ہماری داڑھیاں اور ایم پی اے صاحبہ۔۔ذیشان نور خلجی

اچھی بھلی فرنچ کٹ رکھ چھوڑی تھی لیکن اب اتروانا پڑے گی۔ محترمہ نے پنجاب اسمبلی میں فیشن ایبل داڑھیوں کے خلاف قرار داد جو جمع کروا دی ہے، تو پھر یہ تو ہو گا نا۔ لیکن یہ سب ہونے سے پہلے، آئیے کچھ جائزہ تو لیں آخر فیشن ایبل داڑھی کے خلاف اہل مذہب کو مسئلہ کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ داڑھی کی مخصوص تراش خراش دراصل پیغمبر کی سنت کا مذاق ہے۔ حالانکہ مجھ سمیت کوئی بھی آدمی اس بات کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاک پیغمبر ص کی سنت کی توہین کا مرتکب ہو۔ ہاں، داڑھی کی جدید تراش خراش مغربی اور کچھ کچھ عربی فیشن ضرور ہے جس کو نوجوان نسل اپنا رہی ہے لیکن بالکل ایسے ہی، جیسے جینز اور نیکر پہننے کا فیشن چل پڑا ہے۔
لیکن اس گھٹیا بیانیے کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر داڑھی کے ساتھ ایسی چھیڑ چھاڑ سنت کا مذاق ہے تو پھر سرے سے داڑھی کو مونڈھ دینا، تو اس سے بھی بڑا مذاق ہے۔ کیوں کہ یہ کلین شیوڈ حضرات داڑھی کو کسی بھی حالت میں چہرے پر ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اور ایک قدم مزید آگے بڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے یہ جو عین سنت کے مطابق بالشت بھر داڑھی اپنے چہرے پر سجائے پھرتے ہیں دراصل سنت کا مذاق اور توہین تو سب سے زیادہ یہی لوگ کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی سامنے آئے اور دعویٰ کرے کہ اس نے داڑھی رکھ کر کبھی کوئی خلاف سنت کام نہیں کیا۔ کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ کبھی کسی کے خلاف دل میں کینہ نہیں رکھا۔ کبھی غیبت نہیں کی۔ کبھی نظروں کو اور زبان کو بے لگام نہیں چھوڑا۔ کبھی فرقہ واریت کی آگ میں نہیں جلا۔ کبھی مسلک پرستی اور شخصیت پرستی نہیں کی۔ تو پھر اتنی پیاری سنت کو اپنا کر وہ ساتھ کبھی کبھار جو گناہ کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل سنت کا مذاق ہی اڑا رہے ہوتے ہیں۔ واضح رہے میں کسی پہ سنت کے مذاق کا بھونڈا الزام نہیں لگا رہا بلکہ ان کے سامنے انہی کا بیانیہ رکھ رہا ہوں، لیکن مکمل وضاحت کے ساتھ۔
اب ذرا محترمہ کا احوال دریافت کر لیں۔ دوستو ! آپ سب تو جانتے ہیں کہ روایتی اہل مذہب جو کہ فیشن ایبل داڑھی کو سنت کا مذاق گردانتے ہیں وہ عورت کو بھی چار دیواری کے اندر کی چیز سمجھتے ہیں۔ تو پھر یہ محترمہ پنجاب اسمبلی میں کیا کر رہی ہیں؟ بلکہ عورت کی حکمرانی کے متعلق علماء کی کیا رائے ہے، یہ تو ہم سے زیادہ خود محترمہ جانتی ہوں گی؟ تو پھر سب سے پہلے خود انہیں گھر جانا چاہئیے۔
چونکہ محترمہ پردہ کرتی ہیں۔ لیکن کیا یہ وہی شرعی پردہ ہوتا ہے جو اہل مذہب کے نزدیک مستند ہے؟ کیا جاذب رنگت لباس کے ساتھ ہم رنگ سکارف سے چہرہ چھپانا شرعی پردے کے زمرے میں آتا ہے؟ اور جب یہ نہا دھو کر، تیار شیار ہو کر اسمبلی میں آتی ہوں گی تو لازمی بات ہے کہ پرفیوم کا استعمال نہیں کرتی ہوں گی کہ یہ بھی خلاف شرع ہے۔ لیکن کیا ان کے نسوانی وجود سے اٹھنے والی شیمپو اور صابن کی بینی بینی مہک نامحرم مردوں کے نتھوں کو نہیں چھوتی ہو گی؟ اور جب کبھی یہ اپنے پارٹی لیڈر میاں نواز شریف صاحب سے ملتی ہوں گی تو کیا ان کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرتی ہوں گی؟ کیوں کہ نرم لہجے میں بات کرنے سے مخاطب مرد کے بہک جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ شریعت کہتی ہے۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن جگہ کی کمی کے باعث بات سمیٹتے ہوئے ایم پی اے صاحبہ کے حضور عرض کروں گا، بی بی ! بجائے دوسروں کے گریبان پکڑنے کے، پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں، ورنہ ہم جھانکیں گے تو تکلیف ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply