پاکستان کا ڈرائنگ روم

کسی زمانے میں لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا تھا۔ اس دفعہ میں اپنے محترم دوست انعام رانا سے ملاقات کے لئے لاہور گیا تو ویگن سے اترنے کے بعد ایک رکشے والے سے طے کیا کہ وہ مجھے اس مقام تک لے جائے جہاں انعام رانا سے ملاقات ہو سکے۔ راستے میں میں نے رکشے والے سے پوچھا کہ پنجاب کے خادمین اور شریفین نے پنجاب کا سارا پیسہ لاہور میں ہی لگا دیا ہے یہ زیادتی نہیں۔ رکشے والے نے ایک دم مڑ کر مجھے دیکھا اور کہا کہ آپ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ انھوں نے کیا زبردست کام کیا ہے۔ میں نے تفصیل جاننی چاہی تو اس نے بتلایا کہ ہر گھر میں ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ جہاں باہر سے آنے والے مہمانوں کو ٹہرایا جاتا ہے بٹھایا جاتا ہے پاکستان بھی ہمارا گھر ہے یہاں بھی باہر سے مہمان لوگ آتے ہیں ہمارے ملک میں بھی ایک ایسا ڈرائنگ روم ہونا چاہیئے جہاں باہر سے آنے والے مہمانوں کو ٹہرایا جا سکے۔ اور ان کو محسوس ہوسکے کہ وہ کس قدر زبردست ملک میں آئے ہیں۔ لاہور کو ایسا ہی ڈرائنگ روم بنایا جارہا ہے اگر اس عظیم مقصد کے لئے دوسرے شہروں اور علاقوں کو نظر انداز کرنا پڑا ہے تو کیا برا ہے۔ اب تو غریب سے غریب شخص بھی کوشش کرتا ہے کہ سونے والے، کھانا پکانے والا کمرہ خواہ کیسا ہو، گھر میں ایک ڈھنگ کا ڈرائنگ روم ضرور بنایا جائے اور وہ اپنی توفیق کے مطابق اور جتنا قرضہ لے سکتا ہے اس کے مطابق اپنے گھر میں ایک ڈرائنگ روم بناتا ہے یہی کام شریفین لاہور میں کر رہے ہیں وہ پاکستان کا ڈرائنگ روم بنا رہے ہیں مگر لوگوں کو اس بات کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہورہا۔
سچ یہ ہے کہ حکومت کی پوری میڈیا ٹیم مجھ کو یہ بات اس طریقے سے نہیں سمجھا سکتی تھی جس طریقے سے اس رکشے والے نے سمجھا دی کہ اب ہمارا ملک ایک زندہ ہستی نہیں جہاں ایک ڈھرکنے والا دل چاہیئے بلکہ یہ اہل دولت لوگوں کی کمین گاہ ہے جہاں باہر سے آنے والے مہمانوں کو متاثر کیا جاءے اور ان سے مزید قرضہ لیا جائے یا کاروبار یا تجارت کے ذریعے پیسے بنائیں جائیں

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply