• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حجاز کی پہلی بندرگاہ “الشعیبہ”، اور ہجرت حبشہ کا پہلا قافلہ۔۔منصور ندیم

حجاز کی پہلی بندرگاہ “الشعیبہ”، اور ہجرت حبشہ کا پہلا قافلہ۔۔منصور ندیم

آج کا مغربی سعودی عرب اور حجاز کے تاریخی علاقہ تہامہ جو بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع ایک شہر ہے یہ اس وقت اہم تجارتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ علاوہ ازیں بحیرہ احمر کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی ہے، جو جدہ اسلامی بندرگاہ Jeddah Islamic Port کہلاتی ہے، یہ خطہ قبل مسیح سے انسانی زندگی کی تاریخ رکھتا ہے، قوم ثمود کے تاریخی آثار، یمن قبیلہ کے بنی قضاعہ اور کچھ مؤرخین کے مطابق 323 اور 356 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی جدہ میں آمد سے قبل یہ شہر آباد تھا۔ جدہ انباط دور میں بھی ایک اہم بندرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ جدہ میں قبل اسلامی دور کے مشربیہ بھی ملے ہیں۔

تاریخی مصادر سے پتا چلتا ہے کہ جدہ شہر کو امتیازی حیثیت تب حاصل ہوئی جب سنہء 647 میں خلیفہ سوئم حضرت عُثمان بن عفان کے دور میں بندرگاہ کو جدہ منتقل کیا گیا، خلیفہ عثمان بن عفان نے اسے مکہ حج اور زیارت کی بیت سے آنے والے زائرین کے لیے ایک بندرگاہ بنانے کا حکم دیا۔ اس سے قبل جدہ کے جنوب مغرب میں الشعیبہ بندرگاہ اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس سے پہلے زمانہ قبل از اسلام اور اوائل اسلام میں یہ مکہ المکرمہ کی اہم ترین بندرگاہ سمجھی جاتی تھی۔۔

سعودی عرب کے مغرب میں واقع تاریخی بندرگاہ الشعیبہ مکہ معظمہ سے جنوب میں 90 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ساحل سمندر پر فطرت کے حسین اور قدیم نظاروں کے ساتھ اس بندرگاہ کا جزیرہ گھنے درختوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کا شمار حجاز کی تاریخی بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ بندرگاہ بحیرہ احمر میں مچھلی کے شکار اور خوطہ خوری کے شوقین حضرات اور سیاحوں کے لیے خاص کشش رکھتی ہے۔

اس تاریخی بندرگاہ الشعیبہ کو ایک اور تاریخی مذہبی نسبت بھی حاصل ہے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اعلان نبوت کیا تھا اور شعب ابی طالب اور سفر طائف کی تکالیف سے واپس آئے تب بھی کفار نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کیے رکھا تھا تو حالات جب نا قابل برداشت حد تک پہنچ گئےتو رجب 45 ہجری عام الفیل (شہ نبوی ) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ:

لوخرجتم الی ارض الحبشتہ فان بھا ملکالایطیلم عندہ احد وھی ارض صد حتی یجعل اللہ لکم فرجام ما انتم فیہ۔

ترجمہ : اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبشہ چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھہرے رہو۔”

جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو اجازت دے دی تو   اس اجازت کے بعد ایک چھوٹا سا قافلہ گیارہ مردوں اور چار خواتین کا رات کی تاریکی میں نکلا ، اور بندر گاہ الشعیبہ کو روانہ ہو گیا۔ اس مختصر قافلے کے سردار حضرت عثمانؓ بن عفان تھے ۔ جس جگہ آج کل جدہ ہے اس وقت اس کے گرد ونواح میں دو بستیاں ماش اور راکب تھیں اور ان کے بیچ میں ساحل سمندر پر الشعیبہ بندرگاہ تھی۔ اس بندر گاہ پر ایک اشرفی یا نصف اشرفی کرائے پر ایک کشتی میں یہ سب لوگ سوار ہوئے اور حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی آمد پر اہلِ حبشہ نے کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا‘ کیونکہ حبشہ میں لوگوں کی آمدورفت بسلسلہ سیاحت و تجارت جاری رہتی تھی۔ ان مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کرکے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو اپنا امیر مقرر کیا۔ ہجرت کرنے والے صحابہ کو قریش نے پکڑنے کی بھی کوشش کی‘ مگر ان کے ساحل پر پہنچنے سے قبل کشتی روانہ ہوچکی تھی۔ ابن سعد کے مطابق ایک نہیں‘ بلکہ دو کشتیوں میں سوار ہو کر یہ صحابہ حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔

حوالہ: (طبقات ابن سعد‘ ج۱‘ ص۲۰۳-۲۰۴)

اس سفر میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہا کی اہلیہ سیدہ رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سفر کے لیے فرمایا تھا کہ :
حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے۔ جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ہے۔

حبشہ کی طرف ہجرت دو بار ہوئی تھی، پہلی ہجرت سمندری راستے سے بندرگاہ کے ذریعے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے اور پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی، دوسرے قافلے کے امیر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی بھائی جعفر ابن طیار رضی اللہ تعالی عنہ کی سرکردگی میں نکلے تھے، یہاں تک کہ 83 مرد اور 18 خواتین اور 7 غیر قریشی مسلمان بھی حبشہ میں جمع ہو گئے اور مکے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف 40 افراد رہ گئے۔

حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا، مکہ کے کافر بھی اس کے پاس تحفے تحائف لے کر گئے اور جا کر کہا کہ ان لوگوں کو جو ہمارے ملک سے بھاگ کر آئے ہیں ہمارے سپرد کر دیا جائے۔ مسلمان دربار میں بلائے گئے ، تب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاذ بھائی جعفر طیارؓ نے دربار میں تقریر کی تھی، بادشاہ نے وہ تقریر سن کر مکہ کے کافروں کو دربار سے نکلوا دیا۔ اور مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔

اس بندرگاہ الشعیبہ کو بعد میں حضرت عثمان بن عفان کے سفر کے قصے سے منسوب تاریخی روایات میں یاد رکھا گیا، بلکہ جدہ میں اس قدیم بندرگاہ کو آج ایک قدیم تاریخی اور سیاحتی مرکز کے طور پر مقبول حیثیت حاصل ہے۔ جدہ سوسائٹی آف کلچر اینڈ آرٹس کے چیئرمین کے مطابق “یہ بندرگاہ سمندری غوطہ خوروں کے لیے لطف اٹھانے کا پسندیدہ مقام ہے۔ اس کے علاوہ یہاں آنے والے سیاح اس کی قدرتی خوبصورتی سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور یہاں پر موجود ایک پرانے اور ٹوٹے ہوئے جہاز کی یادگاری تصاویر ضرور بناتے ہیں۔”

یہاں الفہد نامی بحری جہاز 32 سال سے کھڑا ہے۔ لوگ اس کی تصاویر لینے کے ساتھ اس کے یہاں پر رکنے کے راز جاننے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ الشعیبہ بندرگاہ بحری جہازوں کے قبرستان کے طور پر بھی مشہور ہے۔ یہاں پر ناکارہ ہونے والے جہاز لائے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی یہاں تین ایسے جہاز موجود ہیں جو اب صرف سیاحوں کی فوٹو گرافی کے لیے بچ گئے ہیں۔ اس بندرگاہ کے آس پاس کا حصہ بہت سرسبز اور شاداب ہے، اسی لیے یہاں پر سیاحت کے لئے بہت مقبول ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : یہ انہی جہازوں اور قدیم بندرگاہ کی تصاویر ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply