1۔بھاول نگر شہرکی پہلی مسجد!
بہاول نگر شہر کی ابتدائی آ بادی ریلوے اسٹیشن کے قریب جنوبی جانب پرانی سبزی منڈی چوک، عید گاہ روڈ ، نادر شاہ بازاراور مبارک گیٹ کے متوازی قائم ہوئی۔ اسی آ بادی میں چند گلیوں پر مشتمل ایک محلہ تیلیاںوالا کہلاتا ہے۔ یہاں سرسوں کا تیل بیلوں کے ذریعے کو لہو سے نکالا جاتا تھا۔سرسوں کاتیل فروخت کرنے والے ان محنتی جفا کش مسلمانوں کو سرسوں کے تیل کو فروخت کر نے کی نسبت سے تیلی کہا جا تا تھا ۔ ان ملک مسلمانوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ بہا ولنگر شہر کی پہلی مسجد ان لوگوں نے اپنی محنت مزدوری کی حلال کمائی سے بنائی (تاہم کچھ حصہ پراچہ برادری نے ڈالا) یہ تیلیاںوالی مسجد کہلائی۔یہ مسجد 1900کےاوائل میں تعمیر ہوئی ۔ مسلمان بچوں، بچیوں کی دینی تعلیم کا آغاز اس مسجد سے حضرت مولانا اللّٰہ بخش اور انکی اہلیہ اماں شہزادی نے کیا۔ شہر میں پہلی باقاعدہ اذان اور نماز با جماعت اس مسجد میں قائم ہوئی ۔ ۔شہر میں مسلمانوں کے مذ ہبی تہواروں کی مکمل جھلک اس محلے میں ملتی تھی دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھاول نگر شہر کی دوسری مسجد جس کا نام فردوس ہے تاہم مسجد درکھا ناوالی کے نام سے معروف ہے یہ مسجد بھی غریب مزدور پیشہ لکڑی کا کام کرنے والے ترکھانو/درکھانو نے بنائی ۔ اس مسجد کی چوبی چھت لکڑی کے فن تعمیر کا نمونہ تھی۔ ان مزدور پیشہ عظیم تیلیوں اور تر کھانوں کی عظمت کو سلام ۔
2۔شہرِ وفا ، بہاول نگر!
آ پ کو اکثر سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو گا کہ بہاول نگر کو شہر وفا کہا اور لکھا جاتا ہے ۔ شہر وفا کو خطاب دئیے جانے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ بہاول نگر میں 90-80-70-1960 کی دہا ئیوں تک بڑی ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ ان ادبی محافل میں قومی شعراء اور ادیب تشریف لاتے تھے۔ ایسی ہی ایک بڑی محفل ادبی مجلس کل پاکستان محفل مشاعرہ کا انعقاد دسمبر 1982 میں تفریح محل سینما کے ہال میں ہوا ۔ اس وقت صفدر جاوید سید ڈپٹی کمشنر ، اظہر حسن ندیم SSP، چوہدری عبدالغفور چیئرمین ضلع کونسل جبکہ رانا جاوید اقبال چیر مین میونسپل کمیٹی بہاول نگر تھے۔۔صفدر جاوید سید اور اظہرحسن ندیم انتہائی قابل ،ہر دلعزیز، عوام دوست اور اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والے آ فیسرز تھےانکی ذاتی دلچسپی ، رانا جاوید اقبال کی مینجمنٹ اور چو ہدری نیاز احمد سابقہ چیر مین میونسپل کمیٹی (مالک تفریح محل سینما) کے تعاون سے کل پاکستان محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوا ۔اس مشاعرے کے مہمان خصوصی چوہدری محمد شریف کمشنر بہاول پور تھے۔ مشاعرے میں قومی شعراء احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، منیر نیازی، شہزاد احمد، خالد احمد، ڈاکٹر نواز کاوش، جان کشمیری، افتخار قیصر، اقبال ساجد، ارشد جاوید، مرتضیٰ بیگ برلاس، سعادت سعید، منور جمیل، جبکہ خواتین شعراء میں نوشی گیلانی، بسمل صابری، اعجاز خانم، ودیگر۔ ۔ مقامی شعراء میں عیش شاہ جہانپوری ، ظفر چشتی، راؤ جمشید علی انجم، رمضان شاہد ،سلیم شہزاد اور کچھ دیگر شعرا نے کلام سنایا۔ مشاعرے کی کمپیرنگ افتخار قیصر اور اظہر حسن ندیم نے کی۔شہر یان بہاولنگر کی طرف سے سپاس نامی رانا جاوید اقبال نے پیش کیا جبکہ بزم اقبال کی طرف خیر سگالی کے جذبات کا اظہار سر محمد نذر نے کیا۔ قومی شعراء کی اسقدر تعداد میں آ مد اپنا کلام سنانا اور اہلیان شہر کے جم غفیر کی شرکت ،ہال کے علاؤہ لوگوں نے باہر زمین پر بیٹھ کرمشا عرہ سنا(جہاں اب گھاس منڈی لگتی ہے) ایسا عظیم الشان مشاعرہ بہاولنگر کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی ہوا نہ آ ئندہ ہو نے کے امکان ہیں ۔۔ مشاعرے میں اہلیان بہاولنگر کا پیار خلوص، علم دوستی اور امن پسندی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمام قومی شعراء اور آ فیسرز کی جانب سےبہاولنگر کو ” شہرِ وفا ” کا خطاب دسمبر 1982 کو دیا گیا۔ ( مشاعرے سے ایک دو دن قبل خبر گردش کر رہی تھی کہ صفدر جاوید سید ڈپٹی کمشنر انڈر ٹرانسفر ہیں، تقریب کے دوران اہلیان شہر نے تبادلہ منسوخ کروانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تاہم مشاعرے سے اگلے دن روایتی سیاست کے تابع انکا تبادلہ ہو گیا) راؤ عتیق الرحمن۔۔
3۔بازارِ حسن!
انگریز راج نے برصغیر میں کراچی سے دلی کوبراہ راست کم فاصلے سےریلوے لائن کے ذریعے ملانےکےمنصوبے کا آغاز 1881 میں ریاست بہاولپور کے قصبات سمہ سٹہ سے منڈی صادق گنج تک شروع کیا۔ ریلوے لائن اور اسٹیشنز کی تعمیرات کے لئے انگریز آ فیسرز، انجینئرز ، ہنر مند اور غیر ہنرمند مزدوروں کےقیام کے لئے برداشت خانے بنوائے۔ یہ تعمیراتی کام 1881میں شروع ہو کر 1906عرصہ 25 سال جاری رہا جب تک کہ بھٹندہ کی ریلوے لائن Via Bhattenda) کا محاورہ بھی اسی دوران تخلیق ہوا) اور بھاولنگر جنکشن کی تعمیر مکمل ہوئی ۔اس طویل عرصے میں کثیر تعداد میں افرادی قوت کو انگیج رکھنےاور انکی تفریح وطبع کے لئےانگریز سرکار کے حکم پر ریاست بہاولپور نے شہر بہاول نگر کی موجودہ سرکلر روڈ پر دو سٹریٹس اور ملحقہ بھیڑی گلیوں میں بھٹنڈہ، بھرت پور، فاصلکا اور جے پور کے کچھ خاندانوں کو جو کہ موسیقی اور رقص و سرود کےفن سے تعلق رکھتے تھے ان فنون کے اظہار کی اجازت اور لائسنس عطا کیےاور مرکزی حکومت انگریز سرکار نے بذریعہ ٹھیکہ افیون اور شراب کی فروخت کے لیے بار کھلوائی۔ یوں چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چل پڑا۔۔۔ بازار حسن کے لئے ہندی میں لفظ چکلہ بولا جاتا ہے۔ بہاولنگر کے اس بازار میں شام ڈھلے آ فیسرز، سیٹھ، جاگیرداری اور مزدور اپنی حیثیت کے مطابق جھو متے جھامتے پیدل ،تانگوں اور جیپوں پر بازار کےچوک پر ہار بیچنے والوں سےمو تیا اور گلاب کے ہار خرید کر اپنی پسندیدہ مغنیہ اور رقاصہ کو پیش کرتے سازندے موسیقی کی دھن بکھیرتے مغنیائیں آ واز کا جادو جگاتی تو حسینائیں رقص و سرود سے محفل کو گر ماتیں۔اس دوران بہت سی رومانوی کہا نیوں کے علاؤہ جنگ وجدل جیسے واقعات بھی رونما ہوئے۔ ۔ آ ہستہ آ ہستہ موسیقی اور رقص سے شروع ہونے والا سلسلہ جسم فروشی میں ڈھل گیا۔ اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے والوں میں کیا جاگیردار ، امراء،شرفا اور غربا بہت سے شامل رہے۔ یہ سلسلہ 1970کی دہائی تک جاری رہا پھر 1974میں بازار حسن/۔چکلے سے ملحقہ گلی والوں کے مطا لبے پر اس بازار کی شرقی اور جنوبی گلیاں اینٹوں سے چنوا کر بند کر دی گئیں۔ فنکار اور نیم فنکار بھوکے مرتے مختلف محلوں جبکہ آ سودہ فنکار بڑے شہروں میں ہجرت کر گئےیوں سلسلہ بازار حسن تک محدود نہ رہا۔ اس محلے کے مکانات اونی پونی قیمت یا سود میں جکڑ کر معززین شہر نے ان فنکاروں سے ہتھیا لئے ہجرت نہ کرنے والےکچھ بھو کے اور بد حال فنکاروں کی اولادا انتہائی برے حالات میں زندگی کے باقی ایام کاٹ رہی ہے قانونی تقاضے پورے اور انکے مرنے کے بعد۔۔شرفاء کی آبادکاری اور کاروباری ضرورت کے بعد بند گلیاں بھی کھل جا ئیں گئیں۔
4۔مملکت خداد بہا ول پور نے محکمہ مال کے لئے بہاول نگر بمقام چوک رفیق محمد شاہ گلی سید ممتاز عالم گیلانی کے شروع میں ایک ایکڑ سے زائد رقبے پر تقریباً 100 سال قبل تحصیلدار کی عدالت/ رہایش گاہ تعمیر کی۔۔ اسی نسبت سے ملحقہ بازار کا نام تحصیل بازار ہے۔ عدالت اوردفتر کی جگہ بھوت بنگلہ بنی ہوئی ہے البتہ رہائش گاہ کی تزئین وآرائش کے بعد اب تک تحصیلدار صاحب کی رہائش اسی بلڈنگ میں ہے۔ ( نوٹ۔ قیام پاکستان کے بعد دفتر تحصیلدار بھی یہاں سے منتقل ہو گیا اور تحصیلدار کی رہائش کے لئے گورنمنٹ کالونی میں رہائش بھی موجود ہے) بھاولنگر میں اسوقت گرلز کامرس کالج بلڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ایک دو کمروں پر مشتمل،ضلع میں ورکنگ ویمن ہوسٹل کا نہ ہونابہت بڑا مسئلہ ہے، اندرون شہر کوئی بنیادی مرکز صحت نہیں۔۔کوئی زچہ بچہ سنٹر نہیں،اس جگہ کا استعمال مفاد عامہ کی بھلائی کے لئے یا جاسکتاہے۔
5۔گردوارہ بہاول نگر گرد یال سٹریٹ (موجودہ گورگانی سٹریٹ) میں واقع یہ عمارت سکھوں کا گردوارہ ہے ۔ اس کے اردگرد بہاول نگر کی ابتدائی آ باد ی کی بنیاد رکھی گئی ۔ مسلمانوں کی پہلی مسجد، امام بارگاہ ، ہندوؤں کا مندر اور سکھوں کے پہلے گوردوارہ کا قیام ان چند ملحقہ گلیوں میں آ یا۔ قیام پاکستان کے بعدمہاجر مسلمانوں نے اس گوردوارہ میں عارضی قیام کو مستقل کر لیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے قیام پر دونوں حکومتوں میں ایک معاہدہ کے مطابق کسی بھی مذہبی مقام کو کسی شہری کے نام منتقل نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس گوردوارہ میں کچھ گھر ہیں جو واجبی سا کرا یہ محکمہ ہندو اوقاف کو ادا کرتے ہیں، اسکی عمارت 72 سال سے بغیر مرمت کے مخدوش ہو چکی ہے۔ موجودہ حکومت کے ویژن کے مطابق مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جائے تو اس ضمن میں گوردوارہ کو مناسب قانونی طریقے سے خالی اور مرمت کر واکر بہاولنگر کے سابقہ سکھ شہریوں کی مذہبی سیاحت کے لئے کھولا جائے تو اس طرح بھاولنگر کے کاروبار اور سافٹ امیج میں مزید بہتری آ ئیگی۔
6۔اولڈ جنرل بس اسٹینڈ بہاول نگر!
یہ عمارت کئی ایکڑ پر مشتمل ہے۔شہر کے وسط میں واقع ہے۔ میونسپل کمیٹی کے زیر کنٹرول اور ملکیت میں ہے۔ ملازمین میونسپل کالونی بنانےجبکہ عمائدین شہر کسی کمرشل پراجیکٹ کے تحت فیضیاب ہونے کی کوشش میں ہیں اس وقت ہر دو سیکٹر میں باہمی تعاون سے ٹرک اور ٹیکسی اسٹینڈ کے ذریعے یو میہ اکھٹا کیا جاتا ہے۔سول سوسائٹی بہاول نگر اپنے بچوں اور شہر کے بہتر مستقبل کے لیے غور کرے تو ؟ شہر میں اسوقت دو سرکاری اداراوں گورنمنٹ کالج بوائز اور گرلز میں Fsc کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن Fsc کے طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ اور طالبات کو ایک پرائیویٹ کالج یا اکیڈمیوں میں انتہائی مہنگی اور دو سال رکشوں پر دھکے کھا کر تعلیم حاصل کرنی پڑ تی ہے، اس دو سالہ تعلیم کے دوران والدین بے حد اذیت اور اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ایک تجویز ہے کہ اولڈ جنرل بس اسٹینڈ کی جگہ پر center of excellence یا state of the Art کی بنیاد پر Fsc کی تعلیم کے لئے ادارے کی بلڈنگ کا قیام عمل میں لا یا جاے اور اسے ملحقہ گورنمنٹ ماڈل سکول یا ڈسٹرکٹ پبلک سکول سے منسلک کر دیا جائے۔ یہ ہمارےMnaاور Mpa کے لئے بھی ٹیسٹ کیس تجویز کیا جائے۔
7۔میونسپل ہسپتال بہا ول نگر!
بلدیہ روڈ پر فائر بریگیڈ اسٹیشن سے شروع ہو کر ڈائمنڈ جیولرز والی گلی تک مغربی سمت سنی پلازہ والی سڑک تک کئی ایکڑ پر محیط ایک بڑی اور پرانی عمارت ہے۔ اس عمارت میں ریاست بہاول پور کے نواب صادق خان عباسی نے بہاول نگر کے سرکاری ہسپتال کی 12-1911میں بنیاد رکھی۔1916 میں توسیع بعد ازاں 1922 میں ہسپتال کی جدید عمارت اور ملازمین کے لئے کوارٹر تعمیر کیے گئے ۔ جدید ہسپتال کے قیام کے بعد 1931 میں اسکا نام میو نسپل ہسپتال رکھا گیا۔اس وقت کے معاشرتی حالات کے پیش نظر ہندو، سکھ اور بالخصوص مسلمان علاج کے لئے خواتین کو ہسپتال لانا معیوب سمجھتے تھے ۔ریاست کے حکمران نے 1935 میں اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے زنانہ ہسپتال کی علیحدہ عمارت تعمیر کی۔ اس ہسپتال میں مختلف سالوں میں فری آ ئی کیمپ کا انعقاد ہوتا تھا1945 میں فری آ ئی کیمپ میں 1600 مریضوں کا علاج معا لجہ اور400 افراد کی آ نکھوں کا مفت آ پریشن ہوا ۔اس فری کیمپ کے تمام اخراجات سید فتح محمد شاہ رئیس ٹو بہ قلندر شاہ نے ادا کیے۔عیسائی،ہندو،سکھ اور مسلمان ڈاکٹر ، کمپو ڈر بلا تفریق مذہب تمام انسانوں کی خدمت کرتے تھےقیام پاکستان کے بعد یہ ہسپتال موجودہ ہسپتال کی بلڈنگ میں منتقل ہو گیا۔۔اس وقت اس وسیع و عریض جگہ پر بچ جانے والے مخدوش کواٹرز میں میونسپل کمیٹی کے چند ملازم رہتے ہیں ۔ ایک دفتر، اور کاٹھ کباڑ پڑا ہوا ہے اور لوگوں نے پارکنگ ایریا بنایا ہوا ہے۔ جبکہ فرنٹ بلدیہ روڈ پر 8-10 دوکانات معمولی کرایہ پر بلدیہ نے مخیر افراد کو نوا ز رکھا ہےجبکہ ان کرایہ داروں نے آ گےزیادہ کرائےپر sublet کی ہوئیں ہیں۔ یہ جگہ بہاولنگر کی پرائم لوکیشن ہے اور یہاں نجی جگہ مرلوں کے حساب سے کروڑوں روپے کی ویلیو سے فروخت ہوتی ہے ۔لہذا یہ سابقہ میونسپل ہسپتال والی جگہ اربوں مالیت کی ہےاس جگہ کا درست استعمال کر کے پبلک،پرائیوٹ سیکٹر کے ذریعے مال یا شاپنگ پلازہ بنایا جائے تو میونسپل کمیٹی کو سالانہ کروڑوں روپے کی آ مدنی ممکن ہے اس آ مدنی سے نہ صرف کمیٹی کے مالی حالات بہتر ہونگے بلکہ یہ پیسہ شہر کی ترقی پر خرچ ہوگا۔
8۔پرانی سبزی منڈی عید گاہ روڈ بہاولنگر!
نواب آ ف بہاول پورکے رشتے میں سالے اور موجودہ کوئین آ ف ایلزبتھ بر طانیہ کے کزن لارڈ بائرن ایک دورہ میں نواب صاحب کے ہمراہ بہاولنگر تشریف لائے، انھوں نے ستلج پارک چوک سےموجودہ باغ علی ہسپتال تک۔ منچن آباد چوک سے پرانی سبزی منڈی تک نشاندہی کر کے صفائی کروائی اور اس جگہ پر پارک ،لائبریری اور کھیلوں کے میدان بنوائے۔۔ پرانی سبزی منڈی کی جگہ پہلوانوں کا اکھاڑہ اور کبڈی کا مرکز تھا۔جبکہ سبزی منڈی ریڈیو مارکیٹ کلینک ڈاکٹر اجمل سرمد والی جگہ پر تھی قیام پاکستان کے بعد 1955 کے قریب یہ منڈی پرانی منڈی کی جگہ منتقل ہو گئی۔ گنجان آباد علاقے میں آ نے کی وجہ سے تقریباً دس قبل منڈی یہاں سے منتقل ہو گئی ۔۔1923.24میں میونسپل کمیٹی بہاونگر کے قیام کے بعدیہ جگہ کمیٹی کے نام منتقل کر دی گئی ۔اب یہاں پرانی گوشت مارکیٹ کی جگہ کمیٹی کاسروس اسٹیشن ہے۔جبکہ منڈی اور کچھ گوشت مارکیٹ کی جگہ شہر کی نالائق قیادت کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔۔۔ کہاں وہ کافر لارڈ بائرن اور کہاں ہم مسلمان۔۔کروڑوں روپے مالیت کی یہ جگہ کمیٹی کا فلتھ ڈپو ہے۔ گز شتہ چیئرمین کے دور میں بذریعہ نیلام عام منظور نذر افراد کو نوازنے کی ایک کوشش ہو چکی ہے۔ اس جگہ کو فروخت کر کے نوازنے کی بجائے پبلک پرائیویٹ سیکٹر سے صاف وشفاف معا ہدہ کر کے کمرشل سنٹر بنایا جاے تو سالانہ کروڑوں کی آمدنی حاصل ہو اور یوں کمیٹی اس آ مدنی سے اپنا خسارہ اور شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔
9۔ڈپٹی کمشنر آفس بہاول نگر آ رٹ گیلری!
جناب محمد شعیب خان جدون ڈپٹی کمشنر بہاول نگر نے ڈی سی آ فس بھاول نگر میں ضلع بہاول نگر سے متعلق ریاست بہاولپور کے تاریخی پس منظر، قیام پاکستان کے علاؤہ انتظامی، تحقیقی، تعلیمی، ادبی، ثقافتی، کھیلوں اور زراعت کے حوالے سے آ رٹ گیلری کی بنیا د رکھی ہے۔ آ رٹ گیلری کا قیام بھا ول نگر میں ایک شاندار آ غاز ہے ۔ شکریہ ڈپٹی کمشنر صاحب،جبکہ میاں فضل فرید لالیکا ، محمد آ صف رسول اور ملک ناظم صاحب نے اپنی انتظامی اور تخلیقی صلاحیتوں سےآ رٹ گیلری کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا ۔۔اہلیان بھاول نگر سے مزید تجاویز کی توقع ہے تاکہ مزید بہتری ممکن ہو ۔
Facebook Comments
زبردست راؤ صاحب