مثبت صحافت۔۔تحریر: عدنان عامر /انگلش سے ترجمہ : یحییٰ ریکی

گزشتہ ہفتے فرائیڈے ٹائمز میں’’Balochistan’s misplaced development priorities‘‘ کے عنوان سے ایک کالم شائع ہوا، جس میں مصنف نے حکومت ِبلوچستان کے 12ماہ کے لیے ترقیاتی اخراجات کے طریقہ کار پرتنقید کی تھی۔ سوشل میڈیا پر’’Balochistan Voices‘‘ کے نام سے بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں یہ کالم شیئر کیا گیا تو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس کو ناقص/غلط تحقیق قرار دیا۔ انھوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کوئی زرد عینک پہن لے‘ تو میں اس کی آنکھوں کے سامنے کے منظر کو ٹھیک نہیں کر سکتا، اسے اس کو اتار کر چیزوں کو بلاتعصب دیکھنا چاہیے۔‘‘

وزیراعلیٰ بلوچستان نے مذکورہ کالم سے متعلق کہا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں، جب بھی ہم حکومتی پالیسی سامنے لائیں مذکورہ کالم نگار کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے صحافی اس پر تنقید کرتے ہیں۔ حکومتی آفیسران کا ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے کہ آپ بھی مثبت صحافت کر کے حکومت کی جانب سے بہتر چیزوں کو سامنے لائیں، صوبے میں ہر اقدام ایسا خراب بھی نہیں ہے۔

’شکاگو ہیرالڈ‘ اور ’ایگزامینر‘ کے سٹی ایڈیٹر، ایلائے ایڈورڈسن کے ڈیسک پر ایک بار ایک ضرب المثل تشکیل پائی جو اس صورت حال کی بہتر طور پر وضاحت کرتی ہے۔ اکثرلوگوں نے اس مشہور ضرب المثل کو غلط سمجھا جیسا کہ یہاں ہوا ہے۔ اس کے مطابق ’’خبر وہ ہے جسے کوئی دبانا چاہتا ہے، اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ صرف ایڈورٹائزمنٹ ہے۔‘‘ صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں لکھے جنھیں حکومت دبانا/چھپانا چاہتی ہے۔ اگر ہم محض ان کے اقدامات کی تعریف کریں تو یہ ایک اشتہار تصور ہوگا۔

حکومت کے مثبت اقدامات کو اجاگر کرنے کے لیے’’ڈی جی پی آر‘‘ تعلقاتِ عامہ کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے۔ سالانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کے ساتھ ’’ڈی جی پی آر‘‘حکومت کے مثبت اقدامات کو اجاگرکرتا ہے۔ ڈی جی پی آر اپنا زیادہ تر بجٹ لوکل و قومی اخبارات پر خرچ کرتا ہے جو حکومت کے بہتر اقدامات کو اجاگر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں یہ وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کر کے وہاں بھی حکومت کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذاصحافی یقین رکھتے ہیں کہ یہ محض سادہ مزاجی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے یہ توقع رکھنا کہ ہر صحافی ڈی جی پی آر کی ذمہ داری ادا کر کے حکومت کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے کی کوشش کرے، یہ ناانصافی ہوگی۔

یہ بالکل غلط ہے کہ میڈیا حکومت کے بہتر اقدامات کو کور نہیں کرتا۔ لوکل اخبارات کے ذریعے حکومتی اقدامات روزانہ کی بنیاد پر شائع ہو رہے ہیں۔ میڈیا پسماندہ شہریوں کے علاج معالجہ میں فنڈ فراہم کرنے والی ’’بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ‘‘ کی تعریف کرنے کا کوئی موقع قطعاً ہاتھ سے جانے نہیں دے گا، یہ فنڈ صوبے کی تاریخ میں اہم اقدام ہے اور میڈیا نے حکومت کی تعریف کا حق بھی ادا کیا ہے۔

جعلی ڈومیسائل کے خلاف صوبے میں اقدامات اٹھانے پر حکومت کے اقدام کو سراہا گیا، صرف چند ہفتے قبل اس بارے میں راقم الحروف نے ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ کے لیے تفصیل سے ایک مضمون لکھا۔ اسی طرح کرونا وائرس (COVID-19) رسپانس کی تشکیل، قومی شاہراہوں پر میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹر (MERC) کی تشکیل اور وفاق میں دوسروں کے درمیان بلوچستان کے مفادات کے لیے کھڑا ہونے پر بھی میڈیا نے حکومت کا ساتھ دیا۔

اسی طرح موجودہ وقت حکومت نے کئی متنازع فیصلے بھی کیے جن پر میڈیا نے جائز تنقید کی۔ جس کی مثال دسویں این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے کے لیے نان کوالیفائیڈ شخص کی تعیناتی، یا ایسے موقع پر جب فعال ایمبولینسوں کا فقدان ہو اور ایئر ایمبولینس کی خریداری کے لیے 2.5 بلین روپت مختص کیے جائیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں شاہراہوں پر ٹف ٹائل لگانے کے لیے اخراجات اور درختوں کی کٹائی کرنے پر چند حکومتی آفیسران پر بھی تنقید کی گئی۔ حکومت کے ان چند برے فیصلوں پر تنقید کی گئی کیوں کہ یہ غلط تھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میڈیا کو جام کمال کی حکومت سے کوئی خاص پُرخاش ہے۔

صوبائی حکومت، خصوصاً میڈیا پر الزام تراشی کے معاملے میں عین اسی راہ پر چل رہی ہے، جس پر وفاق عمل پیرا ہے۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں کبھی کبھار صوبائی حکومت، وفاق سے بھی بازی لے جاتی ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مختلف طریقوں سے میڈیا کے لیے مصائب کا سبب بنی ہوئی ہے۔ متعدد صحافی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کئی میگزین اور اخبارات بند کر دیے گئے۔ حالیہ دنوں میں ایک ٹی وی چینل بھی بند ہونے کے قریب تھا کہ عدالت نے مداخلت کی۔ کوئٹہ پریس کلب نے میڈیا کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کی ناروا پالیسی پر احتجاجاً ایک ملین روپے کا چیک وزارتِ اطلاعات و نشریات کو واپس کر دیا، پاکستان کے دیگر پریس کلبزنے بھی اس کی تقلید کی۔

حکومت کومیڈیا کی جانب سے تنقید برداشت کرنے کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جام کمال جمہوریت کی وجہ سے صوبے کے آئینی سربراہ ہیں، یہ نظام میڈیا کو آزادی کے ساتھ حکومت پر تنقید کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، اسے اپنا کردار ادا کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ حکومت قانون کی کتنی پاسداری کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں صوبائی حکومت کویہ بات سمجھنی چاہیے کہ ان کے اقدامات پر تنقید پہ مبنی ہر تحریر ’زرد صحافت‘ کی حامل نہیں، یا لازم نہیں کہ لکھنے والے کے کوئی مخصوص مفادات ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ زرد صحافت بلوچستان میں موجود ہے اور یہ ایک بدقسمتی ہے۔ بلوچستان کے صحافیوں میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں۔ لیکن بہرحال ایک باشعور آدمی کے لیے ایسی زرد صحافت اور حقیقی صحافت میں فرق کرنا ایسا کوئی مشکل بھی نہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں کسی حکومت کے لیے حقیقی تنقید کو زرد صحافت کہہ کر چھپانا ممکن نہیں۔ یہ کارڈ اب زائد المعیاد ہو چکا ہے، جام حکومت کے لیے بھی یہ کسی صورت مفید ثابت نہ ہو گا۔

اٹھارویں صدی کے ڈرامہ نگار اور مصنف سیموئل جانسن نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’’ آزاد صحافت اچھی یا بری ہو سکتی ہے مگر بغیر آزادی کے صحافت لازماً بری ہی ہو گی‘‘۔ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز عالمی سطح پر میڈیا کے تحفظ کا رکھوالا ادارہ ہے، اس کی پیشانی پر یہ ٹیگ لائن درج ہے؛ ’’ آزاد صحافت کے بغیر کوئی آزادی نہیں‘‘۔

اس سیاق میں معاشرے کی مجموعی بہتری کے لیے حکومت ِبلوچستان کو آزاد میڈیا کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے، خواہ وہ ان کے لیے کیسا ہی تنقیدی کیوں نہ ہو۔ میڈیا کی تنقید پر کندھے اچکا کر اسے زرد صحافت قرار دینے کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ اس تنقید کو سامنے رکھ کر اپنی کارکردگی بہتر بنائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرائیڈے ٹائمز

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply