کشمیری عوام کے لیے۔۔آغر ندیم سحر

میں پچھلے تین روز سے باغ آزاد جموں کشمیر میں ہوں اورکشمیر کی خوبصورت فضاؤں اور چشموں کی طرح صاف شفاف لوگوں کی محبت اورمیزبانی لطف اندوز ہو رہا ہوں۔باغ آزاد کشمیر کا انتہائی پرفضا مقام ہے جس کی آبادی تقریبا پینتیس ہزار جبکہ رقبہ سات سو ستر مربع کلومیٹرہے جو ہمیشہ سے سیاحوں کا توجہ کا مرکز رہا۔اس کے شمال میں جہلم ویلی(ہٹیاں بالا) او رمظفر آباداور جنوب میں پونچھ ہے۔باغ کے قرب و جوار میں حاجی پیر سیکٹر،لسڈنہ،سدھن گلی اورگنگا چوٹی جیسے بنیادی اور خوبصورت سیاحتی مقام موجود ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی چھوٹے چھوٹے درجنوں ایسے سیاحتی مقامات ہیں جو ہمہ وقت سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔میں ۳۱۰۲ء میں پہلی دفعہ باغ آیا تھا جب یہاں کی ادبی تنظیم”طلوعِ ادب“نے میرے ساتھ ایک شعری و ادبی شام کا اہتما م کیا تھا اور گورنمنٹ ڈگری کالج باغ سمیت مختلف نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں مختلف سیشنز میں شریک ہوا تھا جن کا بنیادی موضوع یوتھ ایمپاورمنٹ تھا۔ سات دن کا وہ ٹور اتنا مصروف رہا کہ کسی بھی سیاحتی مقام پہ نہ جا سکا کیونکہ مجھے یہاں سے ملتان اور کراچی کا سفر اختیار کرنا تھا۔اب کے بار میں کسی تقریب یا پروگرام میں شرکت کی بجائے صرف دوستوں سے ملاقات اور سیاحت کے مقصد سے آیا ہوں جس کا سارا کریڈیٹ میرے دوستوں پروفیسر شرافت حسین اور رمیض راجہ کو جاتا ہے جنہوں نے لاک ڈون کے باوجود مجھے یہ سفر اختیار کرنے پر مجبورکیا۔یہ سفر میرے لیے اس لیے بھی اہم تھا کہ میری برسوں سے خواہش تھی کہ آزاد کشمیر کے لوگوں سے ملا جائے اوران سے مسئلہ کشمیر جانا جائے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے کیا چاہتے ہیں کیونکہ کشمیری عوام ہی کشمیر کا مسئلہ سب سے زیادہ بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے درجنوں بار عمران خان سے کہا کہ مجھے ایک دفعہ اجازت دیں اور اقوامِ متحدہ میں نمائندگی دلوائیں،میں دیکھتا ہوں یہ مسئلہ کیسے حل نہیں ہوتا مگر افسوس ہم پچھلے ایک سال سے انڈیا کو محض یہ کہہ کر مسئلہ کشمیر حل کر رہے ہیں کہ ہمارے صبر کو آزمایا نہ جائے اور اگر ہم زیادہ غصے میں ہوں تو انڈین سفیر دفترِ خارجہ طلبی کر کے غم و غصے سے بھرپور مراسلہ تھمادیتا ہے۔اس مراسلے کا انڈیا پر اتنا شدید اثر ہوتا ہے کہ وہ کرفیو مزید سخت کر دیتے ہیں اور لائن آف کنٹرول پر بھر پور کاروائی کرتے ہیں۔
کیا مسئلہ کشمیر کا حل کھوکھلے بیان،دفترِ خارجہ کا غصہ یا چند گھنٹے سڑکیں بلاک کر نا ہے یا ہم مزید کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے؟یہ وہ اہم سوا ترین سوال ہے جو کشمیری عوام ہم سے پچھلے ایک سال سے کر رہے ہیں یعنی پانچ اگست کو کشمیر میں کرفیو کو ایک سال ہو جائے گا اور اگر ہم اس ایک سال کا اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے کشمیر کے لیے دھواں دار تقاریر اور ٹویٹس کے علاوہ کیا نیا تیر مارا ہے تو یقینا شرمندگی ہوگی۔کشمیر کی نوجوان نسل اپنے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکر مند اور افسردہ ہے۔آزاد کشمیر میں بہت سے خاندان ایسے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار مقبوضہ کشمیر میں رہتا ہے۔نیلم ویلی میں اکثر لوگ اپنے تعلق داروں سے دریا ئے نیلم کی دوسری طرف ہوکر ملتے ہیں۔کشمیر کا مسئلہ محض ایک زمین کے ٹکڑے کامعاملہ نہیں ہے بلکہ اس میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے مستقبل اور ان کی سیاسی و ثقافتی شناخت اور بقا کی جنگ ہے۔تقسیمِ ہند سے ہزاروں سال پہلے کرۂ ارض پرکشمیر ایک الگ اور خود مختار ریاست کا وجود رکھتا تھااور ریاست جموں کشمیر کے پرچم کے آثار 530عیسوی کے ملتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ریاست کتنی قدیم ہے اور دوسری اہم بات یہ اس ریاست پرکبھی بھی کسی اورکا تسلط نہیں رہا۔ 1847ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ایک معاہدے کے تحت کشمیر کی حکومت 75ہزار نانک شاہی میں لی،ریاست جموں کشمیر کا آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔تقسیمِ ہند کے وقت باقی ریاستوں کی طرح مہاراجہ ہری سنگھ کو بھی یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا پھر ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لے اوردوسری صورت میں خودمختار ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھے۔اس سے پہلے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کسی فیصلہ کن نتیجے پرپہنچتا،قبائلیوں کا موجودہ آزاد کشمیر پرحملہ اور بھاتی فوج کا سری نگر میں اتر جانا اس مسئلے کو الجھا گیا۔جب یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں پہنچا،انہوں نے سب سے پہلے جنگ بندی کروائی اور ایک معاہدہ ہوا جس کے تین بنیادی نکات تھے۔پہلے تو یہ کہا گیا کہ دونوں ممالک کی فوجیں جہاں پر موجود ہیں،و ہ اس سے آگے نہیں بڑھیں گی اور ساتھ ہی اس لائن کو ”سیز فائر لائن“کانام دے دیا گیا۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک اپنی افواج کشمیر سے نکالیں گے اورریفرنڈم ہو گا جس میں کشمیری اپنے مستقبل (الحاق یا خود مختاری)کا فیصلہ خود کریں گے۔1965ء میں بھٹو نے شملہ معاہدہ میں ”سیز فائر لائن“کو”لائن آف کنٹرول“کا نام دیا اور دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ ہم ایک دوسرے کی زمینوں اور پوسٹوں پر قبضہ نہیں کریں اور اگر ایسا ہوا تو دونوں فریق واپس کرنے کے مجاز ہوں گے۔معاہدہ کراچی کے ذریعے گلگت بلتستان کا انتظام آزاد حکومت نے پاکستان کو دے دیا اور اب صورت حال یہ ہے جموں، ویلی اورلداخ بھارت کے قبضے میں ہیں اور باقی چار ہزار مربع میل رقبے پر ایک آزاد حکومت ”آزاد کشمیر“قائم ہے۔اب یہ مسئلہ الگ سے اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا کشمیری ایک الگ ریاست چاہتے ہیں یا پھر ہندوستان کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے خواہش مند ہیں۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تین طرح کا نقطہ نظر موجود ہے۔یاسین ملک کیجماعت خود مختاری کی جدوجہد کر رہی ہے،علی گیلانی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ہیں جبکہ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے جو کہ کرفیو کے بعد ان کا نقطہ نظر واضح طور پر تبدیل ہوا۔آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس الحاقِ پاکستان کی سب سے بڑی حمایتی جماعت ہے جبکہ دیگر جماعتیں خود مختاری کی خواہش مند ہیں جس میں توقیر گیلانی اور سردار صغیر کی جماعتیں سرِفہرست ہیں۔حقیقت تو تبھی سامنے آ سکتی ہے جب پورے کشمیر میں آزاد ریفرنڈم ہو اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ یہی اس مسئلے کا واحد اور بہترین حل ہے اور اگر ہم یہ نہ کر سکے تو شاید ہم کشمیر ی عوام کے لیے نعروں،تقریروں،احتجاج اور ٹویٹس کے علاوہ شاید کبھی کچھ نہ کر سکیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply