غزل۔ ایک کھوکھلی صنف۔۔۔ستیہ پال آنند

(زوم کی وساطت سے بر پا کیے گئے ایک مباحثے پر  میرا حلفیہ بیان اقبالی)

اول تو غزل سے میری بیگانگی کا سبب اُس زمین کا بنجر پن ہے جس میں پہلے ہزاروں بار فصلیں بوئی جا چکی ہیں، کاٹی جا چکی ہیں، اور بغیر کھیت کو صاف کیے، بغیر اس میں نئی کھاد ڈالے اور بغیر اس میں ہل چلائے نئی فصلیں بوئی جاتی رہی ہیں۔ اب یہ زمین نسل کش ناکارگی کی ایک زندہ (لیکن نیم مردہ حالت میں) مثال ہے۔ لا حاصل، لا طائل، الل ٹپ نتیجہ ہے جو روائتی غزل پیش کر رہی ہے۔

دوئم، آپ نے یہ بھی صحیح فرمایا کہ دیگر زبانوں میں موجود ادبیات کے تقابلی جائزے نے مجھے اس سے مایوس کیا ہے۔ میں دعوے سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس وقت یورپ اور امریکا میں شاید صرف میں ہی ایک ان تھک ادنیٰ کامگار ہوں، جس نے نہ صرف اپنی یونیورسٹی کے لیے بلکہ آدھ درجن سے زیادہ یونیورسٹیوں کے لیے تقابلی ادب کے کورسز کی تشکیل کی ہے۔  یورپ کی بڑی زبانوں کے ادب کے علاوہ بر صغیر کی تین بڑی زبانوں، ہندی، اردو اور بنگلہ کا اس میں ، ہون کی آہوتی کے برابر ہی سہی، لیکن حصہ ضرور شامل کیا ہے۔ جہاں یورپی زبانوں اور ہندی کے علاوہ بنگلہ زبان میں بھی ڈرامہ (ناٹک) ایک راسخ صنف کے طور پر موجود ہے، وہاں اردو کا دامن اس سے خالی ہے۔ ناول ہماری زبانوں کو یورپ کی دین ہے۔ بنگلہ اور ہندی میں تقریباً ساتھ ساتھ اس کی بنیاد پڑی۔ اردو میں ناول کو سکہ ٔ رائج الوقت بننے میں کئی دہائیاں لگ گئیں، جب تک کہ بنگلہ زبان کی دیکھا دیکھی منشی پریم چند نے دیہاتی زندگی کے بارے میں ناول نہیں لکھے۔ شاعری ہی ایک ایسی صنف تھی، جو مقابلتاًبرو مند تھی، اُپجاؤ تھی، ثمر آوری میں کسی بھی دیگر زبان کا مقابلہ کر سکتی تھی، لیکن پہلے صنف ِ غزل کے دم خم، سرگرمی ، جوش و خروش اور گہما گہمی نے جو فضا پیدا کی، اس کے بعد ’پدرم سلطان بود‘ کی عادت کے زیر اثر ، اندر ہی اندر سلگتے ہوئے، یہ صنف بے سکت، غیر فعال ہوتی چلی گئی۔ جمود نہیں آیا، لیکن اڑیل پن نے اسے جونچال بناتے بناتے لا تصحیٰ اعادہ، تکرار کا حامل بنا دیا۔ یہ جنس کوڑی کے مول بکنے لگی۔ہما شما شاعر بن گئے، بیش از بیش، مکرر اور سہ کرر آوازیں ہماری سماعت سے ٹکرانے لگیں ۔۔۔۔۔ یہ تھی وہ دوسری وجہ جس نے مجھے متنفر کیا۔دروغ پر گردن ِراوی۔

گستاخی معاف فرمائیں تو کہوں گا کہ اس جرح میں میری کوتاہیاں تو لا تعداد ہیں۔ کردہ گناہوں کی فہرست میں تو یہ شامل ہے کہ میں نے صنف غزل کو بد نظمی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے درجنوں مضامین اور مقالے لکھے۔ ناکردہ گناہوں کی فہرست میں اب یہ بھی شامل کر دیا گیاہے کہ میں نے ’کیوں‘ خود یہ جتن نہیں کیا جو غالب اور اقبال نے کیا تھا۔ (معافی چاہتا ہوں لیکن اقبال نے کب اور کہاں یہ جتن کیا تھا، یہ میرے مطالعے میں نہیں آیا) غالبؔ نے جو کچھ کیا اسے خود بھی قابل اعتنا نہیں سمجھا اور جاتے جاتے بھی اپنے فارسی دیوان کو اردو دیوان پر فوقیت دے کر گویا آنے والی نسلوں کو ایک بار پھر یہ یاد دلا دیا کہ اردو صرف ریختہ ہے، ریختہ ہے ، گری پڑی ہوئی چیز ہے جو ہم نے مال مفت سمجھ کر اٹھالی ہے۔

اب آئیں اس سوال کے مرکز ہ کی طرف۔میں نے اپنی ’’ندرت سامانی‘‘ کو اس صنف کا’’مساعد و مددگار‘‘ کیوں نہیں بنایا۔ یہ ایک من ٹوہنی بات تھی اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے خود اپنی پڑتال اور پرچول کی تو پایا کہ مجھ میں نہ تو غالبؔ کا مدوریت اور ملفوفیت پر انحصار ہے کہ ایک سے تین تک استعاراتی ؍ دیومالائی ؍ قدیم ادبی حوالوں کو گڈ مڈ کر کے ایک ساتھ ایک ہی شعر میں سر بمہر لفافے کی طرح رکھ دوں اور نہ ہی شعرا کی وہ خصوصیت موجود ہے جو تین صدیوں تک اردو غزل کی ایک راسخ روایت تھی اور یہی دکھائی دیتا تھا کہ ایک طویل قطار ہے، جس میں چلتی ہوئی، سسکیاں بھرتی ہوئی، آہ وبکا میں مصروف، گریہ زاری کا تلذز اٹھاتی ہوئی ، جزع و فزع میں بلبلاتی ہوئی، ’خود ترحمی‘ کا شکار، ایک لمبی ’تیرتھ یاترا‘ پر نکلے ہوئے شاعر شامل ہیں، جو سینہ کوبی اور ماتھا پیٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔

بر سبیل تذکرہ، جب پنجاب یونیورسٹی ، چنڈی گڑھ ، جہاں میں انگریزی کا پروفیسر تھا اور اکاڈمک کونسل کا صدر تھا، ہم لوگوں کی سعی مسلسل سے شعبہ ٔ اردو کا وجود عمل میں آیا ، تو اس کے ریسرچ کے پروگرام کی نگرانی کا کام مجھے سونپا گیا۔ ایم اے فائنل میں لکھنے کا کام بھی شامل تھا اور ایک خاتون نے جب غزل کی تاریخ پر لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تو میں نے اسے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں تین ہزار اردو اشعار کی فہرست بنانے کا کام سونپا، جس میں خود ترحمی پر مشتمل اشعار کی شرع تلاش کرنا تھی۔ جب نتیجہ دیکھا تو میں خود حیران رہ گیا۔ ان تین ہزار اشعارمیں 2216 اشعار تھے جنہیں اس زمرے میں رکھا جا سکتا تھا۔(ان میں فانی بدایونی کے اشعار کی شرح سر فہرست تھی، جس کی شاعری میں 98.2% اشعار اس قبیل کے تھے)

Advertisements
julia rana solicitors london

شاعری کی تعریف میں یہ مد بھی شامل ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی ایسے بارود کی طرح بھر دیے جائیں جو قاری کی سطح پر خود بخود ایک دھماکے کی صورت میں ظاہر ہو، اور اس کا ذہن ان معانی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس مشکل کا حل؟ ایک تو چچا غالب نے امکان اور عمل، دونوں کی سطح پر اپنی مدوریت اور ملفوفیت سے ظاہر کیا تھا، دوسرا استعارہ، علامت ، لڑی وار پروئی ہوئی تشبیہات کو تصویری مفہوم کی سطح پر ایک خاص طرح پیش کرنے کا ہے جو آپ کی تخلیقی قوت کا کیمکارڈر فلم کرتے ہوئے چلاتا چلا جاتا ہے (انکسار سے عرض کروں کہ میں خود یہ راستہ ماپتا ہوں)؟

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply