ہلالِ عید اور وحدتِ ملّت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

سیّد جمال الدین افغانیؒ سے لے کر حضرت اقبالؒ تک، اور صوفی ابو انیس برکتؒ سے لے کر حضرتِ واصف علی واصفؒ تک مشاہیرِ اْمت وحدتِ اُمت کا خواب دیکھتے چلے آئے ہیں۔ کس خواب نے کس قرن اور کس سمے تعبیر کی صورت دھارنی ہے‘ مالک ِ تقدیر بہتر جانتا ہے۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، اور جاگتے میں خواب دیکھنا تو بہت سی زمینی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔ خواب کو عمل کی صورت دیکھنے کی تمنا ہی بنی نوعِ آدم کے عمل کا ایک بنیادی محرک ہے۔

ہر تعمیری اور تخلیقی ذہن وحدتِ فکر، وحدتِ عمل اور وحدتِ ملّت کے متعلق غور وفکر کرتا ہے،اور اپنے فکر کو ماضی کے سرمایۂ ہدایت سے مدد لے کر پروان چڑھاتا ہے۔اگر وہ اپنی زندگی میں قافلۂ ہم نفساں کو وحدت کی شاہراہ پر گامزن نہ دیکھ سکے تو اپنے افکار کی صورت آنے والی نسلوں میں کسی کے ہاتھ اس تمنا کی مشعل دے کر رخصت ہو جاتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے،اگروہ صبح اُمید کو طلوع ہوتے نہیں دیکھ پایا تو کیا ہے ٗ اُس کے بعد آنے والے ضرور اُمید اور یقین کی روح پرور فضا میں سانس لیں گے۔ قافلۂ حیات میں شمعِ ہدایت اس طرح دست بدست ایک ریلے ریس کی طرح ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتی رہتی ہے،وہ جانتا ہے کہ آخری شمع بردار بھی کامیاب ہو گیا تو سارا قافلہ ہی منزلِ مراد تک پہنچ جائے گا۔ ہمارے خمیر میں وحدت کا شعور موجود ہے۔ جب کوئی وحدت کی بات کرتا ہے ‘یا سوچتا ہے‘ تو وہ درحقیقت اپنے فطری اَزلی خمیر کی کھنکھنانی ہوئی آواز ہی پر لبیک کہہ رہا ہوتا ہے۔ قرآن میں جمیع بنی نوعِ آدم کو مخاطب کرتے ہوئے خطاب کیا گیا کہ ہم نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا۔

محققین اس پر موضوع پرمقالے لکھ چکے ہیں، اور ان پر معترضین اپنے اعتراضات بھی وارد کر چکے ہیں۔ اگرچہ یہ موضوع دقیق ہے لیکن تکنیکی اور تحقیقی حقائق کی روشنی میں اجمالی طور پر اس بات کا جائزہ لینے میں حرج نہیں کہ آخر ہم ایک ہی دن عید کیونکر نہیں منا سکتے۔ ہمارے غم تو سانجھے ہیں، کیا ہماری خوشیاں سانجھی نہیں ہو سکتیں؟ باہمی اختلاف کو رحمت سے تعبیر کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اُمت کا وہ اختلاف باعث ِ رحمت ہے جو کسی متفق نتیجے پر پہنچنے کی غرض سے ہوتا ہے۔ وہ اختلافِ فکر جو اختلافِ عمل کی صورت اختیار کر جائے ۔۔۔وہ اختلاف جو انتشار اور افتراق کی صورت بن جائے اُس کے جواز میں رحمت کا حوالہ کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ اختلاف تو اتفاق تک پہنچنے کیلئے ہوتا ہے۔بہتر راستہ اختیار کرنے کیلئے مختلف آرا کا پیدا ہونا غور و فکر کی دلیل ہےاور اِس کا مدعا ہمیشہ ایک مشترک لائحۂ عمل طے کرنا ہوتا ہے۔یہی شورائیت کی روح ہے کہ تمام ممکنہ امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔

وحدتِ ملّت کے داعی اِس بات پر متفق ہیں کہ ملّتِ اسلامیہ میں سب دینی تہوار ایک ہی دن منانے چاہیئں، اس کی دلیل میں ذخیرہ ٔاحادیث سے وہ اِس حدیث ِپاک کا حوالہ دیتے ہیں کہ چاند دیکھ کر عید کرنے کا حکم ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم کہ جہاں جہاں تک اس کی خبر پہنچ جائے،وہاں تک عید کا اعلان کیا جائے، اس سلسلے میں بتایا گیا کہ ایک تیز رفتار گھوڑاایک دن کی مسافت جہاں تک طے کرتا ہے وہاں تک روئیت ِ ہلا ل کا اطلاق ہو جاتا ہے ۔ اُس زمانے میں خبر اِرسال کرنے کا معتبرذریعہ تیز رفتار گھڑ سوار تھے۔ یعنی بلادِ اسلامیہ میں کسی ایک جگہ کی روئیت کا اطلاق ہر اُس جگہ پر ہو جائے گا جہاں تک اطلاع پہنچے گی۔ جن روایات میں اہلِ شام کے متعلق یہ بتایا گیا کہ وہ جب چاند دیکھیں ‘عید کریں، اس کا سبب بھی یہی تھا کہ مدینے میں چاند نظر آنے کی اطلاع وہاں تک نہیں پہنچ سکی تھی ، اور لوگوں نے بعد میں آکر کر بتایا کہ ہم نے فلاں روز عید کی۔ جنگل میں آگ کی طرح پھیل جانے والا محاورہ بھی آج کل سرد ہو چکا ہے، کیونکہ آج کے دور میں خبر جنگل میں آگ پھیلنے سے کہیں کم عرصے میں پھیل جاتی ہے۔ موبائل ، واٹس ایپ ،ٹویٹر اور فیس بک وغیرہ کے ذریعے آج کل ہر اچھی بُری خبر چشمِ زدن میں پھیل جاتی ہے۔

اس تناظر میں مکہ و مدینہ کو مرکزتسلیم کر لیا جائے تو وہاں کی روئیت کا اطلاق تمام عالمِ اسلام پر کیا جا سکتا ہے۔ مقامِ افسوس کہ مرکز سے مرکزیت کی آواز نہیں آئی۔ روئیت ِہلال کمیٹی صرف ایک ملک کی نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام کی مشترک ہونی چاہیے، یہ رویئت ِ ہلال کمیٹی مکہ ٹاور پر اپنا اجلاس کرے اور پھراعلان کہ اہلِ اسلام فلاں دن عید کریں گے، آخر اِس میں دِقّت ہے؟ صرف رویئت ِ ہلال کمیٹی پر کیا موقوف ٗ چھپن اسلامی ملکوں کی نظریاتی کونسل بھی مشترک ہونی چاہیے۔ اجماع و اجتہاد کا عمل جاری و ساری رہنا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ تو پارلیمنٹ کو اجتہاد کا اختیار دینا چاہتے تھے ( غالباً ان کی نظر موجودہ نظامِ سیاست اور پارلیمنٹ پر نہ ہو گی)۔ اسلام میں جمود نہیں، دین ِ فطرت جامد و ساکت کیسے ہو سکتا ہے… یہ کسی میوزیم میں رکھی ہوئی حنوط شدہ دستاویز نہیں کہ گاہے گاہے تبرکاً زیارت کر لی جائے۔ اسلام ایک زندہ و متحرک دین ہے… ایک عملی راستہ ہے، کوئی اپنے لیے عمل کی راہ تراشے تو سہی۔ بقول مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اسلامی عمل مسلمانوں کا اجتماعی عمل ہے۔ اجتماعی عمل میں حائل رکاوٹوں کو اجتہاد سے دُور کیا جائے۔

جب بھی وحدت کی بات ہوتی ہے ٗجمود زدہ ذہنوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے، بہت سے فرقے اور کرسیاں بلڈوز ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے مسلک سے زیادہ وابستہ ہیں ٗ بہ نسبت کلمے ، قرآن اور صاحبِ قرآنؐ سے،اس لیے سب سے پہلے اپنے مسلک کی “روشنی” میں کسی مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔ہمارا فارمولہ بہت سیدھا ہے، اگر کمیٹی کی سربراہی ہمارے پسندیدہ مسلک کے مولانا کے ہاتھ میں ہے تو اسے برقرار رہنا چاہیے، نہیں تو نہیں۔ حضرت واصف علی واصفؒ سے کسی نے پوچھا تھا کہ فرقہ واریت کیسے ختم کی جا سکتی ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ اپنا فرقہ ختم کر دو۔ ہم فرقہ واریت ختم کرنے کیلئے اپنا فرقہ ختم کرنے کی بجائے دوسروں کا فرقہ ختم کرنا چاہتے ہیں… بحث مباحثے سے، دھونس اور زبردستی سے۔ ہماری توپوں کا رخ غیروں کی بجائے اپنوں کی طرف ہوتا ہے۔
قومیں اپنے تہواروں کی یگانگت سے پہچانی جاتی ہیں، اور اپنے مشترک ہیروز کی پہچان سے ممتاز ہوتی ہیں۔ “مسلم ہیں ہم ٗوطن ہے سارا جہاں ہمارا”… دین کیلیے قربانی دینے والا ہر خطے میں رہنے والے مسلمان کا ہیرو ہے۔ غدارِ ملّت ہر جگہ سے طوقِ لعنت وصول کرتا ہے ٗ خواہ اُس نے اپنے مقامی اور علاقائی مفادات کیلئے “کام” کیا ہو… کام دکھایا ہو!! قائدِ اعظمؒ نے برصغیر میں دو قومی نظریے کے حق میں یہ بھی دلیل دی تھی کہ ہمارے ہیروز جدا جدا ہیں، جو ہمارا ہیرو ہے وہ تمہارا ولن ہے۔ ایک قوم ، ایک دن ، ایک تہوار… وحدت کی علامت ہے۔ عیدین کا تہوار بھی وحدتِ ملت کے استعاروں میں سے ہے۔ وحدتِ ملّت کے استعاروں اور شعروں “نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر” کا مضحکہ اڑانے والےدانشور “خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ” کے روحانی شعور سے آشنا نہیں۔ کلمے کی نسبت سے قوم کی تشکیل کا نظریہ دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں کو چبھتا ہے۔ ملحد و ملّا اِس معاملے میں ایک پیج پر آ جاتے ہیں۔ کسی کی مسند ڈولتی ہے تو کسی کا نظریہ ڈوبتا ہے۔ مزاجِ رسولِ ہاشمی ؐ سے ناشناس ذہن یہاں تک بحث کرتا ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ سارے مسلمان ایک ہی دن عید کریں۔ وحدت کی بات کرنے والوں کے پاس کتاب سے زیادہ صاحب ِ کتابؐ کے مزاج کا حوالہ ہے… اوریہ بہت مستند حوالہ ہے!! ذرا چشم ِ تصور وا کریں ٗ اگر آج رسولِ عربیﷺ ظاہری حالت میں اُمت سے مخاطب ہوتے تو ۔۔۔۔کیا اُمت دو دو عیدیں کرتی؟؟
بلادِ اِسلامیہ میں ایک ہی دن عید منانے کی تجویز کے جواب میں ایک طعنہ نما دلیل یہ سننے کو ملتی ہے کہ پھر نمازیں بھی مکّہ ٹائم کے مطابق پڑھ لیا کریں۔ واللہ! نماز عبادت ہے، عید کی حیثیت ایک تہوار کی ہے۔ نماز کا تعلق آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کے ساتھ ہے، عید کا تعلق صرف پہلی کے چاند کے طلوع ہونے کے ساتھ ہے۔ عقل کے ساتھ ساتھ دل کا سامان رکھنے والا خوب جانتا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب میں کیا فرق ہے۔ ہاں! نمازِ عید اپنے اپنے مقامی وقت پر پڑھی جائے گی کیونکہ اس کا تعلق فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہے…لیکن بخدا ملّت کو ایک دن عید منانے کی راہ میں فکری مغالطے تو پیدا نہ کریں۔ مختلف ایام میں عید منانے کا خمیازہ وحدتِ ملّت کے تصور سے دُوری کی صورت میں بھی بھگتنا ہوگا اور پھر شب قدر ، عاشورہ اور یومِ عرفہ کے تعین میں اشتباہ کی صورت میں بھی۔اس طرح ملّت اجتماعی دُعا اور عبادت سے محروم ہو جاتی ہے۔ ہم حقائق کی بجائے نعروں پر چلنے والی قوم بن چکے ہیں۔ نعروں کی گونج میں حق اور حقیقت دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے جذبات ہمارے کلیات پر حاوی ہو چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چاند سرحدیں دیکھ کر طلوع نہیں ہوتا۔ پچاس کی دہائی میں یہی ہماراگوادرٗ مسقط اومان کا حصہ تھا، یہ مسقط کے اتنا قریب ہے کہ جب مسقط میں چاند نظر آتا ہے تو یہاں بھی نظر آ جاتا ہے۔ اب انتظامی طور پر اس کا الحاق پاکستان سے ہو چکا ہےٗ اس لیے یہاں نظر آنے والے چاند کا اطلاق پورے پاکستان پر ہوتا ہے۔ اگر مشرقی اور مغربی پاکستان آج بھی ایک ہوتے تو کیا اس کا اطلاق آج کے بنگلہ دیش تک نہ کیا جاتا؟ کیا عید کا تعلق رویئت اور اِس کی خبر کے ساتھ ہے یا سیاسی و انتظامی طور پر ملحق علاقوں تک محدود ہے…؟ یہ سوال ہے اہلِ تحقیق کی خدمت میں!! ہمارے ملکوں اور دلوں کی سرحدیں ایک دوسرے کیلئے نرم کب ہوں گی؟؟ عید کے موقع پر شعر کی فرمائش پرحضرتِ اقبالؒ کب تک باحسرت و دل گرفتہ لکھتے رہیں گے؟
ع ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply