• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کے عنوان سے پنجاب اسمبلی نے گذشتہ دنوں جو ایکٹ منظور کیا ہے، اس کی خبر اور اس کی بعض دفعات کے مندرجات کا تذکرہ پڑھنےسے میرا پہلا تاثر یہ بناتھا کہ یہ ایکٹ جہالت کا بد ترین نمونہ ہے، تاہم میں اس کے متن کو دیکھ کر اس پر کوئی تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔ اب متن دستیاب ہوا ہے، تو اس کو پڑھ کرمیرا تاثر یہ ہے کہ یہ صرف جہالت نہیں، بلکہ تکبر، ظلم اور فریب کا بھی مرکب ہے۔ آئیے ذرا اس کا مطالعہ کر کےدیکھیے:

مذہبی حلقوں میں اس ایکٹ کے حوالے سے جس مسئلے پرنفیاً یا اثباتاً زیادہ بحث ہو رہی ہے، وہ ایکٹ کے سیکشن  3 کی شق ایف اور سیکشن 8 کی شقوں 5تا 11 میں بیان ہواہے۔جاہلوں یا فریب دینے والوں کی طرف سے باور کرایا جا رہا ہے کہ اس ایکٹ میں تو بس دینِ اسلام ،حضور نبی اکرمﷺ ،آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اہلِ بیت رضی اللہ عنہم،قرآن ، صحفِ سماویہ وغیرہ مقدسات کا احترام یقینی بنایا گیا ہے۔ اور یہ ایسا تاریخی اقدام ہے، جس پر پنجاب اسمبلی ، اس کے سپیکر جناب پرویز الہی ، اراکینِ اسمبلی اور وزیر اعظم پاکستان کو اسلام کے بہت بڑے محافظ ہونے کا سرٹیفکیٹ ملنا چاہیے۔ (جی ہاں یہ مبالغہ نہیں ہے، اس پر حکمرانوں کے قصیدہ خواں متعدد علما اور اسلام کے بہت سے نادان دوستوں کے ایسے تاثرات ریکارڈ پر موجود ہیں۔)
اگرچہ ان شقوں کا متن بھی اپنی جگہ جہالت یا فریب سے مملو ہے (جیسا کہ اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے)، لیکن ایک طبقے کے مذہبی سادہ لوح اس وجہ سے اس پر شادیانے بجا رہے ہیں کہ حضورﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین اور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ وغیرہ لکھا جایا کرے گا، اور دوسرے طبقے کے سادہ لوح اس پر نالاں ہیں کہ وہ بعض شخصیات کے ساتھ علیہ السلام نہیں لکھ سکیں گے۔ حالانکہ یہ دونوں انتہائی محدود اور فرقہ وارانہ سوچ سے بات کر رہے ہیں، فی الاصل مسئلہ اس سے زیادہ گہرا ہے، اور دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ محولہ شقوں میں جو قرار دیا گیا ہے کہ حضورﷺ کے نام کےشروع میں خاتم النبیین اور آخر میں صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، ہر صحابی کے نام کے بعد رضی اللہ عنہ اورہر نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا جائے گا، اس سے بعض شیعہ دوست یہ سمجھے کہ اہلِ بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنے سے ہمیں روکا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی سادہ لوحی اس لیے ہے کہ آپ کے موقف سے مترشح ہوتا ہے کہ ان شخصیات کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کی اجازت دے دی جائے ،تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ حالانکہ اس کی اجازت سے بھی اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

اصل مسئلہ کیا ہے؟اس ایکٹ کا سب سے قابلِ اعتراض بلکہ گھناؤنا پہلو ڈی جی پبلک ریلیشنزیا حکومت کے کسی بھی مجاز افسر کے کتابوں اور ان کے مواد سے متعلق آمرانہ اختیارات ہیں۔ ایکٹ کے اکثر سیکشن حکومتی افسران کے لا محدود اختیارات کے ذریعے کتابوں اور بالخصوص مذہبی کتب کی اشاعت و ترسیل کا گھلا گھونٹ رہے ہیں۔ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ جس قوم میں کتاب کا پہلے ہی حال یہ ہے کہ پبلشر کسی کتاب کو چھاپنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتا ہے کہ اس کا خرچ بھی پورا ہو گا یا نہیں، وہاں بیوکریسی کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کے کسی بھی لفظ پر اعتراض کر کے کتاب کی اشاعت یا اسے عوام تک پہنچانے کے اختیارات سلب کر سکتی ہے۔ یہ ایکٹ منظور ہو کر عمل میں آ جاتا ہے، تو کتابوں کا کلچر جو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا ہے اس کا جنازہ پڑھ لیجیے گا۔

سیکشن 7 کی شق 1 کی ذیلی شقوں(اے، بی اور سی) میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی جی پبلک ریلیشنز کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی بک ہاؤس پر کسی بھی کتاب کو قابلِ اعتراض پا کر وہاں سے اٹھوا سکے گا۔ یہ تحقیق بھی اس کے اختیار میں ہوگی کہ کسی کتاب میں کوئی ایسا مواد تو نہیں پایا جاتا، جس میں ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے! اس سیکش کی شق 2 ڈی جی صاحب کو اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذکورہ اختیارات میں سے کوئی بھی اختیار کسی بھی مجاز افسر کے سپرد کر سکتے ہیں۔(یعنی ڈی جی صاحب کا با اختیار بنایا ہوا کوئی مجاز افسر بھی وہی کارروائی کر سکے گا ،جو ڈی جی صاحب کا اختیار ہے۔)اس ایکٹ کے سیکشن 4 کی شق 2 کے مطابق مجاز افسر پبلشر سے کتابوں سے متعلق جو تفصیل بھی پوچھنا چاہے، وہ دینے کا پابند ہوگا۔اسی سیکشن  کی شق 3 کے مطابق ہر پبلشر پنجاب کے باہر سے آنے والی کتابوں سے متعلق مطلوبہ تفصیل مجاز افسر کو پندرہ دن کے اندر اندر دینے کا پابند ہوگا۔ ایکٹ کے سیشن 5 کی رو سے جس دن کتاب چھپے اسی دن پبلشر کو اس کی چار کا پیاں اُن افسروں کو اُس جگہ مفت فراہم کرنی ہوں گی ، جن کے لیے جس مقام پر گورنمنٹ کی مرضی ہو۔ ایکٹ کے سیکشن  8 کی شق 1کے مطابق کوئی کتاب ڈی جی صاحب کی اجازت کے بغیر پرنٹ کی جا سکتی ہے اور نہ درآمد کی جا سکتی ہے۔اس سیکشن کی شق 2 کے مطابق کسی بھی کتاب کو چھاپنے کے لیے طے کردہ طریقے کے مطابق درخواست دینی ہوگی ،اور اس کی طے کردہ فیس جمع کرانی ہوگی۔شق 3 کہتی ہے کہ ڈی جی صاحب ہر اس کتاب کی اشاعت روک سکتے ہیں، جس کو وہ قومی مفاد،کلچر اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ کے خلاف خیال کریں۔ایکٹ کے سیکشن  9کی شق 1 کے رو سے کوئی بک سیلر یا پبلشر کوئی کتاب مجاز افسر کی طے کردہ طریقے کے مطابق منظوری کے بغیر فروخت نہیں کر سکے گا۔اسی سیکشن کی شق 2 کے مطابق کوئی ایسی کتاب فروخت نہیں ہو سکے گی، جس میں زیرِ نظر ایکٹ کی کسی شق کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔سیکشن  10 کے مطابق پنجاب کی حدود میں شائع ہونی والی ہر کتاب کے لیے مجاز افسر کی طرف سے طے شدہ طریقے کے مطابق یونیک نمبر حاصل کرنا ہوگا۔ سیکشن 11قرار دیتا ہے کہ سیکشن3 (جو قابل اعتراض مواد پر پابندی عائد کرتا ہے ،سوائے اس کی شق ایف کے) کی خلاف ورزی پر پانچ سال سزا اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا۔یہ سیکشن وضاحت کرتا ہے کہ سیکن3 کی شق ایف (جو مقدس شخصیات کے القابوغیرہ سے بحث کرتی ہے)سے متعلق جرم پر پاکستان پینل کوڈ 1860ء کے مطابق سزا ہوگی۔سیکشن  12 کہتا ہے کہ اگر پبلشر سیکشن 5 کے مطابق کتابیں مجاز افسر تک پہنچانے میں ناکام رہا، تو اس کو اس سے متعلق ہر غلطی پرکم ا زکم دس ہزار جرمانہ بھرنا ہوگا، مزید برآں ان کاپیوں کی قیمت جو عدالت طے کرے گی ، اس کے مطابق رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سیکش 13 کے مطابق قابلِ ادا رقم گورنمنٹ کے مخصوص اکاؤنٹ میں پندرہ دن کے اندر اندر جمع کرانی ہوگی ۔ اس میں کسی غلطی کی صورت میں یہ رقم لینڈ ریوینیو کے بقایاجات کے ساتھ قابلِ وصول ہو گی۔

بیووکریسی کے ان اختیارات کی روشنی میں اب ذرا دوبارہ ان شقوں کی طرف آئیے جو مذہبی حلقوں میں زیربحث ہیں، یعنی سیکشن 3 کی شق ایف اور سیکشن 8 کی شقیں 5تا 11۔موخر الذکر شقوں کی رو سے حضورﷺ کے نام سے پہلے خاتم النبیین ، آخری نبی یا دی لاسٹ پرافٹ اور بعد میں عربی ٹیکسٹ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لکھنا ہوگا۔ کسی بھی نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا ہوگا۔ حضورﷺ کی بیویوں (جن کو مزے کی بات یہ ہے کہ ایکٹ کے متن میں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین لکھا گیا ہے، جس سے معلوم ہو سکتا کہ اتنے اہم ایکٹ کے الفاظ کی درستی اور پروف ریڈنگ پر کتنی توجہ دی گئی ہے)کے ناموں سے پہلے امہات المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔ خلفائے راشدین کے ناموں سے پہلے خلیفۂ راشد یا امیر المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہ لکھنا ہوگا۔ حضورﷺ کے تین صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہا یا رضی اللہ عنہ لکھنا ہوگا۔آپ ﷺ کےا ہلِ بیت اور نواسے نواسیوں کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔ کسی بھی صحابی کے نام کے بعد رضی اللہ عنہ اور صحابیہ کے نام کے بعد رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔سیکش 3کی شق ایف کی رو سے جو شخص اللہ تعالیٰ ،حضورﷺ اور دیگر مذکورہ مقدس شخصیات قرآن، تورات ، زبور، انجیل،دینِ اسلام پر تنقید کرے گا یا ان کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرے گا، اسے پاکستان پینل کوڈ 1860ء یا کسی اور قانون کی رو سے سزا دی جا سکے گی۔

ناظرینِ کرام نوٹ فرما لیجیے کہ اس اوپر والے پیرے میں جو کچھ لکھا گیا ہے ، یہ وہ تمام کا تمام مواد ہے، جس کی بنا پر اس ایکٹ کا نام مبارک ” پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020ء” رکھا گیا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کی پوری تاریخ میں اسلام کی بنیاد کے تحفظ کی اس سے بہتر کوئی مثال موجود ہے یا نہیں ؟ شاہ کے کسی مصاحب کا ایک اخباری مضمون نظر سے گزرا، جس میں اس ایکٹ کی عبارات کی روشنی میں یہ ثابت فرمانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ حکومت یا وزیر اعظم کا ریاستِ مدینہ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ اگر کوئی شاہ کا مصاحب ہی سمجھتا ہوتا، تو پھر بھی بات نظر انداز کر دی جاتی ، مگر رونا یہ ہے کہ تمام شاہ صاحبان بھی دھڑلے سے فرما رہے ہیں کہ ہم نے گویا اسلام اور مولویوں پر وہ احسان کیا ہے کہ قیامت تک ان سے اتارا نہ جا سکے گا۔
اس ایکٹ اور اس کا کریڈٹ لینے کے اندازِ شاہانہ سے ہم کو یہ اندازہ تو خوب خوب ہو گیا ہے کہ ہمارے قابلِ احترام شاہوں کا تصورِ ریاستِ مدینہ کتنا واضح اور پختہ ہے! یعنی ان کے نزدیک بس مقدس شخصیات کے ناموں کے ساتھ کچھ القاب لگانے سے ریاستِ مدینہ قائم ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں ان کے لیے انصاف ، دیانت داری اور میرٹ وغیرہ حسنات، جن پر دین کے سارے فلسفے کا مدار ہے،کو یقینی بنانے اور اس ضمن میں سخت قانون سازی کرنے سے زیادہ اہم اس اشو پر قانون سازی کرنا ہے ، جس کا شریعت نے کہیں کوئی حکم نہیں دیا کہ فلاں نام کے ساتھ کتاب میں ہر جگہ فلاں لقب لکھا جائے ۔
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے

حضورﷺ، صحابہ اور اہلِ بیت کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے ، اس سے ہر مسلمان واقف ہے، لیکن ان کے نام لکھتے ہوئے ہر جگہ مذکورہ القاب لگانا بھی ایمان کا حصہ ہے،یہ وحی پہلی دفعہ پنجاب اسمبلی پر نازل ہوئی ہے۔ ان کی وحی کے مطابق اسلامی تاریخ کی وہ تمام معتبر کتابیں گستاخانہ اور پابندی کے قابل ہیں، جن میں جگہ جگہ ان شخصیات کے نام ان القاب کے بغیر لیے گئے ہیں۔ اسلامی علمی تراث سے ذرا مس رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ان شخصیات کا پنجاب اسمبلی والوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر احترام کرنے والے علما، محدثین ، مفسرین، وغیرہ حضرات میں سے کسی نے بھی اس التزام کو ضروری قرار نہیں دیا ،اور نہ خود اس کی پابندی کی۔اس ایکٹ کے ذمے داروں نے اگر کوئی مذہبی کتاب لکھی یا پڑھی ہی ہو تو ان کو معلوم ہو کہ یہ التزام تکلیف مالایطاق ہے۔ پھر معاملہ اگر تکلیف و تکلف تک ہی محدود ہو تو اس پر بھی صبر کیا جا سکتا تھا، لیکن معاملہ شریعت میں ایک ایسے التزام کو ضروری قرار دینے کا ہے، جس کے ضروری ہونے کی کوئی بھی شرعی بنیاد موجود نہیں!

ان جہلا یا فریبیوں کے مطابق مقدس شخصیات کا احترام القاب لگانے میں ہے، حالانکہ کوئی شخص یہ القاب لکھ کر بھی بدترین قسم کا گستاخ اور منکرِ ختمِ نبوت ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہ خیال کہ خاتم النبیین لکھنے سے ختمِ نبوت کے منکروں کی حوصلہ شکنی ہوگی، نری جہالت یا دھوکا ہے۔قادیانی تو خود کہتے ہیں کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں،لیکن وہ خاتم النبیین لکھ کر بھی آپ ﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہی رہتے ہیں، اس لیے کہ وہ فیا لواقع خاتم النبیین کی تشریح ایسی کرتے ہیں کہ آپ کے آخری نبی ہونے کا انکار ہو جاتا ہے۔ اگر آپ ان کو روکنے خواہش مند ہیں، تو صرف اس لفظ سے کام نہیں چلے گا ، بلکہ اس سے پہلے یا بعد میں یہ وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ خاتم النبیین اُس مفہوم میں جس میں مسلمان استعمال کرتے ہیں، نہ کہ قادیانیوں کے مفہوم میں ، اور یہ وضاحت کسی کتاب میں ہر جگہ شامل کرنے سے اس کتاب کا جو تماشا بنے گا ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!قادیانیوں کے بعد متشککین اور ملحدین کی طرف آیے ۔وہ دینِ اسلام اور مقدس شخصیات کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ،لیکن لکھنے میں اپنے مقصود کی حکمت کے تحت ہر جگہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ بھی لکھتے رہتے ہیں، بلکہ بہت دفعہ ان کے انداز ِ بیان اور عبارت سے مترشح ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ یہ القاب بہ طورِ طنز لکھ رہے ہیں۔ اب جناب آپ کے پاس کون سا پیمانہ ہے یہ جاننے کا کہ فلاں صاحب یہ تمام القاب لکھ کر بھی دین ِاسلام یا مذکورہ مقدس شخصیات کے گستاخ ہیں یا نہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

مجاز افسر کو جو آمرانہ اختیارات دیے گئے ہیں ، ان کے نتائج پر ذرا غور فرمایے۔اس ایکٹ میں کہیں یہ تو نہیں لکھا کہ اہلِ بیت کے ساتھ آپ علیہ السلام نہیں لکھ سکتے ، لیکن اگر مجاز افسر ایکٹ کی عبارت کی تعبیر یہ کرےکہ چونکہ ایکٹ میں صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ اور نبیوں کے لیے علیہ السلام لکھنے کا کہا گیا ہے اور فلاں آدمی نے فلاں صحابی کے لیے علیہ السلام لکھا ہے، لہذا اس کی کتا ب قابلِ اعتراض ہے، اس پر پابندی لگائی جانی چاہیے، تو وہ اس پر پابندی لگانے کا مجاز ہو گا۔اور اگر افسر صاحب یہ تعبیر کریں کہ صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کا تو کہا گیا ہے ، لیکن ان کے لیے علیہ السلام سے منع نہیں کیا گیا، تو وہ آپ کو کتاب چھاپنے اور فروخت کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ گویا آپ افسر صاحب کی ڈسپوزل پر ہیں، چاہے تو وہ آپ کو کتاب چھاپنے دے چاہے نہ چھاپنے دے۔ مزید برآں ملکی مفاد،کلچر ، اخلاقیات اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق مواد پر کتاب ضبط کرنے کے اختیار کو ہمارے کلچر میں کس کس حربے سے افسران ناجائز استعمال نہیں کریں گے، یہ روزِ روش کی طرح عیاں ہے! اس اصول پر آپ مذہب ہی کی نہیں ،کسی بھی موضوع پر کسی بھی کتاب پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ اس کے فلاں الفاظ یا فلاں سطور یا فلاں پیراگراف نظریۂ پاکستان یا قومی مفاد یا کلچر یا اخلاقیات یا مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہیں ،لہذا یہ پبلش نہیں ہو سکتی یا فروخت نہیں کی جا سکتی۔
جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply