• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جنسی تعلیم اور بیماریوں پر بات کرنا گناہ نہیں۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

جنسی تعلیم اور بیماریوں پر بات کرنا گناہ نہیں۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

میں نے کل سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ خبریں پڑھی ہیں۔ پہلی خبر پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کا وہ بیان ہے کہ “کتابوں کے ذریعے نئی نسل کو تباہ کیا جا رہا ہے، ہم ایسی کتابوں پر پابندی لگائیں گے(اس بیان کے بعد سو سے زائد کتابوں پر پابندی عائد کی جا چکی، میڈیا کے بقول)۔” دوسری خبر وطن عزیر کے سب سے مہنگے پرائیویٹ سکول کی پریس ریلیز ہے جس کے مطابق طلباء وہ کتب نہ  خریدیں جس میں reproduction والا چیپٹر ہو۔

ہم پر پتا نہیں کس آسیب کا سایہ ہے کہ ہمیں ہر دن ایک نئی آزمائش سے پالا پڑتا ہے۔ آج کل ہم نے تمام مسائل کا ایک ہی حل نکال لیا ہے وہ ہے “پابندی “جو چیز ہمیں پسند نہ  آئے، اس پر پابندی لگا دو۔خواہ وہ سوشل میڈیا کی کوئی ایپ ہو، گیم ہو یا کتاب!

ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، اس میں ہمیں کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے ۔جس میں کئی خالصتاً  مذہبی ہیں، کچھ ہماری روایات ہیں اور کچھ تو ہمارے معاشرے میں ایسے ہی رائج ہو چکی ہیں، جن پر بات کرنا ہی ہم گناہ سمجھتے ہیں۔ جیسے ہی کسی نے ان پر کوئی سوال اٹھایا، کچھ کہا یا لکھا، تو گویا اس نے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔اب ہم نے اس کا ناطقہ بند کر کے ہی رہنا ہے، خواہ وہ بات سچ ہی کیوں نہ  ہو۔

ہمارے معاشرے میں جس چیز یا عمل پر بات کرنا سختی سے منع ہے وہ ہے “جنسی تعلیم اور جنسی بیماریاں”۔ہم ان موضوعات پر نہ  تو لکھ سکتے ہیں، نہ  بول سکتے ہیں، جو لکھے گا اس پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔

ایک بچہ جب بچپن سے بلوغت میں قدم رکھتا ہے، اس کے جسم میں مختلف قسم کی physiological تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان تبدیلوں کی وجہ سے اس کے  ذہن میں مختلف قسم کے سوالات جنم لیتے ہیں، وہ ان سوالوں کے جوابات جاننا چاہتا ہے، وہ باتوں باتوں  میں اپنے گھر والوں سے جواب مانگتا ہے، اسے کوئی معقول جواب نہیں ملتا، تو وہ اپنے بڑے کزن سے پوچھتا ہے، جب وہ وہاں سے بھی مطمئن نہیں ہوتا تو وہ دوستوں سے جواب چاہتا ہے، وہ نیٹ سے بھی اپنے سوالات کے جواب ڈھونڈتا ہے اور کتابوں سے بھی۔ جب اسے  مناسب رہنمائی نہیں ملتی تو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہی، سوالوں کے جوابات خود ہی اخذ کر لیتا ہے اور یہیں  سے بنیاد میں غلطی ڈھل جاتی ہے۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کوئی 20 سے 25 فیصد  لوگ جنسی بیماریوں میں مبتلا ہیں،کوئی 5 فیصد  ہی ان بیماریوں کے لیے ڈاکٹرز سے رجوع کرتے ہیں۔ جبکہ جنسی تعلیم پاکستان میں بالکل نہ  ہونے کے برابر ہے۔ پابندیوں کے شکار اس معاشرے میں شاید یہ سب نارمل ہو لیکن ایک مہذب معاشرے کے لیے یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔

عملِ  تولید (REPRODUCTION) وہ عمل ہے جو انسانی نسل کی بقا کے لیے اشد ضروی ہے۔جب آپ  سکول کے  بچے کی سائنس کی کتاب سے وہ چیپٹر ہی نکال دیں گے، تو آپ اس کے دماغ میں تجسس کا وہ بیج بو دیں گے، کہ جب تک وہ اس چیپٹر کو کسی نہ  کسی طریقے سے پڑھ نہیں لے گا، اسے سکون نہیں ملے گا، یہی انسانی جبلت ہے۔ اس عمل سے وہ جان لے گا کہ یہ وہ عمل ہے کہ جس پر بات کرنا ممنوع ہے، تو وہ ڈر کی وجہ سے اس پر بات نہیں کرے گا، جب وہ بات نہیں کرے گا تو جو اس کے اندر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ انکے متعلق جان ہی نہیں پائے گا۔۔اور یہیں  سے ایک  خطرناک vicious cycle شروع ہو جاتا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ “ہم سبھی جنسی ملاپ کے عمل سے گزرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم اس عمل اور اس کی پیچیدگیوں کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتے اور یہ ایک خطرناک بات ہے”۔ یہ فقرہ آجکل ہمارے معاشرے پر بالکل صادر آتا ہے۔ جہاں اس عمل پر بات کرنا گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔

میرے والد جب اسسٹنٹ پروفیسر تھے، وہ ڈگری کلاسوں کو پڑھایا کرتے تھے، انکے لیے یہ بات بڑی حیرت انگیز تھی کہ کلاس کی میجورٹی کو طہارت اور بلوغت کے زیادہ تر مسائل کا علم ہی نہیں تھا، کیونکہ ان سے ان معاملات کے بارے میں کسی نے نہ  ہی پوچھا اور نہ  ہی کبھی کسی نے بتایا۔

ہمارے معاشرے میں یہ بات رائج ہو چکی ہے کہ جنسی تعلیم اور اسکے متعلق سارے مسائل وقت   گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی سمجھ آ جاتے ہیں، جو کہ   سراسر غلط اپروچ ہے۔ کچھ مسائل اتنی سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ خود سے سمجھ نہیں آتے، ان کو سمجھنے کے لیے دوسروں کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے، لیکن کوئی مدد کرے تو کرے کیسے؟ اول تو کوئی تیار نہیں ہوتا، جو تھوڑی ہمت کر کے ایسے موضوعات پر کتاب لکھ لیتا ہے، ہم اس کتاب پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔

اسی طرح وطن عزیز میں جنسی بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، شرمندگی سے بچنے کے لیے ایسی بیماریوں کو دانستہ طور پر چھپایا جاتا ہے، وقتی طور پر تو شاید اس سے فائدہ ہو جاتا ہے، لیکن اس عمل کے جو سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں وہ انتہائی شدید ہوتے ہیں۔ پاکستان میں sexologist کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے، جو ہیں انکے پاس کوئی جانے کو تیار نہیں۔

جنسی تعلیم کے نہ  ہونے کی وجہ سے ہی معاشرے میں sexual abuse,sexual harassment اور child abuse کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ماضی میں ایسے واقعات میں ملوث افراد کو جب پولیس نے پکڑا تو انکشاف ہوا کہ انہیں ان معاملات کیمتعلق علم ہی نہیں تھا، بقول انکے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، صحیح کر رہے ہیں۔۔ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کہ ایک خطرناک اشارہ ہے۔

پابندیوں کے شکار معاشرے میں، جنسی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے، جنسی مسائل میں بیحد اضافہ ہو رہا ہے، جس کا سدِ باب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمیں جس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ “پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں “۔ایک ایسا معاشرہ جہاں پہلے ہی لاتعداد پابندیاں ہیں، آپ اس پر مزید پابندیاں لاگو کریں گے تو آپ مسائل کو مزید بڑھاوا دیں گے۔جب تک آپ مسئلے کی جڑ کو نہیں اکھاڑیں گے، مسئلہ موجود رہے گا، چاہے آپ جتنی مرضی پابندیاں لگا لیں۔

جس معاشرے میں کتابوں پر پابندی لگتی ہے، زوال ان معاشروں کا مقدر بن جاتا ہے۔پابندی کتاب پر نہیں لگتی، پابندی سوال کرنے پر لگتی ہے، پابندی سوال اٹھانے پر لگتی ہے، پابندی مختلف زاویوں سے سوچنے والوں پر لگتی ہے۔ آپ کتاب پر پابندی نہیں لگاتے، بلکہ آپ سوچ پر پابندی لگاتے ہیں۔جس سے مسائل بڑھتے ہیں۔

ضرورت اس امر  کی ہے کہ جنسی تعلیم جیسے حساس موضوع کو  سنجیدہ لیا جائے۔سکول اور کالجز کے سلیبس میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے۔ سلیبس میں ان چیپٹرز کو شامل کیا جائے نا کہ نکالا جائے۔ تحصیل اور ضلعی سطحوں پر جنسی تعلیم پر سیمینار منعقد کیے جائیں۔جنسی مقدمات میں سزا پانے والوں کو جیلوں میں جنسی تعلیم دی جائے تاکہ رہائی کے بعد وہ ایک کار آمد شہری کے طور پر زندگی گزار سکیں۔ہر ضلعی ہسپتال میں sexologist کی تقرری کو لازم کیا جائے۔ جنسی بیماریوں میں مبتلا افراد کو علاج معالجے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں نہ کہ انکی حوصلہ شکنی کی جائے۔

طہارت اور بلوغت کے مسائل سے  بھی نوجوان نسل کو روشناس کروایا جائے۔ علماء بھی ایسے مسائل پر راہنمائی کا بہتر ذریعہ ہو سکتے ہیں۔جب بچے جنسی تعلیم کے متعلق سوال پوچھیں تو ان کو ان کے لیول پر جا کر سمجھایا جائے نہ کہ ان کے سوال کرنے پر پابندی لگائی جائے۔  سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ماہر نفسیات کے سیشن کروائے جائیں ،تاکہ وہ طلباء کی بہتر انداز میں راہنمائی کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جنسی تعلیم، جنسی بیماریوں پر بات کرنا یا کتاب لکھنا کوئی گناہ نہیں۔ یہ سنجیدہ مسائل ہیں، جن کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔جنسی مسائل پر بات کرنا نا ماڈرنزم ہے اور نہ  ہی بدتمیزی۔ان جیسے حساس موضوعات پر بات کرنا آج وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں پابندی لگانے والے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں، پابندی زدہ معاشرہ مختلف سوچ رکھنے والے افراد نہیں پیدا کرتا بلکہ وہ  ذذہنی پابندی کو پسند کرنے والے افراد کی آماجگاہ ہوتا ہے اور ایسا معاشرہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ان بے جا پابندیوں کا خاتمہ کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply