• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یادگار زمانہ ہیں جو لوگ مصنف ڈاکٹر انوار احمد/تبصرہ:سخاوت حسین

یادگار زمانہ ہیں جو لوگ مصنف ڈاکٹر انوار احمد/تبصرہ:سخاوت حسین

خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں کسی شخص کے حقیقی خدوخال قارئین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ خاکہ نگاری میں ایک جیتی جاگتی حقیقی شخصیت کی دلکش اور دلچسپ پیرائے میں تصویر کشی کی جاتی ہے۔ خاکہ نگار واقعات ومشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات و قیاسات کو بھی شامل کرتا ہے۔ ایک کامیاب خاکہ نگار کی نگاہ اس مقام کو پا لیتی ہے جس مقام تک عام خاکہ نویسوں کی نگاہ نہیں پہنچتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماہرین کی نظر میں
نثار احمد فاروقی کہتے ہیں :
“خاکہ کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے”۔
آمنہ صدیقی یوں رقمطراز ہیں:
“سوانح نگاری کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک شخصی خاکہ ہے۔ یہ دراصل مضمون نگاری کی ایک قسم ہے۔ جس میں کسی شخصیت کے ان نقوش کو اجاگر کیا جاتا ہے جن کے امتزاج سے کسی کردار کی تشکیل ہوتی ہے”.
محمد حسین لکھتے ہیں:
“خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا ہو”.
رشید احمد صدیقی کہتے ہیں۔
خاکہ نگاری کی بڑی اور اولین شرط میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنادے بڑے کو کتنا بھی بڑا دکھانا آسان ہوگا بہ نسبت اس کے کہ چھوٹے کو بڑا دکھایا جائے فن اور فن کار کی یہ معراج ہوگی”.
جس کتاب کا میں تجزیہ کرنے جا رہا ہوں وہ انوار احمد کی خاکوں پر مبنی کتاب” یا د گارِ زمانہ ہیں جو لوگ “ یہ کتاب مختلف لوگوں کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ جن میں خلیل صدیقی، عرش صدیقی، فرمان فتح پوری، مرزا ابنِ حنیف ، مہر گل محمد،اصغر ندیم سید، محسن نقوی، ڈاکٹر سلیم اختر، مہر گل محمد، عبدالروف شیخ……..۔ 228صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس میں خاکے کم اور کہانیاں زیادہ ہیں۔کیوں کہ ان خاکوں میں عجیب قسم کی الجھن ہے۔ یعنی جس بھی شخصیت کا خاکہ بیان کیا گیا ہے۔ا س میں خاکہ نگاری کے فن کو مد نظر رکھنے کی بجائے اس سے جڑی ہوئی کہانیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔جس سے شخصیت کی تصویر دھندلی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر سید محسن نقوی، ڈاکٹر سلیم اختر اور اصغر ندیم سید پر لکھے گئے خاکے چند واقعات پر مشتمل ہیں اور واقعات بھی ایسے جن میں خاکہ نگاری کے فن کا تعلق دور تک بھی نہیں۔ہاں البتہ ان کو ہم خوب صورت کہانیاں کہہ سکتے ہیں یا ایک خوبصورت تذکرہ۔جس میں واقعات بیان ہوئے ہیں فرد کی ذات کے حوالے سے ایسے گوشوں کو سامنے نہیں لایا گیا جس سے قاری پوری طرح شخصیت کی خارجی اور داخلی دنیاؤں کی سیر کر سکے۔ اس کے علاوہ ہم اس کو یاداشتوں کی کتاب بھی کہہ سکتے ہیں۔وہ اس لئے کہ اس میں خاکہ نگاری کے بنیادی اصولوں پر عمل ہی نہیں کیا گیا بلکہ مصنف اس سے کوسوں دور بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply