• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ۔مصنف: یووال نوح ہراری/تبصرہ : منان صمد بلوچ

بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ۔مصنف: یووال نوح ہراری/تبصرہ : منان صمد بلوچ

’بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ‘ (Sapians: A brief history of humankind) کو ماہرِ تاریخ و سماجیات یووال نوح ہراری نے نوشت کیا ہے جو جامعہ عبرانی یروشلم کے پروفیسر ہیں۔ ہراری نے اس کتاب میں انسانوں کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں غیر روایتی اور غیر معمولی پیشن گوئی کرکے تاریخ بشریات کا نقشہ انتہائی عمیق اور دقیق انداز میں کھینچا ہے۔ عقیل عباس سومرو اس کتاب کے اُردو مُترجم ہیں۔

بگ بینگ یا عظیم دھماکہ تخلیق کائنات کے بارے میں مضبوط ترین نظریہ مانا جاتا ہے۔ تقریباً ساڑھے تیرہ ارب سال قبل ایک زوردار دھماکے کے نتیجے میں مادہ، توانائی اور وقت آزاد ہوا، جس سے کائنات وجود میں آئی۔ بعد ازاں، تین اہم انقلابات نے تاریخ کا راستہ متعین کرکے ہمیں یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا جس میں سب سے پہلے ادراکی انقلاب (Cognitive Revolution) نے تاریخ کا آغاز کیا۔ یووال نوح ہراری کے مطابق پچیس لاکھ سال پہلے انسان مشرقی افریقہ کے ایک جینس آسٹریلوپیتھیکس (Australopithecus) یعنی بن مانس (Ape) سے نشونما پایا اور انسان شمالی افریقہ کے برفیلے جنگلات سے لے کر ایشیا کے گرم جنگلات میں بسنے لگ گیا۔ لہٰذا انسانی آبادیوں نے مختلف انداز میں بالیدگی پائی۔ نتیجتاً کئی مختلف اسپیسیز نمودار ہوئیں۔ زمین پر انسانوں کی کم از کم چھ مختلف اسپیسیز موجود تھیں جس میں آسٹریلوپیتھیکس، ہومو ایرکٹس، ہومو ارگسٹر، ہومو رڈولفینسس، ہومو نینڈرتھیلنسس اور پھر ہماری اسپیسی جسے ہم نے ہومو سیپینز کا نام دیا یعنی ذہین آدمی۔ اب ہمارا اکیلے رہ جانے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا ہومو سیپینز نے دوسری انسانی اقسام کو مار کر ختم کردیے تھے؟ اگر دیکھا جائے تو نینڈرتھال موجودہ سیپینز سے زیادہ مضبوط اجسام کے مالک تھے۔ ان کے بہت بڑے دماغ ہوتے تھے۔ سرد آب و ہوا کا بخوبی مقابلہ کرتے تھے۔ اوزار کا استعمال کرنا جانتے تھے۔ شکار کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے تھے۔اس کے باوجود سیپینز انہیں مار کر زمین پر اپنا غلبہ کیسے جما سکتے ہیں؟ نفرت اور تعصب کا نظریہ دُرست اور مطمئن کن نہیں ہے۔

ستر ہزار سال پہلے انسان مشرقی افریقہ سے نکل کر جزیرہ نما عرب میں پھیل گئے۔ جب سیپینز عربیہ پہنچے تو وہاں دوسرے انواع کے انسان پہلے ہی سے آباد تھے۔ ان کا کیا ہوا؟ باہمی اختلاط کے نظریے کے مطابق جب سیپینز نینڈرتھال کے علاقوں میں پہنچے تو انہوں نے نینڈرتھال سے اختلاط کیا اور دونوں آبادیاں باہم ہوگئیں اور نتیجتاً یوریشین سیپینز اور نینڈرتھال کا آمیزہ ہیں۔ اسی طرح جب سیپینز مشرقی ایشیا پہنچے تو انہوں نے ہومو ایرکٹس کے ساتھ ہم بستری کی، یوں چینی اور کوریائی ہومو ایرکٹس کا آمیزہ ہیں۔ حیران کن انکشافات کے مطابق مشرقی وسطیٰ اور یورپ کے انسانوں کے مخصوص ڈی این اے سے چار فیصد نینڈرتھال کا ڈی این اے ہے جبکہ ملیشیائی اور آسٹریلین کے باشندوں کے ڈی این اے، ڈینی سووین ڈی این اے سے چھ فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ باہمی اختلاط کا نظریہ کسی حد تک درست ہے کیونکہ افریقیوں، یورپین اور ایشیائیوں کے درمیان لاکھوں سال پرانے جینیاتی فرق موجود ہیں جو دھماکہ خیز نسلی انکشافات کی غمازی کرتی ہیں۔

لیکن پھر بھی وہی سوال سر پہ منڈلا رہا ہے کہ دوسری انسانی اقسام کی جینیات کیسے دفن ہوگئیں؟ اگر دیکھا دیکھا جائے تو بل ڈاگ اور اسپینیل کتے بہت مختلف لگتے ہیں لیکن ان کا تعلق ایک ہی جینس سے ہے۔ گدھا، گھوڑا اور زیبرا بھی مختلف اسپیسیز ہیں لیکن ان کا تعلق ایک ہی جینس سے ہے۔ شیر، چیتے، تیندوے اور باگھ مختلف اسپیسیز ہیں لیکن ان کا تعلق ایک ہی جینس سے ہے۔ یہ سب آج بھی زندہ ہیں۔ ہمارے جینس کے بھی مختلف انسانی اسپیسیز تھیں، آخر وہ آج ہماری آبادیوں میں کیوں موجود نہیں ہیں؟ شاید وسائل کی قلت پیدا ہونے اور تعداد بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی تلاش میں دشواری پیدا ہوگئی۔ نتیجتاً باہمی اتحاد اور یکجہتی کی فقدان کی وجہ سے نینڈرتھال جنگ اور نسل کشی کا مرتکب ہوئے اور آبادی کم ہوکر ختم ہوگئی۔

سوال پھر یہ بھی اُٹھ جاتا ہے کہ زمین پر فقط ایک ہی قسم کے انسان یعنی ہومو سیپینز حکمرانی کرنے پر کیسے کامیاب ہوگئے؟ ہراری کے خیال میں ہومو سیپینز کو اپنی منفرد زبان نے سب سے طاقتور جانور بناکر سارے سیارے کا حاکم بنا دیا ہے۔ وہ کہانیاں گھڑ سکتے تھے اور سُنا سکتے تھے جو باہمی تعاون اور مشترکہ اتحاد کا وسیلہ بنا تھا جس سے سیپینز مل جل کر قحط، غربت، بیماری، وباؤں اور دیگر قدرتی آفات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے جو لاکھوں سال زندہ رہنے کا موجب بنا۔ سیپینز کی کامیابی کی یہی کلید تھی۔

ہراری کے مطابق دوسرا اہم موڑ دس ہزار سال پہلے زرعی انقلاب (Agricultural Revolution) کی شکل میں آیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے انسان پچیس لاکھ سال تک نباتات اکھٹے کرتے تھے، جنگلی کھجوریں توڑتے تھے، جنگلی بھیڑ کا شکار کرتے تھے جنہیں کم وقت میں اچھے پھل، اناج اور گوشت میسر ہوتے تھے اور ان کا زریعہِ معاش اِسی پر منحصر رہا۔ مزید برآں، شکاری/متلاشی زندگی زیادہ متحرک اور مطمئن کن تھی کیونکہ اِس سے قحط، بیماری اور وباؤں کا خطرہ بھی کم تھا۔
دس ہزار قبل زرعی انقلاب نے انسانی تاریخ کی کایا پلٹ دی جب ہومو سیپینز نے اپنا تمام وقت اور انرجی پودوں کو پانی دینے، جڑ والی بوٹیاں زمین سے اکھاڑنے اور بھیڑیوں کو چراگاہوں تک لے جانے میں صرف کرتے رہے۔ انسان شکاری و متلاشی بودوباش چھوڑ کر گندم کی غلامی میں پالتو ہوگیا۔ زرعی انقلاب نے کسانوں کو وہ طرزِ حیات دیا جو متلاشیوں کے مقابلے میں زیادہ دشوار اور غیر مطمئن تھا۔ ایک جانب سے کسانوں کی تھکا دینے والی محنت کے باوجود اُنہیں خراب خوراک ملتے تھے اور بہترین غذا سے بھرپور خوشحال زندگی سے محروم رہے اور دوسری جانب گندم پر کیڑے مکوڑوں، خرگوش اور ٹڈی دل کی یلغار سے کسانوں کو مزید نقصان اُٹھانا پڑتا تھا۔ ہراری زرعی انقلاب کو تاریخ کا سب سے عظیم فریب گردانتے ہیں۔

ہراری کے مطابق سب سے پہلا عالمگیر قاعدہ اقتصادی تھا یعنی نظامِ مالیات، دوسرا عالمگیر قائدہ سیاسی تھا یعنی شہنشاہیت، تیسرا عالمگیر قائدہ مذہب تھا، مثلاً بدھ مت، عیسائیت اور اسلام، تاجر، فاتح اور پیغمبر وہ اولین افراد تھے جہنوں نے ارتقائی تقسیم کو مسترد کیا اور انسانیت کو ممکنہ طور پر یکجاہ کیا۔ تاجروں کے لیے ساری دنیا ایک ہی بازار تھی جس میں تمام انسان خریدار تھے۔ فاتحین کےلیے ساری دنیا ایک سلطنت تھی جس میں تمام انسان اس کے تابعدار تھے اور پیغمبروں کےلیے ساری دنیا یکتا سچائی تھی جس میں تمام انسان ان کے پیروکار تھے۔انسانیت کو یکجا کرنے کےلیے ان تین قاعدوں یعنی اقتصادیات، سلطنتیں اور مذاہب کا کلیدی کردار ہے جن سے موجودہ دنیا کی داغ بیل ڈالی گئی۔

گزشتہ پانچ سو سالوں سے دنیا نے تبدیلوں اور انقلابات کا ایک حیرت انگیز سلسلہ دیکھا ہے۔سماجی، معاشی اور زرعی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) رونما ہوا، سائنسی انقلاب (Scientific Revolution) برپا ہوا جس سے بےتحاشا ایجادات ہوئیں اور ہومو سیپینز کو لامحدود طاقت میسر ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بحری جہاز سے خلائی جہاز تک سفر کرلی ہے لیکن اس کے باوجود ہم خوش کیوں نہیں ہیں؟ ہم سکھ کا سانس کیوں نہیں لے رہے ہیں؟ نیا سکون کیوں میسر نہیں ہوا ہے؟ پھر سلطنتیں، زراعت، صنعت و حرفت، سائنس، دولت کس درد کے دوا ہیں؟ بدقسمتی سے ہومو سیپینز کی حاکمیت نے تاحال زمین پر کچھ ایسا نہیں چھوڑا جس پر ہم فخر کرسکیں لیکن ہاں انسان پہلے سے کہیں زیادہ سفاک اور غیر زمہ دار ہوگیا ہے، وہ اب اپنے حدود کو عبور کررہے ہیں، فطری قوانین کو توڑ رہے ہیں، عالمی ماحولیات کو اُجاڑ رہے ہیں، وہ انسانی جانوں کی خون کا پیاسا ہوگیا ہے، جانوروں کی زندگی کےلیے خطرہ بن کر رہ گیا، کمپیوٹر ھیکنگ کی طرح انسانوں کو بھی ھیکنگ کرنے پر تلا ہوا ہے تاکہ ان کے جذبات اور خواہشات کو تبدیل کرسکے، سائی بورگ انجینئرنگ کی شعبے میں سیپینز خود کو سائی بورگ میں تبدیل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، آج وہ خدا بننے کےلیے بھی تیار ہے- اب یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر ہم کیا بننا چاہتے ہیں؟ ہم کس ڈگر پر چلنا پسند کرتے ہیں؟ انسان کے مستقبل کا ایجنڈا ہے کیا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں خود بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply