مخالفت سے اختلاف کیجیے۔۔حافظ صفوان محمد

یہ میٹرک کی چھٹیوں کا زمانہ تھا جب جنرل ضیاء والا ریفرنڈم ہوا۔ اس سے کچھ دن پہلے ابو جان مجھے پہلی بار رائے ونڈ لے کر گئے۔ ہم پہنچے تو عصر کی نماز کھڑی ہونے والی تھی۔ چھوٹی مسجد سے گزر کر بیرون والی گیلری کے نیچے صف میں جگہ ملی۔ نماز شروع ہوئی تو میرے دائیں جانب ایک لمبا تڑنگا حبشی تھا اور بائیں جانب ایک شامی یا ایرانی۔ دائیں والے صاحب سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور بائیں جانب والے محترم ہاتھ چھوڑے ہوئے۔ چار کی چار رکعتوں میں میں یہی سوچتا رہا کہ سینے پہ ہاتھ باندھنے والا بغیر وضو کے نماز پڑھ رہا ہے اور بائیں جانب والا تو خیر ویسے ہی کافر ہے۔ امام صاحب کے، جن کا بعد میں معلوم ہوا کہ حافظ سلیمان صاحب ہیں، بارے میں بھی شدید برے خیالات آتے رہے کہ یہ کیسا بے حمیت انسان ہے کہ مسجد میں بے وضو اور کافروں کے آنے پر اسے کوئی تکلیف نہیں ہے۔

خیر، آخری التحیات میں بیٹھے بیٹھے دل میں ایک کوندا لپکا کہ میرے دائیں اور بائیں تو کفار ہیں لیکن یہ مولوی ٹھیک ہے کیونکہ اس کے پیچھے ہر طرح کے نمازی نماز پڑھ رہے ہیں۔

نماز ختم ہوئی تو بابو بشیر صاحب کا نام سنا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ بابو بشیر صاحب بیان کر رہے ہیں یا مشورہ کر رہے ہیں۔ ابو جان نے مجھے بیان میں بٹھایا اور خود کچھ دوستوں کے ساتھ غالبًا مشورے والوں کے پاس چلے گئے۔

شاید دو راتیں رائے ونڈ میں رہے۔ واپسی پر ابو جان کے ساتھ موجود لوگوں میں یہ بات ہو رہی تھی کہ رائے ونڈ والوں نے جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں ووٹ دینے کو انفرادی عمل قرار دیا ہے کہ جس نے ووٹ دینا ہے دے جسے نہیں دینا نہ دے۔

اس سے پہلے ابو جان زور شور سے ووٹ دینے کو شرعًا غلط کہتے تھے اور اپنی گواہی کسی کو دینے اور آخرت کا عذاب سر پہ آنے کی باتیں کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ شدت ان میں کم ہوتی گئی۔

اس دن رائے ونڈ والوں کے اس فیصلے پر کہ ووٹ دینا انفرادی عمل ہے یعنی تبلیغی جماعت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں، مجھے کئی سال بعد احساس ہوا کہ esprit de corps کیا ہوتا ہے: آپ سیاسی اختلاف رکھتے ہوئے بھی جماعت کے اندر رہ سکتے ہیں۔ وقت گزرتا رہا تو یہ بات سمجھ آئی کہ جنابِ علی کا جنابِ ابوبکر و عمر کی بیعت نہ کرنا اسپری ڈی کور کی مخالفت نہیں ہے، اور بیعت نہ کرنے والا (یعنی سیاسی اختلاف رکھنے والا) پوری آزادی کے ساتھ اور پورے انسانی حقوق لیتے ہوئے اسلامی نظمِ حکومت میں رہ سکتا ہے۔

رائے ونڈ کے بزرگوں میں کئی مسالک کے لوگ ہیں، اور میں نے ان کو ایک دوسرے کا احترام اور لحاظ کرتے پایا ہے۔ مثلًا ایک بار ہم ڈاکٹر مظہر محمود قریشی صاحب کے گھر میں نماز پڑھ رہے تھے تو قریشی صاحب نے رفع الیدین کیا۔ قریشی صاحب کے ساتھ ایک بار بھائی سلطان صاحب کے ہاں لاہور جانا ہوا تو ان کے گھر میں نماز پڑھتے ہوئے قریشی صاحب نے رفع الیدین نہیں کیا۔ قریشی صاحب ہی کے ساتھ ایک بار جناب محمد مسیح الزماں کے کمرے میں نماز پڑھی تو سبھی نے رفع الیدین کیا۔ راول پنڈی میں زکریا مسجد میں قریشی صاحب اور ڈاکٹر محمد نواز صاحب کے ساتھ مغرب پڑھی تو کسی نے رفع الیدین نہیں کیا۔

وہاڑی میں ایک بار دادا جان کی قبر پر ابو جان اور تایا جان ساجد صدیق صاحب کے ساتھ جانا ہوا۔ تایا جان نے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی۔ ابو جان نے ہاتھ نہیں اٹھائے۔ چنانچہ مجھے کسی فتوے کی ضرورت نہیں ہے کہ صاحبِ قبر کے لیے دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے چاہییں یا نہیں۔

ایک بڑے جنرل صاحب جو الحمدللہ ڈاڑھی نہیں رکھتے تھے، کے بیٹ مین نے مجھے بتایا کہ وہ ان کی شیو کے لیے پانی گرم کرتا ہے۔ بیٹ مین نے تبلیغی جماعت کے ساتھ چار مہینے لگا رکھے تھے۔

ڈاکٹر مظہر محمود قریشی صاحب ہی نے اپنے ایک تبلیغی سفر کی کارگزاری سنائی کہ غالبًا برازیل میں تبلیغ کا کام پھیلا (ملک کا نام بھول رہا ہوں)۔ ان کی جماعت میں حنفی علمائے کرام موجود تھے لیکن وہاں معلوم ہوا کہ عوام زیادہ تر شافعی مسلک پر ہے۔ جماعت والوں نے فوراً نماز اور دیگر عبادات کے طریقے سکھانا موقوف کیا اور شافعی مسلک کے علما کو متوجہ کرکے ان کے ذریعے عوام میں عبادات کے طریقوں کے چلن کی محنت کی۔ ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ تبلیغ کا کام نبی کریم کی فکر و جذبہ پھیلانا ہے نہ کہ دیوبندی یا حنفی مسلک۔

آمدم برسرِ مطلب۔ میں نے کوشش کرکے یہی مزاج بنایا ہے کہ مجھے کسی کے سیاسی یا مذہبی قبلے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں پکا نونیا ہوں اور میری سیاسی نماز کا قبلہ مریم اور اس کے ابو ہیں لیکن میں نے کسی کو ایمان بالنواز شریف یا ایمان بالمریم کی دعوت نہیں دی۔ جسے خدا ہدایت دے گا وہ خود ہی مریم کا کلمہ پڑھے گا۔ ہدایت خدا کے ہاتھ ہے۔ میرے زیادہ تر دوست ن لیگ کے نہیں ہیں۔ میں نے کبھی کسی کو کسی سیاسی جماعت کی وجہ سے دور نہیں کیا۔ میرے احباب میں جماعتِ اسلامی سے لے کر لبیکیے تک شامل ہیں۔

مجھے کسی کی ڈاڑھی ٹوپی یا دوپٹے ننگے سر بازوؤوں سے غرض نہیں، اور نہ مجھے اس سے غرض ہے کہ کوئی کس سٹائل کی نماز پڑھتا ہے، یا نماز پڑھتا بھی ہے یا نہیں۔ کپڑا پہننا یا ننگے پھرنا آپ کی اپنی پسند ہے اور نماز کا اجر دینا یا لپیٹ کر منہ پہ مار دینا خدا کا کام ہے۔ میرا اس میں کیا جاتا ہے؟ جو شخص اذان سن کر یعنی خدا کے منادی کی آواز سن کر خدا کے گھر نہیں جاتا اسے میرا یا کسی کا نماز کے لیے کہنا کس قدر واہیات بات ہے۔

خدا کی مخلوق کے کام آئیے اور اس سے اخلاق والا معاملہ کیجیے۔ یہی لوگ ہیں جو آپ کے ساتھ نہ صرف مسجد جائیں گے بلکہ تبلیغی گشت بھی کرائیں گے۔ میرے بیسیوں شیعہ دوست اور کئی احمدی احباب رائے ونڈ بھی تشریف لاتے ہیں اور مقامی تبلیغی مراکز میں بھی۔ یہاں میں کسی کو اپنے سٹائل کی نماز پڑھنے کی دعوت نہیں دیتا اور نہ بستر اٹھاکر جماعت میں نکلنے کی۔ جس کا دل پھرنا ہوگا خدمت سے پھرے گا۔ نبی کریم نے لوگوں کو کھانے پر بلایا تھا نہ کہ نماز پڑھائی تھی۔ انتہیٰ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply