میں کہ” کاٹھا انگریز”۔۔منصور ندیم

پیدا ہوتے ہی زندگی میں غم ایک مستقل وجود کا اٹوٹ حصہ بن کر رہ گیا ، بدقسمتی رہی کہ جب پیدا ہوا تو گائنا کالوجسٹ کا اسی دن ایکسیڈنٹ ہوگیا، جو نرس اس وارڈ میں تھی، اسی دن اس کے بوائے فرینڈ نے بھی اس سے بریک اپ کرلیا، ابا نے جب مجھے گود میں لیا، تو ان کے صاف کپڑے گیلے ہو گئے، بیچاری نرس جو اپنے بریک اپ کی وجہ سے اس قدر مغموم تھی کہ میرے پیمپرز بدلنا ہی بھول چکی تھی، خیر عزیز رشتے داروں کا جم غفیر جمع ہوگیا تھا جو ایسے مواقع پر بھاگ بھاگ آتے ہیں، جب انہوں نے میرا چہرہ دیکھا تو کہا،
“ہائے ہائے ، اس کا تو چہرہ ہی ٹیڑھا ہے ، اور اس کے تو باقی بھائی بہن کیسے گورے چٹے ہیں اور اس کا رنگ دیکھو ذرا” —

بس کیا کہوں ، لوگوں کی زندگیوں میں تو غمِ دوراں ، غمِ جاناں ، غمِ عشق ، غمِ روزگار جیسے مسائل ہوتے ہیں، میری زندگی میں میرے منہ کا ٹیڑھا ہونے اور میرا رنگ گہرا ہونا ہی میرے لئے غم کا باعث بن گیا۔

سکول میں داخل ہوا، الٹے ہاتھ سے لکھنا شروع کیا، اس بات پر ابا سے کئی بارمار بھی کھائی، مگر میں بھی بلا کا ڈھیٹ تھا، باز نہ آیا، اور الٹے ہاتھ سے ہی لکھتا رہا۔

خیر خدا خدا کرکے تیسرے درجے میں بی اے کر ہی لیا، ہڈ حرامی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھر چکی تھی، کہنے کو میں نے بی اے کر لیا تھا،اور اب میں ڈگری ہولڈر تھا، مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ اپنی سی وی تک نہیں بنا سکتا تھا، سی وی بنانے کے لیے انگریزی تو آنی چاہیے، مجھے انگریزی نہیں آتی تھی، ویسے بھی کوئی ہنر بھی نہیں آتا تھا، بس لے دے کر اب میرے پاس اس نظام تعلیم پر تنقید کرنے کا سارا مواد آچکا تھا۔ اور میں نے اپنی زندگی کا مقصد نظام تعلیم پر تنقید کرنا بنا لیا تھا۔

چونکہ فارغ تھا، تو سارا سارا دن موٹر سائیکل پر لور لور ،ایک سے دوسری   سڑک ، مارا مارا پھرتا رہتا تھا، وہ جو تھوڑا سا رنگ گندمی مائل ہونے کا گمان تھا، وہ بھی مسلسل سیاہی میں ڈھلنا شروع ہوگیا، گردن پر سیاہی مائل لکیریں اتنی گہری ہوگئی تھیں، دوست احباب اب اکثر ہر کسی جگہ پر نشان لگانے کے لیے گردن سے ہی سیاہی لے لیتے تھے، خیر ایسے ہی ایک دن موٹر سائیکل پر آوارہ گردی کرتے سامنے کتا آگیا، موٹر سائیکل کتے سے ٹکرائی اور میں کتے سے گلے جا ملا، کتے کو بھی مجھ سے گلے ملنا گوارا نہ ہوا، اور وہ چیاؤں چیاؤں کرتا بھاگ گیا، اس ایکسیڈنٹ سے میرے الٹے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا، الٹے ہاتھ سے ہی لکھتا تھا اور الٹے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا، یعنی جس ہاتھ سے لکھتا تھا اسی ہاتھ میں ٹنڈا پن بھی آگیا۔

نوکری تو تھی نہیں، اب چھوکری کون دیتا ، یہ میرے لئے ایک دوہرا غم تھا، منہ بھی اچھا خاصا ٹیڑھا تھا، پھر کھبو، ٹنڈا الگ ہو گیا تھا، باقی رہی سہی کسر رنگت نے پوری کر دی تھی، غم کے ایسے پہاڑ مجھ پر ٹوٹے ہوئے تھے، کہ خودکشی کے سوا اب کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا۔

انہی دنوں جب میں خودکشی کا سوچ رہا تھا، پتہ نہیں کیسے سعودی عرب کا ویزہ لگ گیا، اور آخر میں سعودی عرب پہنچ گیا، یہاں آکر سوچا عربی سیکھ لونگا، مگر اس سے پہلے تھوڑی تھوڑی انگریزی بولنی آگئی، مجبوری تھی، پہلی نوکری ہی مجھے انگریزوں کے کتے نہلانے کی ملی، سو پورا ماحول ہی انگریزی تھا اور کتوں سے ویسے بھی پرانی وابستگی تھی، تو لو بھیا کہ کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا بولتے بولتے مجھے آخرکار انگریزی بولنی آ ہی گئی، اب جا کر جب میں نے غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ جن چیزوں کو میں اپنے لیے وبال اور اپنی بد قسمتی سمجھنا تھا، وہی تو میرے لئے نعمتیں تھیں ۔

لوگوں کو انگریزی بولنے کے لیے منہ ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے، لیکن میرا تو پیدائشی ہی منہ ٹیڑھا تھا۔

انگریزی چونکہ کافروں کی زبان ہے، اس لئے اللہ نے مجھے پیدائشی ہی الٹے ہاتھ سے لکھنے والا پیدا کیا۔ بلکہ الٹے ہاتھ میں تھوڑا سا ٹنڈا پن بھی آ گیا۔ جو سونے پر سہاگہ ہوگیا۔اب میں اپنے ٹنڈے ، کھبے بازو سے انگریزی لکھتا ہوں، اور کھبے بازو والا فرشتہ ہی اسے میرے اعمال میں لکھتا ہے۔ میں انگریزی لکھنے جیسا گناہ سیدھے ہاتھ سے بھی نہیں کرتا۔

مغرب میں زیادہ تر انگریز گورے ہوتے ہیں، مگر کچھ کاٹھے انگریز بھی ہوتے ہیں، اسی لئے میری رنگت اتنی سیاہ کر دی گئی، کہ میں کاٹھے انگریزوں کے مطلوبہ اوصاف میں آخرکار آہی گیا۔

اللہ کے فضل سے  اب میں بہترین انگریزی بولتا ہوں، اور انگریزی بولنے کے تمام مطلوبہ کوائف، یعنی منہ کا ٹیڑھا ہونا، الٹے ہاتھ سے لکھنا، اور کاٹھے انگریز کی رنگت کی شبہات مجھ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

بےشک : تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“دکھ قبول محمد بخشا
راضی رہن پیارے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply