حکیم نافرمان کی دو تولے سنا مکی۔۔ذیشان نور خلجی

گزرے وقتوں کی بات ہے ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے۔ نام تھا جن کا سید فرمان علی۔ چار دانگ عالم میں ان کا چرچا تھا۔ بیمار آتے شفایاب ہوتے، مصیبت زدہ آتے مشکلوں کا حل پاتے، گو طب و حکمت کے ساتھ ساتھ عقل و خرد بھی حکیم صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ایک ہی ان کا بیٹا تھا۔ لیکن چراغ تلے اندھیرا تھا۔ نام تو اس کا رب جانے، لیکن تھا بالکل حکیم صاحب کے برعکس۔ چلو صاحبزادہ نافرمان کہیے دیتے ہیں۔ تو دوستو ! جب تک حکیم صاحب زندہ رہے، نافرمان میاں موج کرتے رہے۔ لیکن باپ کی رحلت کے بعد تو ان کے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔ آخر کتنے دن بیٹھ کے کھا سکتے تھے۔ مرحوم، حکیم فرمان علی شاہ تھے کوئی طب یونانی کے اتائی تھوڑی تھے جو مردانہ کمزوری کی دوائیں بیچ بیچ کر دھن دولت اکٹھی کی ہوتی۔

خیر جب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو بڑی بی نے سخت سست سنائیں اور نصیحت کی کہ ابا میاں کا دواخانہ جو ہے، سو کھول کے بیٹھ جاؤ کہ حقہ پانی چلتا رہے۔ لہذا میاں نافرمان علی اپنے تئیں حکیم بنے، دواخانہ کھول کر بیٹھ گئے۔ پہلے ہی دن ایک مصیبت کا مارا بوڑھا حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا، حکیم صاحب ! میرا گدھا گم ہو گیا ہے سارا قریہ چھان مارا ہے لیکن کہیں نہیں مل رہا۔ اب آپ ہی کوئی حل بتائیں پہلے بھی جب کبھی کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تھا تو اسی در سے مشکل کشائی ہوتی تھی۔ حکیم صاحب نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سوچ میں پڑ گئے کہ اب اسے کیا کہوں۔ پھر دوسری نظر سامنے رکھی کتاب پر ڈالی جس کے ایک صفحے پر لکھا تھا دو تولے سنا مکی صبح، دوپہر، شام کھانے کے بعد۔ بس پھر اور تو کچھ سمجھ میں نہ آیا اسے یہی نسخہ پکڑا کر چلتا کیا۔

اب ذرا اس بڈھے کی بھی سن لیں۔ ابھی تیسری خوراک اس کے پیٹ میں نہ گئی تھی کہ پہلی دو خوراکیں بھی باہر آنے کو بے تاب ہو گئیں۔ اور تب کوئی بیت الخلاء تھوڑی ہوتے تھے۔ لہذا وہ رفع حاجت کے لئے کھیتوں کی طرف چل دیا۔ ابھی وہاں بیٹھا مٹی کے ڈھیلوں سے کھیل ہی رہا تھا کہ سامنے جو نظر پڑی تو اس کا گدھا دور کھیتوں میں گھاس چر رہا تھا۔ بس جی اس کی تو خوشی کی انتہاء نہ رہی، گدھا جو مل گیا تھا۔ اور حکیم صاحب کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی کہ یہ علم و حکمت میں اپنے باپ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔

انہی دنوں کی بات ہے ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا۔ بہت ٹونے ٹوٹکے، دوا دارو کیا۔ دور دور سے طبیب بلائے گئے لیکن علاج ندارد۔ خیر بات سے بات نکلتی بادشاہ تک بھی جا پہنچی کہ پاس دیہات میں ایک خاندانی حکیم ہیں جن کے پاس ہر بیماری اور ہر مسئلے کا حل ہے۔ ایک اخری امید کے طور پر بادشاہ نے ان سے علاج کروانے کا فیصلہ کیا۔ حکیم نافرمان صاحب کو بلایا گیا۔ انہوں نے مریض کو دیکھے بغیر ہی علاج تجویز کر دیا کہ تین وقت کھانے کے بعد دو دو تولے سنا مکی کا قہوہ پیا جائے۔

دیسی طب میں کہا جاتا ہے کہ قبض ام الامراض ہے۔ بادشاہ کو بھی قبض کا ہی مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے باقی بیماریاں بھی سر اٹھانے لگی تھیں تو جونہی قبض ٹوٹی بادشاہ کی صحت بھی بحال ہونے لگی۔ اور پھر خراج کے طور پرحکیم نافرمان کو شاہی طبیب مقرر کر دیا گیا۔ حکیم صاحب نے اپنا دواخانہ بند کیا اور خوشی خوشی محل سرائے میں پناہ لے لی۔

حکیم نافرمان شاہ کا سورج ابھی سوا نیزے پر نہیں پہنچا تھا کہ دشمن ملک کی فوجیں نیزے تھامے پہنچ گئیں۔ گھمسان کا رن پڑا لیکن دو ہفتے بیت گئے سپاہ کے گھوڑے تعین ہی نہ کر سکے کہ جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اسی پریشانی میں گم بادشاہ کو خیال آیا کیوں نا شاہی حکیم سے مشورہ کیا جائے۔ چنانچہ حکیم نافرمان کو بادشاہ سلامت کے حضور پیش کیا گیا اور رائے لی گئی۔ حکیم صاحب نے اپنا آزمودہ نسخہ بتایا کہ اسی میں جنگ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اگر ساری سپاہ دو دو تولے سنا مکی تین وقت کھائے۔ چنانچہ تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ ستم ظریفی دیکھئیے، اس وقت دشمن فوج کا ایک جاسوس بھی یہ سب باتیں سن رہا تھا اس نے واپس جا کر اپنے سپہ سالار کو بتایا کہ دشمن کی فوج دو دو تولے سنا مکی کھانے لگی ہے اب ہماری خیر نہیں کیوں کہ وہ ایک زبردست حملے کی تیاریوں میں ہیں۔ سپہ سالار نے اپنی فوج کو حکم جاری کر دیا کہ ہمارے سب سپاہی چار چار تولے سنا مکی کھائیں۔ انشاءاللہ ہم دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔

سنا مکی سے نبرد آزما ہونے کے بعد جب ایک دفعہ پھر میدان سجا تو دشمن کی فوج جلد ہی سنا مکی کو ٹھکانے لگانے کے لئے ادھر ادھر ہونے لگی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں حکیم صاحب کے ملک کی فوج نے چونکہ دو دو تولے استعمال کئے تھے لہذا یہاں اتنی خاص گڑ بڑ دیکھنے کو نہ ملی بلکہ انہوں نے آگے بڑھ کے دشمن کی تتر بتر ہوتی صفوں کو مکمل طور پر توڑ دیا۔ اور پندرہ دنوں سے فیصلے کی منتظر جنگ جیت لی۔ بادشاہ نے حکیم صاحب کو شاہی طبیب کی بجائے وزیر کے رتبے پہ فائز کر دیا۔ یوں ایک عام سے نسخے سے ملک جنگ بھی جیت گیا اور حکیم نافرمان علی شاہ کو خلعت بھی عطاء ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوستو ! بچپن میں یہ قصہ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا تھا اور انہوں نے اپنے بڑوں سے۔ آج یہ اس لئے یاد آ گیا کہ اس کرونا وائرس میں بھی کوئی حکیم نافرمان لوگوں کو سنا مکی کے قہوے پینے کی نصیحت کر رہا ہے۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی اس قبض کشا جڑی بوٹی سے کرونا وائرس کو بھگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply