میٹھے بول میں جادو ہے۔۔عامر عثمان عادل

گھر سے مرغ کا گوشت لینے نکلا۔ نزدیکی واحد دوکان سے جب بھی گوشت لیا بے ڈھنگے پن سے بنایا گیا۔ سوچا تھوڑا پینڈا کر لیا جائے ۔ کیا پتہ بہتر مل جائے۔کھاریاں شہر کے بازار میں جا پہنچا۔ مرغ فروش کی دوکان نظر آئی تو رک گیا ۔
دوکاندار کو مخاطب کر کے کہا
السلام علیکم
کیا حال چال ہیں؟
اس نے سلام کا جواب تو دے دیا مگر حیرت سے میری جانب دیکھنے لگا
کہا بھائی  ایک کلو گوشت بنا دیجیے خیال رہے ذرا صاف اچھے سے کر دینا
گوشت لیا گھر آیا تو شکر ادا کیا کہ ہوم منسٹر نے بخوشی اسے پاس کر دیا۔۔
کچھ دن بعد دوبارہ جانا ہوا
سلام دعا سے گفتگو کا آغاز ہوا۔۔
میں نے طبیعت کا پوچھا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہو گئی
پوچھنے لگا بھائی  آپ کہاں سے آتے ہیں یہاں کے تو لگتے نہیں۔
(گویا اس کا گمان تھا کہ بندہ اجنبی لگتا ہے کہ یہاں کا رواج تو اس بے تکلفی سے احوال پوچھنے کا نہیں )
کہا میں کھاریاں کینٹ سے صاف گوشت کی تلاش میں آیا ہوں پچھلی بار آپ نے اچھا گوشت دیا جب ہ ی تو میں دوبارہ آ گیا ہوں
کہنے لگا
بھائی  آپ اتنا میٹھا بولتے ہیں تو بندہ دل سے کیوں نہ چیز دے
میں نے شکریہ ادا کیا اور سوچنے لگا کہ بھلا ہمارا کیا جاتا ہے جو ہم ہر ایک کو سلام دعا کر لیا کریں
خرید و فروخت تو معمول کی باتیں ہیں
اسی طرح شہر کی ایک معروف بیکری پہ جانا ہوا دروازے پہ با وردی گارڈ نے روک لیا ماسک کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے
عرض کیا پھر اب گھر چلا جاؤں کیا کروں ؟
غصے سے کہنے لگا ہاں چلے جاؤ واپس
مسکرا کے کہا۔۔
یار ذرا پیار سے بات کر لو غصہ تو نہ کرو
اتنا سنتے ہی وہ موم ہو گیا
کہنے لگا ہمیں یہی آرڈر ہے کوئی  بنا ماسک اندر نہ جائے۔
میں نے کہا اچھا بھائی  آپ کی ڈیوٹی ہے غلطی میری ہے جو ماسک بھول آیا
چلو ایسا کرو سیلز مین سے کہو میرا آرڈر یہیں ڈلیور کر دے
بس پھر ہم یوں گپیں لگانے لگے جیسے برسوں کی شناسائی  ہو
ہمیشہ کی طرح میرے لئے سبق یہ تھا کہ دوکان ہو یا دفتر دروازوں پہ مامور یہ محافظ یا خادم جنہیں ہم حقارت سے مخاطب کرتے ہیں اور سلام تک گوارا نہیں کرتے یہ بیچارے دن بھر موسموں کی سختی برداشت کرتے مالکوں اور صارفین کی کڑوی کسیلی سہتے، ہمارے ایک پیار بھرے بول کی مار ہوتے ہیں۔
انہیں کچھ دیں نہ دیں عزت سے کلام ہی کر لیں تو یہ کھل اٹھتے ہیں اور بدلے میں آپ کو دوگنا عزت سے نواز دیتے ہیں۔۔
پھر سوچا ہم کیسے ناشکرے ہیں،
محسن انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پی آر بڑھانے کا کیسا نسخہ ہمیں عطا کیا تھا۔
صرف السلام علیکم کہنے سے اجنبیت کی دیواریں ڈھیر اور مخاطب اپنائیت محسوس کرنے لگتا ہے، نامہ اعمال میں نیکیاں مفت سے لکھی جائیں۔
دن بھر ہمارے لب سلے رہتے ہیں کیسی اکڑ ہے کہ سامنے والا کرے سلام مجھے میں کیوں پہل کروں
پیارے پڑھنے والو۔۔
مخاطب کی حیثیت مقام مرتبہ دیکھے بغیر اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا سیکھ لیں زندگی آسان ہو جائے گی
یقین کریں آپ اپنی شخصیت میں ایک جدا سی قوت محسوس کرنے لگیں گے
آزمائش شرط ہے۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply