کٹی پتنگ اور نوجوان نسل۔۔جنید منصور

ایک  پتنگ تھی۔وہ خوبصورت تھی، سڈول تھی۔ بنانے والے نے اسے ایسا تراشا تھا کہ اس کا پورا جسم اتنا متناسب تھا کہ وہ دیکھتے ہی دل کو لبھا لیتی تھی۔بس ایک نظر پڑنے کی دیر تھی اور آپ کا دل وہ گیا۔اسی لیے وہ آسمانوں پر اٹھلا  اٹھلا کر اڑتی تھی،  لہرا کر کبھی دائیں ، کبھی بائیں۔خوبصورتی اٹھلانے کو ہمیشہ اپنا حق سمجھتی ہے۔ناز دکھانا، انداز دکھانا، عشوہ برتنا، غمزہ دکھانا ، یہ تو خوبصورتی کا موروثی حق ہے۔ زقند بھر کر کبھی اوپر  آسمان کی بلندیوں پر، بادلوں کی گہرائیوں میں اور کبھی ایک ہی جست میں نیچےزمین کےپاس۔ وہ اونچا اڑنا چاہتی تھی، اونچا، بہت ہی اونچا۔ آزاد پنچھیوں  کی مانند، افق کے اس پار تک جانا چاہتی تھی، نئی بلندیوں کو چھونا چاہتی تھی،نئے مقام کو تلاش کر کے  فتح کرنا چاہتی تھی، اپنی من پسند زندگی کو اپنے انداز سے جینا چاہتی تھی۔ وہ پابندیوں کی قائل نہیں تھی۔ہرجائی نہیں تھی مگرایک ڈور ہی سے بندھا رہنا نہیں چاہتی تھی۔آوارہ نہیں تھی، مگر مزاج نت نئے تجربات کرنے میں حائل بھی نہیں تھا۔کچھ نیا چاہتی تھی۔ مگر یہ ڈور بھی نا۔۔۔۔۔

یہ اس کی راہ میں حائل تھی، اس کے راستے کا کانٹا۔ ہمیشہ ایک ہی راستے پر چلنے پر مجبور کیے رکھتی تھی، ایک ہی راستہ وہ بھی سیدھا۔ہمہ وقت تن کر رہنا، ہمہ وقت چوکنا، جب کبھی بھی یہ بے چاری پتنگ کچھ ” لیثرلی موڈ” میں آ کررنگین اد ا ہوئی نہیں  کہ اس کے سر میں ایک زور دار جھٹکا اس کم بخت ڈورنے دیا نہیں۔کسی اور پتنگ کو دیکھ کر مسکرانے کی اجازت تو با لکل نہیں تھی اسے۔ جب کبھی بھی کسی اور نے قریب آنے کی کوشش کی،اور بہتوں نے اس کے قریب آنے کی کوشش کی ، بہت سے خوبرو گڈے  اس کے قریب آ کر مسکرائے، اس سے سلام دعا کی کوشش کی،اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے۔بعض کم بخت تو اتنے دل کش اور خوبرو تھے کہ جیسے سینے سے دل ہی نکال لیتے تھے۔

ان معنی خیز ملاقاتوں اور اشاروں کنایوں میں ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں جب کبھی بھی پتنگ نے دائیں یا بائیں مڑنے کی کوشش کی ،اس ڈور نے ہمیشہ اسےٹوکا، جب کبھی اس نے رخ بدلا، اس نے اسے ایک زور دار ٹہوکا دیا۔اس کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھتی تھی، اس کی ہر ہر حرکت کو اپنی نگاہوں کے ایکسرے سے ہمہ وقت سکین کرتی رہتی ،اس کی ذاتی زندگی میں دخول پذیر ہو چلی تھی اور اس کی شخصی آزادی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔یا کم از کم پتنگ کو تو ایسا ہی لگتا تھا،وہ بے جا روک ٹوک کی قائل نہیں تھی،نہ ہی پابندیاں برداشت کرنے کی اسی کوئی عادت تھی۔

لہذا جلد ہی اس ایک ڈور سےبندھے رہنے کی اپنی اس زندگی کی اس کیفیت سے تنگ آ گئی۔ہر آزاد منش باسی کی طرح جو قید اور قفس دونوں توڑنے کے چکر میں رہتا ہے، یہ بھی اپنے موقع کی تلاش میں جت گئی۔اسے معلوم تھا کہ موقع آتےہیں، موقع ملتے ہی موقع کواستعمال کرنا مگر کسی کسی کو  آتا ہے۔ یہ انتظار زیادہ دیر تک جاری نہیں رہا۔ شکر خور کو شکر کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتی ہے، اسے بھی بالآخر یہ موقع مل ہی گیا۔کسی کمزور لمحے جب ڈور نے اسے ڈھیلا چھوڑا، تو یہ اس سے اپنا دامن ہمیشہ کے لیے چھڑاکرآگے کی جانب چل دی۔اتنے انتظار کے بعد جب آزادی میسر ہوئی تو یہ مسکرا دی۔مگر جب ڈور کو اپنے غم میں غش کھا کر نیچے کی جانب گرتے دیکھا تویہ مسکراہٹ   زہر خند ہو گئی۔

ہم سب اپنے لیے تشویش کرنے والوں کے لیےکم و بیش ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔  پھر  ہوا کی رفتار اسے اپنے ساتھ لے اُڑی، دور ، بہت ہی دور، تیز بہت ہی تیز۔ اس سفر میں اک روانی تھی، اس سفر میں اک سرشاری تھی، اس سفر میں اک لذت تھی۔اور پھر یہ خیال کہ آج کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے، یہ احساس تو جیسے مدہوش کر دینے والا تھا۔ہم سب ہر قسم کی پابندیوں سے ایسے ہی آزادی چاہتے ہیں، ہر ضابطے سے، ہر روایت سے، ہر اصول سے، ہر قائدے سے۔یہ سوچ کر ہی  اس پر مدہوشی سی طاری ہونے لگی کہ آج کوئی ڈور اس کے سر پر سوار نہیں، کوئی اسے ٹہوکا نہیں دے رہا، کوئی اس کی گردن  کو مڑنے پر مجبور نہیں کر رہا۔وہ اُڑتی رہی۔ ہوا بھی شاید کوئی سازش سی کر رہی تھی،یا شاید اس کے ساتھ تھی، اسے لے کر اوپر سے اوپر ہوتی چلی گئی، اتنا اونچا کہ نیچے والے سب نظر سے اوجھل ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر وقت آیا کہ ہوا تھم گئی۔جب ہوا تھم گئی تو اس کی واپسی کا سفر شروع ہوا۔مگر ایسے سفر ہمیشہ پستی کی جانب ہوا کرتے ہیں، سو اس کا سفر بھی ایسا ہی تھا۔تھوڑی سی پروان کے بعد ایسی پستی، نیچے دیکھ کر ہی اس کی جان نکلنی شروع ہو گئی۔ پستی کے اس سفر میں وہ ان تمام دلکش و دلرباگڈوں کے پاس سے گذری جواسے اشارے کیا کرتے تھے، کئی ایسوں کے پاس سے بھی گذری جو سینے پر ہاتھ رکھ کر زندگی بھر ساتھ نبھانے کا دعوہ کیا کرتے تھے، کئی ایسے ہی آج دوسری پتنگوں کے ساتھ عشق پیچے لڑانے میں مشغول تھے، کسی نے اسے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اس لیے نہیں کہ سب  حاجی  ہو گئے تھے، بلکہ اس لیے کہ کٹی پتنگوں کو بھی بھلا کوئی۔۔۔۔۔بہرحال پستی کی عمیق گہرائیوں میں جانے سے پہلے اس نے یہ بات ضرور جان لی تھی کہ جب تک  وہ ڈور سے بندھی رہی وہ محفوظ اور باقیوں کے لیے قیمتی اور  پُرکشش تھی، مگر جیسے ہی ڈور سے اس نے اپنا رابطہ منقع کیااس کی پستی کی سفر شروع ہوگیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply