غلام دانشور۔۔اسماعیل گُل خلجی

جیسے جسم  کو روح  کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی  معاشرے کو      عقلمندوں  اور  دانشوروں کی  ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی میں دانشور کا کردار انتہائی اہم ہوتی ہے ۔

دانشور حضرات اپنے علم کی طاقت، ذہنی فکر اور شعور کی پختگی کی بدولت معاشرے میں ابھرتے ہوئے سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل کا حل تلاش کر کےمعاشرے کو  ترقی کی جانب گامزن کرتا ہے

ایک معاشرہ ترقی کی راہ پر تب  چل سکتا ہے جب معاشرے میں دانشور حضرات ذاتی فوائد اور مقاصد سے بلند ہو کر  معاشرے کے مسائل پر بغیر کسی منافقت کے حکومت کے ناکام پالیسیوں اور خود معاشرے  کو تنقید کا نشانہ بنائے ۔

آج اگر پاکستانی معاشرہ جن حالات سے دوچار ہے ،جیسے بھوک، غربت اور افلاس اس کے ذمہ  دار سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ وہ  دانشور حضرات بھی ہیں ، جو اپنے ضمیر کو بیچ  کر  سیاسی شخصیات اور امراء سے  مالی تحائف لے کر اپنے قلم کو   ان کی غلامی میں استعمال کرتے  ہیں ۔

دانشوروں سے نا امیدی کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی صاحب اپنی کتاب ” تاریخ اور دانشور” میں لکھتے ہیں ” پاکستانی معاشرہ آج جن حالات سے دوچار  ہے اس کے ذمہ دار سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ یہ دانشور بھی ہیں کہ جنہوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد  اس ملک کی فکری بنیادوں کو سیکولر اور ترقی پسند روایات پر استوار کرنے کے بجائے حکمران طبقوں کا ساتھ دے کر ان کی جڑوں کو مضبوط کیا  اور خود کو اسی قدر کمزور کر لیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں دانشوری کی روایات انتہائی کمزور ہیں اور دانشور آزاد و خود مختار ہونے کے بجائے حکمران طبقوں کی خوشنودی میں اپنا زور قلم صَرف کررہے ہیں ۔ ”

ڈاکٹر صاحب کے پیراگراف سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے  کہ ماضی کی طرح آج بھی دانشور  حکمرانوں اور  امراء کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن ہیں  ۔

غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دانشور نصابی کتابوں  میں جھوٹ لکھ لکھ کر، اور  سیاست دانوں کی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈال کر  موجود نسل کے طلباء اور طالبات کو  تنقیدی نقطہ نظر سے  پڑھنے سے محروم کررہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

طالبعلموں کی  صلاحیتیں نصابی  کتابوں اور نمبرز لینے تک محدود ہیں  ۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں تخلیقیت  کم  اور  غلام پرستی زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply