روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

ایک اہم شعر جس کی اہمیت پر کسی بھی شار ح نے غور نہیں کیا۔ یہ خیا ل کہ غالب کو دیگر مذاہب میں دلچسپی نہیں تھی یا اس کو ہندوستان کے بین المذہبی ماضی کا علم نہیں تھا، غلط ہے۔ کچھ اشعار میں (جن میں یہ شعر بھی شامل ہے) اس حقیقت کا احوال نامہ موجود ہے۔

دیکھ کر در پردہ گرم ِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستہ ٔ تن میری عریانی مجھے
۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
بندہ پرور، شعر کیا ہے ۔۔۔ ایک دُر ِّ تابدار
ازہر و سیمیں صفت ہے، چودھویں کے چاند سا
میں مگر ہوں معنی و مضمون میں اُلجھا ہوا
قابل ِ تعظیم استاد ِ جہان ِ شاعری
کیا ہے فحوا، ما حصل اس شعر کا ، بتلایئے

مرزا غالب
اس میں تو مشکل نہیں ہے کچھ بھی ستیہ پال صاحب
تم نے کوشش ہی نہیں کی ورنہ مطلع صاف تھا
میں، کہ یعنی شعر گوئندہ یہ کہتا ہے، عزیز
تھا تو وہ عریاں مگر ’’درپردہ‘‘ اس کوشش میں تھا
اپنی عریانی کو ڈھانپے )جس قدر بھی ہو سکے)
اپنے دامن سے کہ شاید بے لباسی دور ہو

ستیہ پال آنند
جی حضور، اب مصرع ِ اولیٰ سمجھ میں آ گیا
مصرع ِ ثانی کی بابت بھی تو کچھ فرمایئے

مرزا غالب
غور کرنا، سوچنا ، کیا تم نے سیکھا ہی نہیں؟
اس کا مطلب صاف ہے ، بس اک ذرا کوشش کرو

ستیہ پال آنند

“کر گئی وابستہ ء تن میری عریانی مجھے”
اپنی عریانی کو دامن سے چھپانے کے لیے
میں نے جب کچھ غور سے دیکھا تو یہ ظاہر ہوا
میرا سارا جسم ہی عریاں ہے سر سے پائوںتک
مجھ کو یہ احساس پہلے سے بھی اب افزوں ہوا
گویا اپنے جسم پر میری توجہ بڑھ گئی

مرزا غالب
خوب ہے، یعنی اگر تم ان حدوں میں ہی رہو
یہ تو ہیںبے پیچ و خم، سیدھے معانی، پرعزیز
شعر میںتلمیح و تمثیل و اشارہ بھی تو ہیں
یہ سبھی اخفا میں رکھ لیتے ہیںمعنی سر بسر

ستیہ پال آنند
آپ اگرمنظور فرمائیں تو میں پوچھوں، حضور؟

مرزا غالب
آج تو، اے ستیہ پال آنند، تم آزاد ہو
جو بھی چاہو، پوچھ لو، لیکن ، عزیزی، دیکھ لو
وقت کی اور فاصلے کی قدر و قیمت ہے بہت
وقت دو صدیوں کا حائل ہے ہمارے درمیاں
فاصلہ ہندوستاں سےدور امریکا تلک

ستیہ پال آنند
جی حضور، اب کیا کیا جائے کہ ہم مجبور ہیں
حل طلب پیچیدہ نکتے ہیں یہ کچھ، دیکھیں ، جناب
بے لباسی باطنی تھی یا فقط تن کی، حضور؟
کیسی عریانی تھی یہ؟ سرمدؔ کی سی، امعائی کیا؟
داخلیت جو فقط لامرکزیت کا ہے وصف؟

مرزا غالب
ننگا ہی رہنےکا’مسلک تھا تو سرمدؔ کا، مگر
میرا یہ منشا نہیں تھا، سُن عزیزی ستیہ پال
جسم تو آراستہ ہو، خوش لباسی کی مثال
جسم کے اندر مگر ہو روح بے برگ و نوا
باطنیت، بے سروبُن، ننگی بُچی۔ بے لباس
روح ہے وہ؟ جوع ہے وہ؟نام کچھ بھی دیں اُسے
اس کا پھر وابستہ ٔ تن ہو کے خود کو ڈھانپنا
یہ تھا عریانی سے تن پوشی کا قصـہ، ستیہ پال

ستیہ پال آنند
مسئلہ آوا گمن، ابداع یا ’کایا بدل
کیا کہیں تحت الشعوری رو میں یہ مستور تھا

خودبخودجو شعر کا چولا پہن کر کھُل گیا
دل نہیں یہ مانتا غالب، مبادا آپ پر بھی
بُدھـ(1)  کے رستے پہ چلنے کا کوئی الزام آئے!
ہاں، مگر ’’در پردہ گرم ِ دامن افشانی‘، حضور
ڈھانپ کر یاکھول کر رکھنےکا ہی مذکور ہے
جس کو ہم ’’گنجینہ ٔ معنی‘‘ کہیں توٹھیک ہے

آپ ، غالبؔ، شعر کی چلمن کے پیھے ہنس رہے ہیں
اس لیے شاید کہ ہم “ابداع” یا” ’کایا بدل”‘ کا
آپ پر اطلاق قطعاً کر نہیں پائے ابھی تک

Advertisements
julia rana solicitors

(1)مہاتما بدھ
جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply