انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس11)

آج کی مجلس میں دانش ور یوں گویا ہوا۔ابوالحسن، بیسویں صدی میں انسان کے فکر نے بہت ترقی کر لی۔کوئی میدان ایسا نہیں۔جس میں انسان نے حیران کن ترقی نہ کی ہو۔
ابوالحسن نے کہا۔دانش ور تم ٹھیک کہتے ہو۔مگر یہ سارے فلسفے انسان کی نفی کرتے ہیں۔یہ ترقی انسان دشمن ہے۔اس کا کیا حل ہے کہ انسان کو غلام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دانش ور ذرا سوچ اور دیکھ بیسویں صدی کے آغاز میں نطشے نے کہا۔خدا مر چکا ہے۔نطشے کا فوق البشر انسان کے احیا کی کوشش ہے۔ در حقیقت اسے کہنا چاہیے تھا۔انسان مر چکا ہے۔لیکن وہ انسان کی موت سے ڈر گیا۔ اگر انسان زندہ ہے تو فوق البشر کی کیا ضرورت ہے۔ دیکھ تحقیقات نے انسان کو نامعلوم قوتوں کا محتاج بنا دیا ہے۔اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ انسان کو کس طرح سدھایا جائے۔تاکہ مطلوبہ کردار حاصل ہو سکے۔دانش ور کیا یہ انسان کی تذلیل نہیں ہے۔
یہ ساختیات، جدیدیت، مابعد جدیدیت اور ایسے دیگر فلسفے انسان کی ذات کی نفی کرتے ہیں۔یہ بیسویں صدی کا المیہ ہے کہ اس کے فکر نے انسان کی نفی کی ہے۔دیکھ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ریاست کو مضبوط کیا ہے اور اداروں کو مضبوط کیا ہے۔ دانش ور کیا یہ درست نہیں اس ترقی نے انسان کو مار دیا ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں مسافر نے چلا چلا کر کہا انسان مر چکا ہے۔دانش ور، ہمیں اس صدی میں انسان کے احیا کی کوشش کرنا ہے۔
یہاں مجلس برخاست ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply