غلامی۔۔قاضی محمد حارث

میں Global Slavery Indexہوں ،اورغلامی کے عالمی انڈیکس کے مطابق غلام و ہ انسان ہے جس کے حقوق سلب کر لئے گئے ہوں ۔اسے کسی دوسرے انسان کی ملکیت سمجھا جائے جیسے جانور یا کوئی مشین ہوتی ہے ۔ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ مگر باقائدہ ایک نظام کے تحت انسانوں سے ان کی آزادی کے حقوق کو چھین لینا انسانوں کے وضع کردہ غلامی کے نظام کی وجہ سے ہے۔اگرچہ جانوروں کو بھی ہانکا جاتا ہے لیکن انسان کے گلے میں بندھی رسی کا دوسرا سِرا کسی انسان ہی کے ہاتھ میں ہو یہ منظر آسمان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے اور اس کی بولی لگانے والا انسان ہی تھا اور انسانی آقاؤں کی نسلوں کے ساتھ ان کے غلام بھی غلام ابن غلام ہی رہتے رہے۔

وجوہات:

بنیادی وجہ غربت ، جہالت اور کمزور ہونا تھا۔جنگ کی صورت میں فاتح فوج مفتوح فوج کے سپاہیوں کو غلام بنا لیتی تھی۔مذہب کو بھی اس سلسلہ میں بہت استعمال کیا گیا۔مذہب میں جب لوگ عقیدت کی انتہا کو پہنچ جائیں تو خود بخود غلام بن جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پیروں یا مذہبی پیشواؤں کی بغیر سوچے سمجھے ہر بات مانتے جاتے ہیں اور ان کو باور کروایا جاتا ہے کہ پیر یا مذہبی پیشوا کی بات نہ ماننا بہت بڑا گناہ ہو گا۔اس لِئے لوگ اس غلامی کے طوق میں بہت خوش ہوتے ہیں۔مذہبی پیشوا اپنے پیروکاروں کے ذہنوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔کرنل ڈین کے مطابق ذہن کو کنٹرول کرکے آسانی کے ساتھ غلام بنایا جا سکتا ہے کیونکہ آزاد ذہن غلامی قبول نہیں کرتا ۔

تاریخ سے دوری :

انگریزی کہاوت ہے کہ “تاریخ ایک ہتھیار ہے ۔”لوگوں کو تاریخ سے دور کرکے دفاع کو کمزور کیا جاتا ہے۔تاریخ مسخ کرکے پڑھائی جاتی ہے۔انہیں یہ باورکروایا جاتا ہے کہ لڑنا جھگڑنا بری بات ہے اور خاموشی سے بات مان لینے میں ہی بہتری ہے، اگلی نسل کو جدید ریسرچ اور جدید علوم سے دور رکھا جاتا ہے۔علم سے دوری غلامی پر مہر ثبت کرتی ہے۔

سیاسی نظریات سے بھٹکانا:

جس ملک کو توڑنا مقصود ہو اسکی حکومت میں ایسے لوگ داخل کرنا یا تلاش کرنا جو بک جائیں ،فوج پر الزام تراشی کرکے اس کا مورال گرایا جاتا ہے۔جیسے میر جعفر نے سراج الدولہ اور میر صادق نے سلطان ٹیپو کے ساتھ کیا اور انگریزوں کو فتح کا موقع دیا۔اور ہندوستان190سال تک غلامی کے دور میں چلا گیا۔

حب الوطنی ختم کرنا:

قوم کو متحد رکھنے میں سب سے اہم ثقافت اور زبان ہے۔ جس ملک کو توڑنا مقصود ہو اس ملک میں عام رائج زبان کو سرکاری زبان نہیں بننے دیا جاتا ۔

معیشت پر حاوی ہونا:

لوگوں کو غلام بنانے کے لئے ضروری ہےکہ معیشت کو کمزور کیا جائے۔اس کے لئے غیر پیداواری منصوبے شروع کرنے کے لئے اپنی شرائط پر قرضے دیئَے جاتے ہیں ، جن کو ادا کرنے کے لئے ٹیکس بڑھایا جاتا ہے۔جب ملک پر قرضہ بڑھ جائے تو کرنسی کی قوت خرید گر جاتی ہے اور معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔عوام غریب ہو جاتے ہیں اور غریبوں کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے۔اس طرح عوام کی زندگی کے اہم معاملات پر کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے۔

غلامی کی ابتدا:

خیال کیا جاتا ہے کہ غلامی کی ابتدا اس وقت ہوئی ہو گی جب اقتصادی اضافہ ہوا اور آبادی بڑھی۔ اس کی زیادہ ضرورت زرعت کے بڑھنے کے ساتھ بڑی۔ایک اندازے کے مطابق اسکی ابتدا گیارہ ہزار سال پہلے ہوئی ہو گی ۔اگر اس کو صحیح نہ بھی مانا جائے تو پھر بھی قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بطور غلام بیچنے اور خریدنے کا بیان ہے ۔جیسا کہ سورۃ یوسف آیت۔{20،21،22:12میں اس کا ذکر ہے ۔”اور اتنے میں ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے آدمی کوبھیجا اور اس نے باؤلی پر جا کر اپنا ڈول ڈالا اور جب اسے باؤلی میں ایک لڑکا نظر آیا تو اس نے قافلہ والوں سے کہا ،اے قافلہ والو، لو خوشخبری سنو اور دیکھو مجھے یہ لڑکا ملا ہے اور انہوں نے اسے ایک تجارتی مال سمجھتے ہوئے چھپا لیا”۔ ” اور اس کے بعد جب برادران یوسف کو یوسف کے پکڑے جانے کا علم ہوا تو انہوں نے اسے اپنا غلام بتاکرتھوڑی سی قیمت کے بدلے  ان کے پاس فروخت کر دیا”۔” اور مصر کے باشندوں میں سے جس نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہاکہ اس کی رہا ئش کی جگہ با عزت بنا”۔ ظاہر کرتا ہے کہ غلامی کی تاریخ کم از کم چار ہزار سال پرانی ہے۔اور اس زمانے میں انسانوں کو بطور غلام بیچنے اور خریدے کے لئے منڈیاں لگتی تھیں اور غلاموں کی بولی لگتی تھی۔
پھر فرعون نے بنی اسرئیل کو ایک لمبے عرصہ تک غلام بنائے رکھا۔ جیسا کہ سورۃ الشعراء آیت 23میں ذکر ہے۔” کیا یہ احسان تم مجھے یاد دلاتے ہو کہ بنی اسرائیل کو ایک لمبے عرصہ تک تم نے غلام بنائے رکھا”۔ فرعون نے بنی اسرئیل کو غلام بنا کر رکھاہوا تھا اور وہ ان پر طرح طرح کے ظلم کرتا تھا جیسے کہ سورۃ البقرہ آیت49 ” ہم نے تمہارے آباء کو فرعون کے سخت عذاب سے بچایا جو تمہارے بیٹوں کو قتل کردیتا تھا اور تمہاری عورتوں کو چھوڑ دیتا تھا”۔ اور سورۃ الاعراف آیت ۱7:141میں ہے ” اے بنی اسرئیل کے لوگو اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے بچایا جو تمہارے بیٹے قتل کر دیتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے”۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ طاقتور قومیں کمزور پوری قوم کو غلام بنا لیتی تھیں اور ان سے بیگار لیتیں اور محنت طلب کام کرواتیں جیسے فرعون نے بنی اسرئیل سے کھیتوں میں کام لیا اور ان سے اہرام مصر بنوائے ۔اور بنی اسرئیل کو ایک لمبے عرصہ تک غلام بنائے رکھا۔تاآنکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور بادہشاہت نے انہیں غلامی سے نجات دلائی۔

غلامی کی شکلیں:۔
1۔ جنگ میں پکڑے جانے والے قیدی خواہ وہ مرد ہوں  یا عورتیں۔
2۔اغواء  کر کے یا لوٹ مار کرکے غلام بنانا۔ جیسے خرکار کیمپوں میں کام کرنے والے۔
3۔ غلام کی اولاد کو پیدائشی غلام بنانا اور ان کو ورثہ میں بانٹنا اور منتقل کرنا۔
4۔ کسی شخص کو اس کی مرضی یا اس کے گھر والوں کی مرضی یابااثرلوگوں کی مرضی سے رقم یا فائدے یا ہرجانے یا قرض کے عوض غلام بنانا۔جیسے اینٹوں کے بھٹوں یا کھیتوں میں کام کرنے والے۔یا وہ عورتیں٘ جن کا نکاح پیسوں کے عوض کر دیا جائے۔
5۔اجتماعی غلام بنانا یا طاقتور قوم کا کمزور قوم کو غلام بنانا جیسے فرعون نے بنی اسرئیل کو غلام بنائے رکھا۔
6۔ مارشل لاء کے تحت زندگی گزارنے والے جیسے کئی ملکوں میں فوج اقتدار سنبھال لیتی ہے اور ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں ختم کر دیتی ہے۔
7۔ مذہبی یا نسلی اقلیتیں اور نیچ ذات سمجھے جانے والے افراد جیسے ہندو ازم میں شودر۔
8۔ دینی مدرسوں اور جامعات کے بچے ۔ ان کی برین واشنگ ہوتی ہے اور ان کو فارغ ہونے کے بعد دین کے نام پر بس اتنا معاوضہ دیا جاتا ہے کہ جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے۔ یہ پیروں اور مذہبی رہنماؤں کے غلام ہوتے ہیں جو خود اس رقم میں جو ان بچوں کو دی جاتی ہے ہرگز گزارہ نہیں کر تے۔
9۔ خاندانی اور سوسائٹی کے نظام میں جکڑے ہوئے ۔جیسے بعض سوسائیٹیوں میں اختلاف رائے یا سربراہ کا حکم نہ ماننے پر ان کو علاقہ بدر کر دیا جاتا ہے یا ان سے مقاطع کر دیا جاتا ہے جس کے خوف سے لوگ بول نہیں سکتے۔
10۔ شہروں میں بھیک مانگنے والے یہ لوگ بھی کسی طاقتور گروہ کے غلام ہوتے ہیں جو ان کی باقاعدہ نگرانی کرتے ہیں۔

مذہبی پہلو سے غلا می کاتصور۔
ہندو ازم میں ” داسا یا داسی”کا پرانی ہندو ٹیکسٹ میں آسان مطلب ” غلام یا لونڈی ” ہے۔ آر ایس شرما نےبھی داسی کو لونڈی ہی قرار دیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ داسی لونڈی کا متبادل ہے۔ہندو ازم میں شودر سب سے نچلی ذات سمجھی جاتی ہے اور ان کی حیثیت غلاموں جیسی ہے۔ویدک دور کے اختتام پر ورما کا آغاز ہوا ۔ اس میں شودر کہلائے جانے والے لوگ داسا کا متبادل بنے۔شودروں سے محنت طلب کام لیا جاتا اور کھیتوں میں کام کروایا جاتا یہ کسی مذہبی اجتماع میں شامل نہ ہو سکتے تھے بلکہ مقدس وید کے اشلوک بھی نہ سن سکتے تھے ۔ ان سے غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا اور ان کی بستیاں الگ ہوتیں۔

بدھ ازم میں بھی غلامی کا تصور ملتا ہے۔جیسے ڈیوڈ اسٹیڈ نے ” امایاداسا ” کا ترجمہ پیدائشی غلام کیا ہے۔ ” کلا داسا ” خریدا ہو غلام اور “اماتا داسا” نیچ پن کی انتہا۔مختصر یہ پرانی ٹیکسٹ کے مطابق داسا کا مطلب غلام ہے۔ آر ایس شرما کے مطابق جو قرض ادا نہ سکتا اسے غلام بنا لیا جاتااور غلام اور مقروض کو خانقاہ یا عبادت گاہ میں جانے کی اجازت نہ تھی۔البتہ بدھ شہنشساہ اشوک نے پہلی بار غلامی پر پابندی لگائی۔

روم اور یونان میں غلامی:

رومی تہذیب ایک قدیم تہذیب رہی ہے۔ کسی زمانے میں رومی تہذیب کا بڑا نام تھا۔لیکن وہاں بھی غلامی اپنی بد ترین شکل میں رہی اور اس لحاظ سے رومی تہذیب ننگ انسانیت ہے۔سلطنت روم میں غلاموں کو کئی کئی دن بھوکے درندوں کے سامنے ڈال دیا جاتا اور اس غلام کی چیڑ پھاڑ کا تماشا کرتے اور نظارہ کرنے والے کہتے آج تو بڑا مزا آیا۔غلاموں کے آقا تفریح طبع کے لئے غلاموں کے دو گروہوں کو تلواروں ، نیزے، تیر وغیرہ دے کر ایک آدمی سیٹی بجاتا اور دونوں گروہ باہم دست و گریباں ہو جاتے ایک دوسرے کو زخمی کرتے چیخ و پکار سنتےاور آقا لطف اندوز ہوتے۔ باقاعدہ غلاموں کی منڈیاں لگتیں اور غلام کی قیمت ان کی صحت ،عمر اور فن کے حساب سے لگتی جبکہ لونڈیوں کی قیت انکی جوانی اور حسن کے حساب سے۔آقا کو غلام پر مکمل حقوق حاصل تھے۔ غلام دوسری جائِیداد کی طرح آقا کی وفات کے بعد اولاد کے حصہ میں آتے۔غلام اپنے آقا کی مرضی کے بغیر اپنے عقائد تبدیل نہ کر سکتا تھا۔لونڈیاں عیاشی کے لئے ہوتیں اور ان کی اولاد کو ابتدائی عمر میں ہی فروخت کر دیاجاتا۔ ایسابھی ہوتا کہ کسی قبیلے کے پاس غلاموں کی تعداد کم پڑ جاتی تو وہ کمزور قبیلہ پر حملہ کر دیتا اور ان کے افراد کو رسیوں میں باندھ کر لے آتے۔یہی حال یونان میں بھی تھا۔ یہاں غلامی کا عام رواج تھا اور اینتھنز میں ہر شہری کے پاس کم از کم ایک غلام ضرور ہوتا تھا۔

سقراط کے پیروکاروں نے پہلی بار غلامی کی مذمت کی ۔
شریعت موسوی کے مطابق توریت میں انسانی حقوق سے متعلق جو قوانین بیان ہوئے تھے ان کا اطلاق سلطنت اسرئیل کی حدود میں رہنے والے تمام باشندوں پرہوتا ۔ کتاب احبار آیت 10:34۔ لیکن بعد میں تمام انسانی حقوق کوعبرانیوں کے لئے مخصوص کرلیا اور دوسروں کو جنٹا ئیل یا پردیسی ، غیر قوم قرار دے کر ان کے استحصال کی اجازت دے دی۔ جیسے ” تمہارے غلام اور کنیزیں ان قوموں  میں ہوں جو تمہارے اردگرد رہتی ہیں ۔ انہی سے تم غلام اور لونڈیاں خریدا کرنا” اشتثنا باب 25″اور انہیں میراث کے طور پر اپنی اولاد کے نام کرسکتے ہو اور انہیں عمر بھر کے لئے غلام بنا سکتے ہو “۔استثنا باب 25 بعد میں غلاموں سے متعلق قوانین میں ترامیم اور اضافے لئے گئے۔

نارتھ امریکہ میں غلامی۔
افریقی غلاموں کا پہلا جہاز اگست 1619 میں غلاموں کو لیکرورجینیا میں لنگر انداز ہواتھا یہ دور تقریبا ًدو سو سال جاری رہا۔اسداللہ خالد کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست رہوڈ آئی لینڈ غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا۔ یہ غلام افریقی ممالک سے لائے جاتے تھے ۔پرتگالی بھی افریقی غلاموں کی تجارت میں ملوث رہے اور ایسا بھی ہوتا کہ پرتگالی جہاز سے زبردستی غلام چھین کر امریکہ لائے جاتے۔ نارتھ امریکہ میں غلاموں سے کھیتوں میں کام لیا جاتا ، سڑکیں اور ریلوے میں ان کو لگایا جاتااور دوسرے محنت طلب کام ان سے لئے جاتے۔شمالی امریکہ کی تعمیر میں اصل کام سیاہ فارم غلاموں سے لیا گیا۔آج یہ حال ہے کہ سیاہ فام مقامی آبادی کا واضع اقلیتی حصہ ہیں لیکن یہ لوگ انتہائی خستہ حالت میں خستہ حال عمارتوں میں رہتے ہیں اور ہر جگہ گندگی نظر آتی ہے۔گو قانونی طور پر غلامی ختم ہوئے سو ڈیڑھ سال گزر چکے ہیں مگر سماجی حقیقت آج بھی غلامی کی آئینہ دار ہے۔سیاہ فام علاقوں میں سکولوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ملازمتوں میں ان کا تناسب کم ہے اور ملازمت میں ان کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے اور رنگ و نسل کی بنا پر سیاہ فارم لوگوں سے آج بھی غلاموں جیسا برتاؤ  کیا جاتا ہے۔غلاموں کی تجارت میں مسلمانوں کا دامن بھی داغدار ہے۔یہ بھی غلاموں کی تجارت میں ملوث رہے۔اور اسی طرح اس حیقیقت سے بھی آنکھیں چرانا مشکل ہے کہ آئرش اور یورپ کے دوسرے سفید فام بھی غلاموں بنا کر شمالی امریکہ لائے گئے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلامی کے نظام میں صرف رنگ اور نسل کی بات نہیں بلکہ غلامی ایک استحصالی نظام ہے جس کی تاریخ بہت اندوناک ہے۔

امریکہ کی خانہ جنگی کی اہم وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ افریقی غلاموں پر ریاستوں کا اختلاف رائےتھا ۔ شمالی ریاستیں غلاموں کو آزاد کر دینا چاہتی تھیں جبکہ جنوبی ریاستوں کی معیشت کادارو مدار غلاموں کی بھاری مشقت پر تھا یہ غلامی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی تھیں ۔ یہ امریکہ کی تاریخ کی خونی ترین جنگ تھی جس میں چھ لاکھ بیس ہزار کے قریب امریکی سپاہی اور ایک بہت بڑی عوام کی تعداد ہلاک ہوئی۔جنگ میں شمالی ریاستوں کو ابراہام لنکن کی قیادت میں فتح ہوئی اور ابرہام لنکن نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا۔

اسلام میں غلامی کا تصور۔
اسلام کسی آزاد کو خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو غلام بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔اسلام صرف ان کو غلام مانتا ہے جو جنگ میں قیدی بنیں ۔ مرد قیدی غلام ہوں گے اور عورتیں باندیاں۔اسلام غلاموں کو ان کے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اسلام میں غلامی قوم ، رنگ، نسل کی بنا پر نہیں بلکہ بعض حالات میں غلام یا ان کی اولاد اعلیٰ عہدوں پر فائزرہے اسلام میں غلام کی قدر و منزلت وہی ہے جو ایک آزاد کی۔

قرآن کریم کی تعلیم ۔
قرآن میں غلامی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اس میں واضع طورپر بیان ہوا ہے کہ کسی آزاد فرد کو غلام نہیں بنایا جا سکتا اور جو جنگی قیدی بن کر آئیں ان کو آزاد کرنے کی مختلف صورتوں کی وضاحت کی اور ترغیب دی کہ ایسے غلاموں کو آزاد کر دیا جائے ۔ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں ۔

1: بطور احسان آزاد کرنا۔
2:مکاتبہ کرنا ، یہ مالک اور غلام کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہے ۔ جس کے مطابق غلام کو اپنے مالک کو مقررہ میعاد کے اندر مقررہ رقم جو مالک اور غلام کے درمیان طے پا جائے ادا کرنا ہوتی ہے۔ جس کے بعد وہ آزاد ہو گا ۔
3:مسلمان بچوں کو علم سے آراستہ کرنا یعنی ان کو پڑھا نا۔جیسے جنگ بدر کے قیدیوں سے کیا گیا۔

4: کسی مسلمان سے کوئی گنا ہ سرزد ہو جائے تو کفارہ کے طور پر غلام کا آزاد کرنا۔

قرآن میں متعدد جگہوں پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب اور حکم دیا گیا ہے ۔جیسے سورۃ البقرۃ آیت 177:2میں” ۔۔۔و فی الرقاب” کہہ کر غلام کو آزاد کرنا یا کروانا نیکی قرار دیاگیا ہے۔ سورۃ النور آیت 34:24میں ہے کہ ” اور چاہیئے کہ  وہ لوگ جن کو نکاح کی توفیق نہیں پاکیزگی اختیار کریں ۔۔۔۔اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کا مطالبہ کریں اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور ان کے پاس مال نہ ہو تو جو مال اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں سے کچھ مال دے کر ان کی آزادی ممکن بنا دواور تم اپنی لونڈیوں کو بد کاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ نیک رہنا چاہتی ہوں تاکہ تم اس ذریعہ سے دنیوی زندگی کا سامان جمع کرو اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اللہ ان عورتوں کی مجبوری کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔سورت البلد آیت۔ 11،12:90 میں غلام کی گردن آزاد کروانا چوٹی پر چڑھنا قرار دیا گیا ہے مراد بہت بڑی نیکی۔ غرض اسلام نے نہ صرف غلامی کی حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ غلاموں کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے اور غلاموں کے لئے بہت زیادہ آسانیاں پیدا کی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اتنی زیادہ ترغیبات اور موجودہ زمانے میں غلامی کے خلاف قوانین کے با وجود کسی نہ کسی شکل میں غلامی موجود رہی ہے خواہ وہ پیروں اور مذہبی پیشواؤں کے مریدوں کی بے پناہ عقیدت کی شکل میں ہو یا گھریلوں ملازمین کی شکل میں یا جاگیرداروں اور نوابوں کی ہاریوں اور ملازموں کی شکل میں۔ اصل بات یہ ہے کہ صدیوں نہیں ہزاروں سال پر محیط ایک بات کو یک سر ختم نہیں کیا جا سکتا ۔اس لئے اسلام اس کو تدریجاً ختم کرنےکی ترغیب دیتا ہے اور اس کا حل صرف وہی ہے جو قرآنی تعلیم میں ہی نظر آتا ہے کہ انسان اخلاقی طور پر اتنا بلند ہو جائے کہ کسی دوسرے انسان کو کسی بھی شکل میں غلام نہ بنائے اور اس کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھائے۔
نوٹ:۔ قرآن کریم کی آیات کے نمبر بسم اللہ سمیت ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply