جنّت سے رہائی ۔۔حبیب شیخ

نور نے اپنی ماں کو ایک خط لکھا پھر اسے پھاڑ دیا۔ اگلی رات اپنی ماں کو دوسرا خط لکھا پھر اسے بھی پھاڑ دیا۔ نور نے تیسری رات اپنی ماں کو پھر ایک خط لکھا اور اسے بھی  پرزے پرزے  کر دیا۔ نور پچھلی تین راتوں سے بہت کم سویا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے نیند اس سے ناراض ہو گئی تھی۔ نور نے اپنی ماں کو پچھلے چند ماہ میں کئی خط لکھے تھے اور ان میں بہت سے جھوٹ بولے تھے۔ اور اب ہر جھوٹ ایک کانٹا بن کر اس کی روح میں چبھ رہا تھا۔ وہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ محبت اپنی ماں سے کرتا تھا اسی لیے وہ اپنی ماں کو ایک بھی اور جھوٹ نہیں لکھنا چاہتا تھا۔ لیکن اگر سچ لکھتا تو ماں کا دل ٹوٹ جاتا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ خاموشی سے کسی معجزے کا انتظار کرے یا واپس چلا جائے۔ لیکن واپس جانے کے لئے کیا کوئی راستہ کھلا تھا؟

پچھلی تین راتوں میں نور کو ایک ایک واقعہ یاد آرہا تھا، خاص طور پر وہ دن جب وہ شاہ سے ملا تھا۔ وہ دن جب نور بہت تھکا ہوا تھا۔ اس نے گھر کی طرف واپسی کا رخ کیا۔ راستے میں ایک اور سواری مل گئی  جسے وہ منع نہیں کر پایا۔ ۱س سواری نے نور سے باتیں کرنا شروع کر دیں اور اپنا نام ’شاہ‘ بتایا۔ وہ منزل پر پہنچ کر رکشے سے اترا، جیب سے کا غذ نکال کر اس کا ایک کونہ پھاڑا اور اس پر کچھ لکھ کر نور کو دیا۔ نور نے یہ کاغذ کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں بھینچ لیا جیسے یہ اس کے مقدّر کی تبدیلی کا پروانہ تھا۔ نور کافی دیر وہیں ارد گرد کے ماحول سے بے خبر کھڑا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج کی آخری سواری شاید ۱نسان کے روپ میں ایک فرشتہ تھا جسے اوپر والے نے اس پر ترس کھا کر بھیج دیا تھا۔

نور کئی  سالوں سے میمن سنگھ میں رکشہ چلا رہا تھا۔ جب وہ پندرہ سال کا تھا ،باپ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گیا۔ نور اپنے بہن اور بھائی دونوں سے بڑا تھا۔ ماں، بہن اور بھائی کی ذمہ داری اس پر آن پڑی۔ باپ کے انتقال سے پہلے وہ شام میں ساتھ والی گلی کے ہوٹل میں ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ جاتا تھا۔ گاہے بگاہےکوئی گاہک اپنی پلیٹ میں چاول چھوڑ جاتا تو وہ لپک کر اسے منہ میں ڈال لیتا اور اس طرح شام کو پیٹ بھرتا کیونکہ گھر میں کھانا صرف صبح  کے وقت  ملتاتھا۔ لیکن اب اسے اپنا ہی نہیں بلکہ گھر والوں کا بھی پیٹ بھرنا تھا۔ ایک دو دن کے فاقوں سے تنگ آکر اس نے باپ کا سائیکل رکشہ چلانا شروع کر دیا۔ کچھ آمدنی تو ہونے لگی مگر بڑی مشکل سے اسے اور گھر والو ں کودو  وقت کا کھانا نصیب ہوتا تھا ۔

نور گھر پہنچا تو شاہ کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا اور رات کو سو نہیں سکا۔ نور نے کویت کا نام تو سنا تھا لیکن اس سے زیادہ اس کو کویت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ محلّے کے ایک دو لڑکے کالج میں پڑھتے تھے۔ نور نے اگلے دن ان سے کویت کے بارے میں پوچھا اور گھر آ کر ماں کو کویت جانے کے بارے میں بتایا تو وہ پریشان ہو گئی لیکن پھر سوچا کہ شاید اس طرح ان کی مفلسی دور ہو جائے گی۔ کچھ سال نور پیسہ جمع کر کے واپس آ جائے گا تو ان کی زندگی کے حالات بدل جائیں گے۔

نوراگلی صبح سائیکل رکشہ پر شاہ کے دیئے ہوئے پتہ پر پہنچ گیا۔ اس بوسیدہ دفتر کے دروازے پرایک تالا پڑا ہؤا تھا۔ نور نے دن میں دفتر کے کئی  چکر لگائے اور آخر کار گھر واپسی پر اسے دفتر کھلا ہوا ملا۔ وہ جلدی سے اپنے رکشے سے اتر کر شاہ کے پاس گیا۔ شاہ نے نور کو اشارے سے کرسی پر بیٹھنےکے لیے کہا اور کچھ کاغذات کی ترتیب میں مصروف ہو گیا۔ نور کا تو کسی دفتر میں جانا ہی نہ ہوتا تھا۔ وہ کافی مرعوب ہو کر شاہ کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد شاہ نور کی طرف متوجّہ ہوا اور اس کو بتایا کہ کویت کی ایک کمپنی نے اس سے رابطہ کیا ہے کیونکہ ان کو چالیس مزدور چاہئیں ۔ یہ سرکاری کام ہے اس لئے کام کے اوقات کم ہوں گے اور تنخواہ مناسب۔ پھر شاہ نے آنکھیں سکیڑ کر نور کو تکبّر سے دیکھا اور مزید بتایا کہ اس کے پاس کویت جانے کے لئے کافی لوگوں کی درخواستیں آئی ہیں اور وہ بہت مصروف ہے۔ اس نے نور کو اگلے روز آنے کے لئے کہا۔ اس طرح شاہ نے نور کو کئی چکّر لگوائے۔ نور بیتاب ہو رہا تھا کہ یہ سنہری موقع شاید اس کی زندگی میں دوبارہ نہ آۓ۔ اس نے شاہ کی منّت سماجت شروع کر دی۔ آخر شاہ نے اس کو ایک دن اپنے پاس بٹھایا، چاۓ منگوائی او ر نور کو بتایا کہ کویت زمین پر جنّت کا ٹکڑا ہے، وہاں اس کی تنخواہ پچاس دینارماہانہ ہو گی جو تقریبا پانچ ہزار ٹکے کے برابر ہے لیکن ویزا لینے کے لۓ کافی پیسے درکار ہیں۔ پانچ ہزار ٹکے کے الفاظ سن کر نور کا سر گھومنےلگا۔ اس نے تو کبھی ایک ہزار ٹکہ مہینے  میں نہیں کمایا تھا ،نہ کبھی اتنا کمانے کے بارے میں سوچا تھا۔ فوراً پوچھا کہ ویزا لینے کے لئے کتنے پیسے درکار ہیں۔ شاہ نے بتایا کہ ایک لاکھ ٹکہ جس میں ساٹھ ہزار اس کویتی کمپنی کو دینے ہیں جس کے پاس سرکاری ٹھیکہ ہے اور بقیہ پیسے میں اس کا ٹکٹ آۓ گا اور کچھ اس کی اپنی فیس کے لئے ہیں۔ ایک لاکھ ٹکے کے بارے میں سن کر نور کو شدید دھچکا لگا ۔ اس کے پاس تو پچاس ٹکے بھی نہیں تھے تو وہ ایک لاکھ کہاں سے لاۓ گا۔ اس کو محسوس ہوا کہ ایک تیز آندھی آئی اور اس کی جنّت اڑا کر لے گئی۔

جب وہ واپس جانے لگا تو شاہ نے کہا کہ وہ کہیں سے قرض کا بندوبست کر لے اور کچھ مہینے میں وہاں سے پیسے بھیج کر قرض ادا کر دے۔ نور کے جسم میں جیسے دوبارہ جان آگئی۔ گھر آ کر اس نے ماں سے بات کی۔ ماں یہ سب سن کر خاموش ہو گئی۔ ا یک طرف پانچ ہزار ٹکے آمدنی اور دوسری طرف ایک لاکھ ٹکے کی ضرورت۔ ماں اندر گئی ، تھوڑی ہی دیر بعد ایک بہت صاف پوٹلی لے کر باہر آگئی  اور اس میں سے دو سونے کے کڑے نکالے۔ ماں نے نور کو بتایا کہ اس کے باپ نے یہ بیٹی کی شادی کے لئے رکّھے تھے۔ یہ تو دوبارہ بھی خریدے جا سکتے ہیں، فی الحال پچاس ہزار ٹکے یا اس سے زیادہ میں بک جائیں گے۔ باقی رقم کے لئے وہ ایک رشتہ دار سے بات کرے گی۔

دو کڑوں کی قیمت اکیاون ہزار ٹکے لگی۔ نور کے رشتہ دار نے بتایا کہ وہ تیس ہزار ٹکے دے سکتا ہے اور یہ رقم چھ  مہینے کے اندر لوٹانا ہو گی۔ اگلے روز نور نے شاہ کو بتایا کہ وہ کویت جانے کے لیے اَسّی ہزار ٹکے دے سکتا ہے۔ شاہ نے جواب دیا کہ وہ کویت بات کر کے بتا سکتا ہے کہ اتنے میں ویزا لگ سکتا ہے کہ نہیں اور نور سے دو دن بعد آنے کے لئے کہا۔ نور نے یہ دو دن بڑی بے چینی سے گزارے اور نور کی ماں لمبی لمبی دعائیں مانگتی رہی۔ دو روز بعد شاہ نے بتایا کہ اسّی ہزار ٹکے اور سائیکل رکشہ میں کام ہو جائے گا۔ پھر اس نے نور کو کچھ کاغذات دکھائے کہ وہ پہلے بھی سلہٹ سے بہت لوگوں کو کویت بھیج چکا تھا۔ اس کے بعد شاہ نے کچھ اور کاغذات بھی دکھائے کہ یہ لوگ میمن سنگھ سے اس کے ساتھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک کویتی کمپنی کا خط بھی دکھایا جس میں بقول شاہ کے چالیس مزدوروں کو کویت بھجوانے کے لئے کہا گیا تھا۔

نور کو شاہ پر پورا اعتماد تھا۔ اس نے کڑے بیچ کر کل اسّی ہزار ٹکے شاہ کو دے دیئے۔ چند دنوں ہی میں شاہ نے نور کا پاسپورٹ بنوا دیا اور ویزا کے لئے درخواست دے دی۔ نور پاسپورٹ دیکھ کر اتنا خوش ہوأ جیسے یہ اس کی غربت اور مفلسی سے آزادی کا پروانہ تھا۔ نور بےصبری سے ویزا کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ سوچتا رہتا کہ یہ جگہ کیسی ہو گی جو جنّت کی طرح ہے، وہ پانچ ہزار ٹکے کا کیا کرے گا، چھوٹے بھائی کو تعلیم دلواۓ گا، بہن کی شادی کرے گا، پھر یہ کچّا مکان بیچ کر پکّا مکان خریدے گا، اب اس کی ماں کبھی بھی کھانے پینے اور کپڑوں کے لئے نہیں ترسے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کویت کے ہوائی اڈّے پر شاہ نے نور اور باقی لوگوں کو ایک طرف اکٹھا کیا اور ان کی قمیض پر پشت کی طرف ایک بڑا کاغذ چسپاں کر دیا جس پر 651 لکھا ہوا تھا۔ نور کو ایسا لگا جیسے وہ ایک انفرادی انسان سے 651 نمبر ریوڑ کا ایک جانور بن گیا تھا۔ شاہ نے اپنے  گروہ کے سب لوگوں کو ایک ایک کر کے بلا کر امیگریشن افسر سے پاسپورٹ پر ویزا لگوایا اور باہر نکل کر پاسپورٹ ایک مقامی باشندے کے حوالے کر دیئے اور اس سے مختصر گفتگو کر کے چلا گیا۔ اس کویتی باشندے نے سب کو ایک بس میں بٹھایا اور ایک ہوسٹل لے جا کر ایک بڑے کمرے میں ڈال دیا جہاں کوئی چالیس بستر لگے ہوئے تھے۔ دراصل یہ بیس دو منزلہ بستر تھے۔ نور اور دوسرے لوگ پریشان تھے کہ یہ کیسی رہائش کی جگہ ہے۔ ایک کمرے میں اتنے لوگ رہیں گے جہاں سوائے بستروں کے کسی چیز کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان سب لوگوں کے لئے صرف ایک بیت الخلاء تھا اور ایک باورچی خانہ۔ شام ڈھلے ان سب ملازمین کو بتایا گیا کہ ان کا کام ہوائی اڈّے کی صفائی ہے، بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے او ر ہفتہ میں چھ   دن کام کرنا ہے۔ ایک دن ناغہ کرنے کی سزا تین دن کی تنخواہ کی کٹوتی ہے۔

نور رہائش کے ناقص اور گندے انتظام اور اس کے اوپر لمبی ڈیوٹی پر بہت ناخوش تھا۔ رات کو بدبو اور شور کی وجہ سے اس کو صحیح طرح نیند نہیں آتی تھی۔ لیکن سوچتا کہ کچھ سالوں کی بات ہے، پیسے جمع کر کے واپس چلا جاؤں گا۔ آہستہ آہستہ اس کے کچھ دوست بن گئے اور وہ اس ماحول کا عادی ہو گیا۔ ہر تنخواہ میں سے کچھ کھانے پینے کے پیسے نکال کر باقی تمام گھر بھیج دیتا۔ اس کے اخراجات ہی کیا تھے، کام پر آنے جانے کے لئے کمپنی کی بس تھی اور رہنے کے لیے ہوسٹل۔ جمعہ کی شام کو بہت سے مزدور مل کر بس لے کر شہر کے پرانے علاقے میں چلے جاتے۔ وہاں کئی  سستے دیسی ہوٹل تھے۔ بس یہی ان کی تفریح تھی ۔

نور نے ماں کے نام اپنے خطوں میں یہ کبھی نہیں بتایا کہ وہ کن مشکل حالات میں رہتا ہے اور کتنے گھنٹے کام کرتا ہے۔ وہ بےچینی سے گھر والوں کے خط کا انتظار کرتا رہتا۔ ماں اپنے خط میں کتنی خوشی سے پیسے ملنے کا ذکر کرتی!

ابھی پانچ ماہ ہی گزرے تھے کہ تنخواہ ملنا بند ہو گئی۔ سب ملازمین کو بتایا گیا کہ کمپنی کے پاس ابھی پیسے نہیں ہیں۔ جب پیسے آئیں گے تو تنخواہ دی جائے گی۔ نور کے ایک دوست نے چوری چھپے اپنے ملک کے سفارت خانے کو فون کیا اور شکایت درج کرائی لیکن وہاں سے کوئی مدد کے لئے نہیں آیا۔ اسی طرح دو مہینے اور گزر گئے۔ ہر ایک کو پچاس دینارکے بجائے دس دینار ملتے تھے۔ اور ہر دفعہ یہ بتایا جاتا تھا کہ جب کمپنی کے حالات بہتر ہوں گے تو بقیہ ساری رقم ادا کر دی جائے گی۔ نور ماں کو کب تک یہ لکھتا رہتا کہ جلد ہی پیسے بھیج دوں گا۔ ایک دو بار مزدوروں نے کمپنی سے پوری تنخواہ کا تقاضا کیا تو یہ دھمکی ملی کہ بغیر پیسوں کی ادائیگی کے واپس بھیج دیئے جائیں گے۔

نور کئی دن اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ ماں کو کس طرح سچ لکھے۔ پھر اسے یاد آیا کہ ایک دانا انسان نے کہا تھا ۔۔۔ سچ ہمیں آزاد کر دیتا ہے۔ نور نے اپنی ماں کو خط میں لکھا کہ وہ جا کر شاہ سے ملے تاکہ شاہ تنخواہ دلانے میں مدد کر سکے۔ ماں کا جواب آیا کہ شاہ اپنا دفتر بند کر چکا ہے اور وہ شاید میمن سنگھ سے چلا گیا ہے۔ ماں نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ رشتے دار جس نے قرض دیا تھا اب پیسے واپس مانگ رہا تھا۔

نور اسی پریشانی میں رات کو ہوسٹل سے باہر آکر بیٹھ جاتا۔ تقریباً سب اس جیل خانے سے تنگ آئے ہوئے تھے اور باہر کھلی فضا میں بیٹھ کر اپنے دکھ سکھ بانٹتے ۔ کوئی انگریزی جاننے والا ایک دو دن پرانا مقامی انگریزی اخبار بھی لے آتا۔ اس دفعہ خبر تھی کہ ایک بنگلہ دیشی مزدور نے مسجد میں خودکشی کر لی ہے۔ اس کی جیب سے خط ملا جو اس نے اللہ کے نام لکھا تھا۔ بس اتنی ہی خبر تھی۔ اس کے علاوہ کوئی تفصیل نہیں تھی۔ یہ خبر سن کر سب پوری شام کے لیے خاموش ہوگئے تھے۔
نور نے جب یہ خبر سنی کہ تو اس کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ اسے خود کشی میں اپنے مسئلے کا حل مل گیا۔ لیکن پھر اس کی ماں کا کیا ہوگا؟ جب اس کی لاش بنگلہ دیش جائے گی تو اس کی ماں زندہ درگور ہو جائے گی۔

اگلے روز نور پریشانی کے عالم میں سب سے اکیلا پرے ایک برساتی نالے کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس دفعہ ماں کے خط کے علاوہ دو اور خطوط بھی آۓ تھے۔ وہ ہمیشہ ماں کے خط کا بے چینی سے انتظار کرتا لیکن اس دفعہ اس نے ماں کے خط کو نہیں کھولا۔ سلہٹ سے ایک دوست کا خط تھا ۔ اس نے بہن کی شادی کے لئے دس ہزار ٹکے ادھار مانگے تھے۔ ایک اور خط  محلّے کی مسجد کے امام کا تھا۔ اس خط میں نور کو بتایا گیا کہ نور اب صاحب کفیل ہے اس لئے اس پر حج فرض ہو گیا ہے اور وہ مسجد کے لئے ایک بڑی گھڑی بھیجے۔ نور نے یہ دونوں خط پڑھ کر ایک خط اللہ کے نام لکھا۔ برساتی نالے میں تھوڑا تھوڑا پانی بہہ رہا تھا۔ نور نے یہ سارے خطوط پانی میں بہا دئیے اور دیر تک بیٹھا انہیں دیکھتا رہا جب تک کہ وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نور سوچ رہا تھا کہ کاش یہ جنّت بھی اس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے اور وہ کسی طرح بہتا ہوا میمن سنگھ پہنچ جائے۔ پھر وہ اٹھا اور ریت کے ٹیلوں کی طرف بےمقصد چلنا شروع کر دیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک فوجی چھاؤنی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ نور نے گھبرا کر رخ پلٹا اور تیز تیز قدموں سےواپسی کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اس کو پتا تھا کہ اسے جاسوسی کے شک میں گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ پیچھے سے ایک جیپ کی آواز آرہی تھی۔ نور نے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ اپنی  رفتار اور تیزکر لی اور وہ اس جنّت میں واپس پہنچنا چاہتا تھا جہاں سے کچھ دیر پہلے وہ رہائی چاہتا تھا۔
پندرہ منٹ کے بعد نور دو شکرانے کے نفل ادا کر رہا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply