• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک کلو میٹر ڈرائیونگ پر ایک کوڑے کا سامنا۔اسد مفتی

ایک کلو میٹر ڈرائیونگ پر ایک کوڑے کا سامنا۔اسد مفتی

سعودی حکومت کی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے شاہی فرمان کے بعد اس خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سے گاڑی بلانے والی کمپنی”ایپس”کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی،لیکن کمپنی کے مالک کے مطابق یہ فیصلہ ان کے لیے خوش آئند ہے،حکومت کے حالیہ فیصلے سے لاکھوں خواتین گاڑی چلانے کے قابل ہوجائیں گی،اور حکومت اربوں ڈالر ز کی بچت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ملک میں آنے والی اس تبدیلی کا سہرا سعودی عرب کے 32 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سر کیا جا رہا ہے۔ جو روایتی طور پر ایک قدامت پسند ملک میں خود کو جدت پسند کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ شاہی حکم 24جون2018سے نافذ العمل ہوگا۔اب تک سعودیہ عرب میں صرف مردوں کو ہی گاڑی چلانے کے لائسنس ملتے تھے۔ اور جو خواتین عوامی مقامات پر گاڑی چلاتے پکڑی جاتی تھیں انہیں جرمانے اور سزا کا سامنا کرنا پڑ تا تھا، سعودی مملکت میں 1990سے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ہے، یہ پابندی قانون کا حصہ نہیں تھی، تاہم مشرقی او راسلامی تہذیبی طور پر سعودی عرب میں اس عمل کی اجازت نہیں تھی، کافی عرصہ سے سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن خواتین کی ڈرائیونگ کی اجازت کے لیے کوشاں ہیں،کئی لگاتار مہمات کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ اب معاشرے کا چلن تبدیل ہورہا ہے،اب عوام “رعایا”نہیں رہے اور اب اسلامی معاشرے کے مرد بھی بڑی تعداد میں اس پابندی کے خاتمے کے حق میں ہیں۔

سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں مرد وعورت کا مخلوط ماحول میں اٹھنا بیٹھنا معیوب سمجھا جاتا ہے ،وہاں کئی خواتین نامحرم مرد ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے سے کتراتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ماہرین کو خڈشہ تھا کہ گاڑیاں چلانے والی ایپ کریم اس فیصلے سے متاثر ہوگی،کہ اس کی بیشتر صارفین خواتین ہیں۔لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لاکھ خواتین کو نوکری فراہم کریں گے۔ان مقاصد اور فیصلے کے حصول کے لیے سعودی خواتین نے کیا کیا پاپڑ بیلے ،آئیے ایک جھلک دیکھتے ہیں۔۔۔

سعودی عرب میں ایک خاتون کو ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر 10کوڑوں کی سزا اور ایک خاتون کو کار چلانے کے الزام پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ خاتون کو جولائی میں گاڑی چلانے کے ” جرم” میں پکڑا گیا تھا۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عدالت نے جرم ثابت ہونے پر دس کوڑوں کی سزا سنائی،جبکہ ریاض ہی میں سماجی کارکن مدیحہ العجرش نامی خاتون کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے فوراً حراست میں لے لیا گیا۔سزا پانے والی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ گھر سے اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے کے لیے گئی تھی کہ پولیس نے اسے دھر لیا۔یاد رہے کہ گھر سے اسکول کا فاصلہ دس کلو میٹر کا ہے،چابت ہوا کہ سعودی خواتین کو ایک کلو میٹر ڈرائیونگ پر ایک کوڑے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سعودی عرب میں عورت کار نہیں چلا سکتی لیکن ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ سکتی ہے، کچھ لوگ ایسا سیریس مذاق کرتے ہیں کہ ان کے سامنے تو ہنس پڑتا ہوں لیکن گھر جاکر رونا پڑتا ہے۔ایک دوسری خبر کے مطابق سعودی عورب میں مردوں کو شار شادیوں کی اجازت ہونے کے باوجود ملک میں غیر شادی شدہ عورتوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے، لگ بھگ ایک کروڑ خواتین میں سے صرف 29 لاکھ خواتین شادی شدہ ہیں۔ جبکہ30سال تک کی وہ خواتین جن کی شادی کی عمر گزر چکی ہے ان کی تعداد20 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جو 29لاکھ خواتین شادی شدہ ہیں ان کی اکثریت مکہ مکرمہ اور ریاض میں ہے۔مرحوم والی سعودی عرب شاہ عبداللہ بن عزیز نے سعودی خواتین کو حق رائے دہی کے علاوہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی جو کہ ایک مثبت اقدام ہے۔ شاہ سعودی عرب کے اعلان کے مطابق خواتین مجلسِ شوریٰ کونسل میں تقرر کو حق بھی حاصل ہوگا اور یہ حق اسلامی بنیادوں پر مبنی ہے۔

ایک عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو غیر سعودی خواتین سے شادی پر پابندی کا بل منظور کر لیا ہے جس کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ ریال جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، سعودی مجلس شوریٰ نے یہ اقدام ان غیر سعودی خواتین کی جانب سے شہریت دیے جانے کے معاملات کے بعد اٹھایا ہے، جن کے شوہر خود تو سعودی عرب میں مقیم ہیں لیکن ان کی منکوحہ عورتیں دوسرے ممالک میں ہیں،ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ سعودی عرب ان کی اولاد کو بھی سعودی شہریت دے، نئے مسودے میں یہ لچک رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی سعودی مرد وخواتین خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں شادی کرسکتا ہے لیکن کونسل کے باہر شادی کرنے والے سعودی مرد و عورت کو ایک لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہوگا، سعودی مجلس شوریٰ نے سعودی نوجوانوں کو بیرونی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کے خلاف جو قانون وضع کیاہے ان کا ندیشہ ہے کہ مملکت میں کئی سعودی نوجوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہوئی ہیں ،اس کے علاوہ غیر ملکی خواتین و لڑکیوں کے ساتھ شادیوں کے نتیجے میں کئی سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں، ان مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان شادیوں پر پابند لگائی جائے ۔انسانی حقوق کی سوسائٹی کے صدر صالح التقلان نے ایک یورپین چینل کو بتایا کہ سعودی حکومت بیرون یا غیر ملکی خواتین کیساتھ شادی کے معاملات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی غیر ملکی بیویوں کو مملکت میں داخلے کی اجازت دیتی ہے،

ماہر سماجیات عبدالعزیر الغریب جو الامام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی شادیوں سے سعودی عرب میں مہلک امراض جیسے ایڈز،ہیپاٹائٹس وغیرہ کی وبائیں پھیل رہی ہیں ،ایسے جوڑوں سے پیدا ہونے والے بچے بھی جان لیوا امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔سعودی عرب میں سیاسی آزادی اور عورتوں کے حقوق کافی حد تک محدود ہیں،موجودہ حکومت تعلیم اور معاشی میدان میں اصلاحات کرنے پہ کافی زور دے رہی ہے۔،سعودی حکمران مرحوم شاہ عبداللہ نے 2010میں فتویٰ جاری کرنے کے لیے حکومت کے مقررکردہ علمائے دین کو ہی اختیارد ینے کا جو اعلان کیا تھا اس کے پس پشت دراصل ان قدامت پسند علماٗ کو لگام دینے کا جذبہ کارفرما ہے جو ملک میں سیاسی سماجی و معاشی اصلاحات میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، شاہ عبداللہ تعلیمی و سیاسی میدا ن میں جو انقلابی تبدیلیاں لانا چاہ رہے ہیں اس سے اور کچھ فوائد حاصل ہوں یا نہ ہوں تیل گیس اور پٹرول کے وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا اور جدید ٹیکنالوجی اپنانے سے بیروزگار وں کے لیے روزگار کے وسائل دستیاب ہوں گے۔

شاہ عبداللہ نے2011میں مملکت کے مفتی اعظم کو یہ ہدایات جاری کی تھی کہ صرف 20ممتاز علما دین پر مشتمل کمیٹی کے ممبران کو ہی فتویٰ دینے کا مجاز سمجھا جائے۔ورنہ اس سے قبل قدامت پسند علما ملک میں سماجی تعلیمی اور سیاسی اصطلاح میں رکوٹیں ڈالتے رہتے تھے۔ اس حکم نامے کے بعد بالخصوص تعلیم کے میدان میں اصلاحات کرنے میں کافی مد د ملے گی۔ سعودی عرب میں ابھی بھی وہابی فکر کے لوگوں کا غلبہ ہے یہ طبقہ نہ صرف مذہبی امور میں بلکہ عدلیہ اور تعلیم کے میدان میں بھی مداخلت کرتا رہتا تھا اور گزشتہ تین دہائیوں سے ان علما دین کی طرف سے دئیے گئے فتوؤں سے کافی تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے تھے،ایسے فتوے بھی سامنے آئے جس میں ایک سیٹلائٹ چینل کے مالک کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

جہاں ایک طرف شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزنے خواتین کو حْ رائے دہی کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کااعلان کیا تھا، وہاں خواتین کو مرد حضرات کی طرح مجلس شوریٰ میں شامل ہونے کا بھی حق حاصل ہوگا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مجلس شوریٰ کے ارکان منتخب نہیں ہوتے،دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح ان کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے، یادوسرے لفظوں میں نامزد کیاجاتا ہے،اب سے خواتین بھی اس نامزدگی کی حقدار ہوں گی۔

ایک ایسے ملک میں جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے اور خواتین آج بھی کار ڈرائیو نہیں کرسکتیں ،والدین کی اجازت کے بغیر ملازمت،سفر یا شادی نہیں کرسکتیں،وہاں انہیں ووٹ کا حق دیا جانا بظاہر  سیاست یا مصلحت نظر آتا ہے،شایدمرحوم شاہ عبداللہ نے اس غیر متوقع اقدام کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی بیداری کا رخ ایک دوسری سمت موڑنے کی بھرپور کوشش کی ہےایک ایسی لڑائی کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے جواس فیصلے میں لڑی جارہی ہے یا لڑی جانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس فیصلے سے نہ صرف خواتین کے لیے مزید تبدیلیوں کی راہ کھلے گی بلکہ شاہی خاندان اور علما کے درمیان بھی تعلقات کی نوعیت بھی دوسرا رخ اختیار کرے گی، شاہ سلمان کے اعلانات کے فوری بعد علما کرام اور خواتین کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے،خواتین کو مردوں کے مساوی ووٹ دینے کا حق ایک ایساقدم ہے جس کا خواتین نے خیر مقدم کیا ہے،جس سے قدم قدم پر سعودی معاشرے میں مردوں کا دست نگر اور ماتحتی میں زندگی گزارنا پڑتی ہے،ان کے خیال میں عورتوں کے حق میں یہ تبدیلیاں ترقی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

2003میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے جو خود کو “اصلاح پسند”سمجھتے تھے،ایک خاتون کو نائب وزیر بنا یا تھا۔(جیسے آدمی دنیا میں خدا کا نائب ہے)اور انہیں عورتوں کی تعلیم کا شعبہ سونپا گیا تھا،لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سعودی عرب میں اب تک کسی عورت کو کابینہ کے درجے کا وزیر نہیں بنایا گیا۔کسی عورت کو کسی ملک (اسلامی ملک میں بھی نہیں)میں سفیر بھی مقرر نہیں کیا گیا۔
میرے حساب سے عرب دنیا بدل رہی ہے،سارا نقشہ تبدیل ہورہا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تبدیلی آئے۔اب عرب باشندے محض”رعایا”اور ہاتھ اٹھانے والے”پیروکار “نہیں رہے دنیائے عرب کے ہر دارالحکومت میں ایک “تحریر چوک”وجود میں آرہا ہے۔اس لیے اب ضروری ہے کہ عرب شہریوں کے ساتھ بین الاقوامی معیار ہی کے مطابق سلوک کیا جائے،نہ کہ شرعی معیار کے مطابق کہ میرے حساب سے اسلام میں علم کی شرعی اور غیر شرعی تقسیم کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply