جنگ کا آغاز (15)۔۔وہاراامباکر

دس جون کو دہلی پر گولہ باری شروع ہو گئی۔ یہ گولے کسی گھر پر گرتے، کسی بازار میں، کسی دیوار کو توڑ دیتے۔ شاہی محل اور انتظامی مراکز کو نشانہ بنائے جانے کی کوشش تھی۔ حوض کے کنارے بیٹھے بادشاہ کے قریب گرنے والے گولے میں وہ بال بال بچے۔ شہریوں کے حوصلے پست پڑ رہے تھے۔ دہلی والے، خواہ انگریزوں کے حامی یا خلاف اب محسوس کر رہے تھے کہ وہ کسی پنجرے میں بند چوہے ہوں جس کے پاس کوئی راہِ فرار نہ ہو۔

غالب اس وقت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
“کبھی شرفاء اور معززین روشن محفلوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ گلاب کی مہک سے معطر محفلیں سجا کرتی تھیں۔ اب اندھیرا تھا اور مصیبت کے شعلے۔ شہر کی خوبصورت عورتیں بھی چوروں اور لٹیروں سے بے عزتی کے خوف سے گھروں میں بند ہو گئی تھیں۔ ہمیں ان بدمعاشوں کے ہاتھ مصیبت جھیلنا ہے”۔
پھر وہ ڈاک کے بند ہو جانے کی شکایت کرتے ہیں کہ نہ خط وصول کئے جا سکتے ہیں اور نہ بھیجے جا سکتے ہیں۔

“اور اب دن رات توپوں کی دھنا دھن چلتی رہتی ہے۔ چراغوں میں ڈالنے کے لئے تیل نہیں رہا۔ رات کو گھپ اندھیرا ہوتا ہے اور اس اندھیرے میں توپ کی روشنی میں ہی پانی پینے کے لئے گلاس ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ بہادر لوگ بھی اس انارکی میں خوفزدہ ہیں۔ اپنے سائے سے ڈر لگنے لگا ہے”۔

عام شہریوں کے لئے مسائل اس سے زیادہ تھے۔خوراک کا مسئلہ پیدا ہو چکا تھا۔ مہنگائی تیزی سے بڑھنے لگی تھی۔ اور اس سے لاقانونیت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔

لیکن اس کے باوجود شہر میں اعتماد تھا۔ برٹش کی واپسی شاک کا باعث تھی لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ اتنے طاقتور نہیں اور جلد شکست سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ نگاہیں اب سپاہی دستوں پر جمی تھیں کہ وہ انگریز افواج کو ان کے کیمپ سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گے لیکن جیسا ابتدائی کوششوں سے پتا لگا ۔۔۔ یہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا لگ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انقلاب کے پہلے دو ہفتوں میں انبالہ اور جالندھر، ہریانہ اور نصیرآباد سے دہلی والوں کو مزید سپاہی پہنچ رہے تھے۔ بنگال کی 139000 فوج میں سے صرف 7796 انگریزوں کے پاس بچے تھے۔ باقی بغاوت کر چکے تھے۔ ان میں سے اچھی تعداد دہلی میں تھی یا راستے میں۔ شاہ مل جاٹ سے بغاوت کرتے ہوئے تین سے چار ہزار مسلح جاٹوں نے برٹش لائنوں پر باغ پت میں حملہ کر کے انگریزوں کی دہلی فیلڈ فورس کا رابطہ میرٹھ سے کاٹ دیا تھا۔

فری لانس جہادی جس میں وہابی مولوی بھی تھے، عسکریت پسند نقشبندی فقیر بھی اور مسلمان سویلین بھی، ان کا چار ہزار کا پہلا دستہ آیا تھا۔ جہادیوں نے اپنا کیمپ جامعہ مسجد کے صحن میں اور زینت المساجد میں لگایا۔ سپاہی اور جہادی اگرچہ ملکر لڑ رہے تھے لیکن آپس میں اعتماد کی کمی رہی۔ مجاہدین کی قیادت کے شعلہ بیان خطابات میں دہلی والوں نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور بہت کم نے ان کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ زیادہ جہادی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کپڑا بننے والے، تاجر اور دیہاڑی دار تھے۔ ان کے ہتھیار گنڈاسے اور کلہاڑی تھے، نیلے کپڑے اور سبز پگڑیاں ان کی پہچان تھیں۔ دہلی کے کلچر کے نازک توازن سے بے خبر تھے۔

انہیں نظرانداز کئے جانے کی شکایت تھے۔ ان میں سے کچھ ظفر کے پاس درخواست لے کر آئے کہ “ہم کافروں کے خلاف جہاد کرنے بڑے ولولے سے آئے ہیں لیکن ہمارا خیرمقدم نہیں کیا گیا۔ کل ہم نے اپنے ہاتھوں سے اٹھارہ کافر جہنم واصل کئے ہیں۔ دوسری آرمی ہمارا ساتھ نہیں دیتی، وہ الگ تھلک کھڑے رہتے ہیں۔ اگر وہ ساتھ دیتے تو بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی۔ ہمیں مدد بھی چاہیے، فنڈ بھی اور ہتھیار بھی تا کہ ہم کافروں کو ختم کر سکیں اور ان کے ارادے ناکام بنا سکیں”۔

جولائی کے آخر تک جہادی پارٹیاں آتی رہیں۔ دہلی میں ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور فاقہ زدگی کا رہا۔

ان گروپس کے آنے سے ہندووٴں کے رویے میں فرق آیا۔ مئی اور جون میں انگریز کے خلاف ردِعمل میں ہندو اور مسلمان میں فرق نہیں تھا۔ ہندو پنڈت بھی انگریز کے خلاف اتنے ہی شعلہ بیان تھے جتنے مسلمان مذہبی راہنما۔ پنڈت شاسترا سے احکامات سنایا کرتے تھے کہ ان کے لئے انگلش ملیچھ سے لڑنا کیوں ضروری ہے۔ پنڈت ہری چندرا اس معاملے میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنے ماننے والوں کو بتایا تھا، “نئی کوروک شاسترا لکھی جا رہی ہے، جیسا کہ کرو اور پانڈے کی جنگ تھی۔ سپاہیوں کے گھوڑوں کے قدم انگریز خون سے رنگے ہوں گے اور جیت ہمارا مقدر ہے”۔

فتحِ اسلام کے عنوان سے شائع ہونے والے پمفلٹ میں لکھا تھا، “یہ دین اور دھرم کی جنگ ہے۔ گائے کی حرمت اور سور کی نجاست نہ ماننے والوں سے جنگ ہے۔ ہندووٴں کو اپنا دھرم بچانے کے لئے بادشاہ کا ساتھ دینا ہو گا۔ ہندو اور مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ہم اکٹھے ملکر انگریز کو ختم کریں گے۔ مسلمان بادشاہ ہمیشہ سے سب کی جان و مال کی حفاظت کرتے آئے ہیں۔ ہندو دل و جان سے مسلمان بادشاہوں کے وفادار رہے ہیں۔ ہندو کے لئے ان کا دھرم، مسلمان کے لئے اس کا دین۔ اور اس کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ”۔

جیسا کہ بعد میں سید احمد خان نے نوٹ کیا کہ برٹش فوج میں کام کرنے والے سپاہی اکٹھا رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ اتنے گھلے ملے ہوئے تھے کہ ہندو سپاہی مسلمان اصطلاحات استعمال کرتے تھے۔ اس انقلاب کو ہندووٴں میں بھی جہاد کہا جاتا تھا اور برٹش کو کافر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہادیوں کی آمد کے ساتھ یہ مزاج بدلنے لگا اور ساتھ ہی تناوٴ بھی آ گیا۔ لیکن ان کی جرات اور بے جگری بے مثال تھی۔ اور ان جہادیوں میں سے کئی مشہور جہادی خواتین تھیں۔ سعید مبارک شاہ کے الفاظ میں۔
“ان میں سے کئی جنونی دست بدست مقابلہ کرنے کو پسند کرتے تھے اور اسی وجہ سے بڑی تعداد میں مارے گئے۔ لیکن یہ پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ رام پور سے آنے والے دو خواتین اکثر باغیوں کی قیادت کرتے دیکھی گئیں۔ ننگی تلواروں کے ساتھ دور تک گھس جاتیں اور سپاہی اگر ہچکچاتی تو انہیں بے نقط سناتیں کہ عورتوں سے پیچھے رہ گئے ہو؟ رام پور کی خواتین میں سے ایک پکڑی گئی۔ خواتین اسلحہ لا کر دیتیں اور اگلے مورچوں میں لڑنے والوں میں بھی تھیں”۔

لیکن حملوں میں بار بار ناکامی کیوں ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ جلد ظاہر ہونے لگی۔ یہ بہادری کی کمی نہیں تھی بلکہ جنگی حکمتِ عملی کا فقدان تھا اور کوآرڈینیشن نہ ہونا تھا۔ اگر سپاہیوں کی مسلسل آمد جاری نہ ہوتی تو یہ انقلاب دم توڑ چکا ہوتا۔

پاگل پن کی حد تک بہادری دکھاتے ہوئے سامنے سے حملہ کرنے والے برٹش کی دہلی فیلڈ فورس کے لئے تر نوالہ تھے۔ ان سپاہیوں کا مقابلہ اپنے سابق افسران سے تھا جو ان کی بہادری سے متاثر تھے لیکن حکمت عملی سے نہیں۔ یہ استاد اور شاگرد کی لڑائی تھی (سپاہیوں کو انگلش آفیسرز نے تربیت دی تھی)۔ جس میں سپاہی اپنی بڑی تعداد کے باوجود ناکام ہو رہے تھے۔

اس موقع پر جہادی سپاہیوں سے بھی زیادہ غیرموثر تھے۔ وہ اپنے گنڈاسے اور تلواریں استعمال کرنے قریب ہی نہیں پہنچ پاتے تھے۔ ٹائمز میگزین کے ولیم رسل نے مشرقی دہلی سے یہ ایکشن دیکھا۔
“غازی اچھے لوگ تھے۔ لمبی داڑھیوں والے زیادہ عمر کے لوگ جو سبز پگڑیاں اور کمربند پہنے ہوتے تھے اور چاندی کی انگوٹھی جس میں قرآنی آیت کنندہ تھی۔ اپنا ڈھال کے پیچھے چھپا کر تلواریں لہراتے “دین، دین، دین” کے نعرے لگاتے ہوئے بے حال ہو جاتے اور پھر دیوانہ وار حملہ کرتے۔ ان کا ایک جری جوان ہماری طرف اسی حالت میں بڑھا۔ ایک نوجوان فوجی نے اس کی آنکھوں کے درمیان نشانہ لیا اور گولی مار کر گرا لیا۔ اس کے بعد اس کے چہرے میں سنگین اتار دی جس سے وہ بے چارہ وہیں ختم ہو گیا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپاہیوں میں سے کئی لڑائی سے جان چھڑوانا شروع ہو گئے تھے۔ باغوں میں پڑے رہتے یا مزاروں میں پیرزادوں کو تنگ کرتے۔ 23 جون کو کمانڈر انچیف مرزا مغل کا آرڈر نظر آتا ہے۔
“یہ جنگ مذہب کی جنگ ہے لیکن کئی لوگ جنگ میں نہیں جا رہے۔ کئی اپنے کوارٹروں میں چھپے رہتے ہیں کہ ان کی جان بچ جائے۔سب نے بادشاہ سے وعدہ لیا تھا۔ نمک حلالی کا تقاضا ہے کہ پلاٹون کافروں کو ختم کریں گی لیکن وہ ہمت نظر نہیں آ رہی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب ہمارا مذہب خطرے میں ہے، پھر بھی ایسا کرنا؟؟ کل سے اگر کوئی پلاٹون لڑنے نے پہنچی تو اس کا مشاہرہ بند کر دیا جائے گا اور جو بہادری دکھائیں گے انہیں انعامات اور تمغے ملیں گے اور بادشاہ سلامت خود ان کا شکریہ ادا کریں گے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلابیوں کے نقطہ نظر سے سب سے افسوسناک چیز یہ رہی کہ انہوں نے برٹش کی کمزوری ڈھونڈ لی تھی۔ 19 جون میں کئے گئے حملے میں سپاہی معمول سے ہٹ کر نئے طریقے سے حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ تین اطراف سے کیا گیا حملہ تھا۔ برٹش فوج کو اس کا مقابلہ کرنے میں بہت دشواری ہوئی تھی۔ سورج طلوع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے عقب سے حملہ کیا گیا تھا، پھر دو اور جگہ سے۔ انگریزوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ جان روٹن کہتے ہیں،
“دشمن بڑی تعداد میں آیا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ وہ عقب سے کیوں حملہ آور نہیں ہوتے۔ اس روز وہ حملہ آور ہوئے تھے۔ ہم بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہوئے تھے۔ بہت مشکل سے مقابلہ کیا تھا اور صرف رات کی ہو جانے والی تاریکی تھی جس نے ہمیں بچا لیا۔ اس کے بعد کیمپ میں ہر ایک کے دل میں خوف بیٹھ گیا۔ اگر دشمن ایسا کرتا رہا تو کیا ہو گا؟ اچھی چیز یہ رہی کہ ہمیں اپنی کمزوری کا پتا تھا، دشمن کو نہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

انقلابیوں کے پاس کسی بھی انیٹیلی جنس نیٹورک کے نہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں پتا ہی نہیں لگ سکا کہ وہ فتح کے کتنے قریب تھے۔ انہوں نے اس طریقے کا حملہ بہت دیر بعد دوبارہ کیا۔ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply