زبانوں کے نام کیسے پڑے؟۔۔حافظ صفوان محمد

چیز کا نام لوگ خود رکھتے ہیں چنانچہ ایک ہی چیز کا نام کہیں کچھ ہوتا ہے کہیں کچھ۔ ایک ہی چیز اور ایک ہی خیال کو مختلف زبانیں بولنے والے لوگ اپنی اپنی زبان و بولی میں الگ الگ آوازوں سے ادا کرتے اور اپنے اپنے رواجی حروف میں لکھتے ہیں۔ عالمی صوتی ابجد (International Phoenetic Alphabet- IPA) کی ضرورت اسی لیے پڑی کہ انسان اپنی آوازوں کو کسی بھی زبان کے لیے مروج حروف کی شکلوں کے ساتھ لکھ سکے۔

حضرت آدم کی زبان کون سی تھی، یہ سوال دلچسپ ہے لیکن مغالطہ خیز ہے۔ آخری وحی چونکہ ایک عرب نبی پر اتری اور قرآن کے ارشاد کے مطابق اسی کی زبان میں اتری اس لیے قرآن اسی نبی کی علاقائی زبان یعنی عربی میں اترا۔

اشتقاقی معلومات (Etymology) کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو لفظِ عرب کا اولین استعمال تقریبًا ساڑھے تین سو سال قبلِ مسیح میں Hebrew, Genesis 1:5 میں ملتا ہے۔ اس سے پہلے اس لفظ کا موجود ہونا ثابت نہیں ہے۔ لفظِ عربی اسی کی یائے نسبت والی تصریفی صورت ہے۔ بایں صورت ہم آدم کی زبان کو عربی کس طرح کہہ سکتے ہیں جب کہ وہ نہ تو عرب کے علاقے میں آئے اور نہ اس وقت کسی قسم کی علاقائی شناخت موجود تھی۔

واضح ہوا کہ حضرت آدم عرب نہیں تھے بلکہ یہ علاقائی شناختیں بہت بعد میں پیدا ہوئی ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ جنت کی زبان عربی ہوگی، یا یہ کہ حضرت آدم کی زبان عربی تھی، بالکل بے اصل بات ہے۔ قرآن میں بھی یہ دعویٰ بالکل نہیں کیا گیا۔ آج کے پیمانوں سے گزرے ہوؤوں کو ناپنا تولنا صرف اپنا رانجھا راضی کرنا ہے۔

اگر ڈھائی ہزار سال پہلے عربی موجود نہ تھی تو یہ عربی کی خرابی نہیں ہے۔ اگر عربی موجود ہوتی تو پچھلی وحیاں بھی قرآن کے ارشاد کے مطابق عربی زبان ہی میں اترتیں۔ واضح رہے کہ کوئی نبی زبان نہیں لے کر آیا بلکہ صرف پیغام لے کر آیا ہے، اور یہ پیغام علاقے کے لوگوں کی سمجھ میں آنے والی زبان میں ہوتا تھا۔

اسی طرح عربی سمیت کوئی بھی مخصوص زبان ام الالسنہ نہیں ہے۔ ہر علاقے کی قدیم زبان وہاں پائی جانے والی زبانوں کی ماں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چنانچہ چیز کا نام لوگ خود رکھتے ہیں۔ آج جس زبان کو اردو کہتے ہیں اس کا نام بمشکل دو سو سال پرانا ہے۔ پنجاب کی زمین کی بولی جانے والی زبانوں کو علاقائی نسبت سے پنجابی کہتے ہیں۔ ریاست بہاول پور کی زبان کو ریاستی کہتے تھے۔ نصف صدی گزری ہے کہ اس علاقے کی زبان کا نام یہاں کے لوگوں نے سرائیکی رکھ لیا ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے کے لوگوں کو ریاستی، ملتانی یا پنجابی ہی کہا جائے گا نہ کہ سرائیکی۔ بالکل اسی بنیاد پر آدم کو عرب اور ان کی زبان کو عربی نہیں کہا جاسکتا۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply