو ہمیں تفرقہ اور گرو بندی سے نکال کر ایک قوم بنا سکے۔ جو کہ قوم کے مصائب اور زخموں کا مرہم بنے۔ جو قوم کے بچوں کو راہ دکھائے نہ کہ انھیں گمراہ کرے۔ جو ہمیں ذات پات کی الجھنوں میں الجھائے نہ رکھے۔ بلکہ ہمیں ایک قوم اور محب وطن پاکستانی بنائے۔ جو کسی ماں یا بہن کے آنسوؤں کا سبب نہ بنے۔ جو ہمیں “میں میں” سے نکال کر “ہم ہم” کی راہ دکھائے۔ جو بغاوت کے لیے بہانے تراشنے کے بجائے نیلسن منڈیلا کی طرح خود کو تکالیف میں ڈال کر قوم کے مسائل کا حقیقی حل ڈھونڈنے کی تگ و دو کرے جو عوام کے بیچ رہے ناکہ یورپ کی پرتعش وادیوں سے یہاں کے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی کوشش کرے۔ جو لیڈر ہو اور عوام کو صحیح معنوں میں لیڈ کرسکے ناکہ لیڈر کے نام پر کوئی سیاسی لٹیرا یا دکاندار یا غیروں کے لیے غیروں کے بچوں کو قربان کرنے والا کوئی ایجنٹ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply