مصباح بھائی! مڈل آرڈر بیٹنگ(قسط2)۔۔جنید منصور

مڈل آرڈر بیٹنگ ہمیشہ سے ہی  پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ایک دیرینہ کمزوری رہی ہے۔ مڈل آرڈر بیٹنگ کا آغاز ٹو ڈاؤن ہونے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے، جب نمبر تین اور نمبر چار بیٹسمین  کریز پر آ موجود ہوتے ہیں۔  اگر ہم ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو  ہمیں انفرادی حیثیت میں بعض عمدہ مڈل آرڈر بیٹسمین  نظر آ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر انضمام ا لحق، سلیم ملک، عبدل رزاق مگر مڈل آرڈر بیٹسمینوں کی کوئی عمدہ جوڑی یا ٹیم بالکل بھی نظر نہیں آتی ہے۔  خا ص طور پر جو بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ  ان بیٹسمینوں کے آؤٹ ہو جانے کے بعد ایسے میچز کی تعداد  انگلیوں پر گنی جا سکتی ہےجو کسی اور بیٹسمین یا بیٹسمینوں نے  پاکستان کے لیے  جیتے ہوں۔  موجودہ دور میں پاکستان میں مڈل آرڈر کا جو سب سے بہترین کھلاڑی نظر  آیا وہ گذشتہ چار سال میں شعیب ملک رہا۔ گذشتہ ساڑھے تین چار سالوں میں شعیب ملک نے مسلسل  اور لگاتار رنز سکور کیے۔مگر برصغیر سے باہر جیسا کہ  انگلینڈ، آسٹریلیا  یا ساؤتھ افریقہ میں اگر ہم شعیب ملک کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو وہ کوئی اتنا متاثر کن نظر نہیں آتا۔

مصباح بھائی ہماری بھی سنیں(حصّہ اوّل)۔۔جنید منصور

ایک بات جو انتہائی پریشان کُن ہے وہ مڈل آرڈر کی جانب سے سکور کی جانے والی  سینچریاں ہیں۔ مڈل آرڈر میں گذشتہ پانچ سالوں میں سب  سے کم سینچریاں پاکستانی بیٹسمینوں نے سکور کی ہیں۔ اور مڈل   آرڈر میں سب سے کم پچاس رنز کے سکور میں بھی  ہم صرف زمبابوے سے بہتر ہیں۔  نمبر چار کے بعد گذشتہ پانچ سالوں میں ہم نے شاذو نادر  ہی سینچری سکور کی ہے۔ کوئی  ایکسپشن تو ہو سکتی ہے ، مگر اس سلسلے میں کوئی باقاعدگی یا دوام نظر نہیں آتا۔  ہمارے مڈل آرڈر بیٹسمین عموماً  جدوجہد  کرتے ہی نظر آتے ہیں اور کسی ایک یا دو ایکسیپشن کو چھوڑ کر انھوں نے پاکستان کے لیے کبھی کوئی میچ نہیں جیتا۔ ہمیں ان مسائل کی وجوہات تلاش کرنی ہیں اور ان وجوہات سے چھٹکارا پانا ہے۔  ایک سادہ سی وجہ ہمارے کھلاڑیوں میں اپنی اننگز  بنانے کا فقدان ہے۔نمبر چار سے لے کر نمبر سات تک کوئی بھی بیٹسمین آ کر وکٹ پر کھڑے ہونے کی کوشش ہی نہیں کرتا ہے۔ بڑی شاٹ مار نہیں پاتے ، سنگل ان کے لیے لینی مشکل ہوتی ہیں ۔ نتیجہ جب رن ریٹ ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوتا ہے تو بجائے میچ بنانے کے مخالف ٹیم کو اپنی وکٹ عطیہ کر کے چلتے بنتے ہیں اور نیا آنے والا کھلاڑی زیادہ پریشر میں آتا ہے۔

سٹرائیک ریٹ   پاکستانی بیٹسمینوں کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔  ہمارے بیشتر مڈل  آرڈر کا سٹرائیک ریٹ انتہائی کم ہے۔ فی زمانہ  کم از کم  سٹرائیک ریٹ بھی۱۰۰  فی صد ہے۔   شروع میں آپ اپنا وقت لے سکتے ہیں، مگر بیس سے تیس گیندیں  کھیلنے کے بعد  بھی اگر سٹرائیک ریٹ  پچاس یا ساٹھ فی صد ہو تو  آپ ٹیم کے لیے مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔ اور ابتدا میں سنگلز لینے کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ  اپنی  اننگز کے  آغاز سے ہی ہمارے پلیئرز چوکے اور چھکے  مارنے کے عادی نہیں ہیں۔ سٹرائیک روٹیٹ کرنے سے  سکور بورڈ کا پریشر  سر پر سوار نہیں ہوتا۔  مگرہمارے اکثر  مڈل آرڈر کھلاڑی اپنی  اننگز کے آغاز میں   نہ ہی  چوکے چھکے لگاپا تے ہیں اور نہ ہی سنگل لے کر  سٹرائیک روٹیٹ کر پاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ سکور بورڈ کے پریشر اور تیز رنز سکور کرنے کے  اضافی دباؤ میں نکلتا ہے۔ ذرا تصور کریں ایک  ایسا میچ جس میں ہماری  ٹیم نے  ابتدا سے ہی آٹھ کی ایورج سے  رنز بنانے ہیں۔ ایسا میچ ہم ہمیشہ اس لیے ہار جاتے ہیں کیونکہ  اگر آغاز اچھا مل بھی جائے تو بھی مڈل آرڈر بیٹسمین   اتنی  گیندیں ضائع کر دیتے ہیں کہ رن ریٹ بارہ یا اس سے زیادہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد ایک کے بعد ایک  وکٹ گرتی جاتی ہے اور ہر نیا آنے والا  کھلاڑی  اپنی وکٹ بچانے کی کوشش میں  اس رن ریٹ کو مزید اوپر لے جاتا ہے۔

ان سب مسائل کی ایک بنیادی  وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کھلاڑی بہت زیادہ ڈاٹ بالز کھیلتے ہیں۔ شائد دنیا میں سب سے زیادہ ڈاٹ بال  کھیلنے میں ہم سب سے آگے ہیں۔نمبر چار کے بعد سے پاوور ہٹنگ کا سلسلہ شروع ہو جانا چاہیئے۔ یا پھر  بیٹنگ نمبر کوئی بھی ہو، تیسویں اوور کے بعد   کم از کم نو کی اوسط سے رنز بننے چاہییں۔ اس کا مطلب ہے کہ  آخری بیس اوورز میں کم از کم  ایک سو اسی رنز۔  اس کا مطلب ہے کہ ہر اوور میں ایک چوکا یا چھکا اور دو سے چار  سنگلز۔کیا ہمارے ٹیم ایسا کر پاتی ہے ، جواب ہے عموماً  نہیں۔ وجہ پاوور ہٹنگ کی کمی ۔ پاوور ہٹنگ سے مراد بڑے شاٹ کھیلنے کی صلاحیت  یا سادہ سے  الفاظ میں  چوکا ، چھکا مارنے کی صلاحیت۔ اس کی صلاحیت بارے گذشتہ کالم میں بات کی تھی۔ مگر یہاں اس  بات کو ملحوظ خاطر  رکھنا ہو گا کہ  نمبر ایک سے نمبر آٹھ تک پاوور ہٹنگ سب  کو  آنی چاہیے تاکہ  اگر کچھ بالز ڈاٹ بھی کھیل لی جائیں اور وکٹ پر سیٹ ہونے کا وقت حاصل کر لیا جائے تو  بعد میں پاوور ہٹنگ کے ذریعے اپنے اور اپنی ٹیم کے رن ریٹ کو  تیز سے تیز تر کیا جا سکے۔ان سب باتوں کا ایک اور  سادہ سا حل ہے کہ ہمارے کھلاڑی ہر اوور میں ایک چوکا لگائیں۔ دوسرے حل کے مطابق ون ڈے میں پچاس اوورز میں کم از کم  پچاس  چوکے لگائے جائیں اور سو سنگلز اور پچیس ڈبلز کیے جائیں۔ ایک اور حل یہ ہے کہ  ٹاپ آرڈر کا ہر کھلاڑی  کم از کم آٹھ سے  دس چوکے لگائے۔ ٹی ٹوینٹی میں  کم از کم تیس چوکے لگائے جائیں۔یا ہر کھلاڑی کم از کم  چھ باؤنڈری شاٹز کھیلے۔ اس ساری چیز کا تعلق پریکٹس اور سمیولیشن سے ہے۔

کالم کی طوالت کے پیش نظر  میں اس گفتگو کو یہیں سمیٹتا ہوں۔  ابھی ہماری بیٹنگ کے حوالے سے کچھ مزید عرضداشتیں  ہیں جو آنیوالے دنوں میں پیش کروں گا۔ ٹیسٹ کے حوالے سے گفتگو اس سے ہٹ کر کروں گا۔  اگلے کالم میں فی ا لحال  بالنگ کے حوالے سے بات کروں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply