کال صرف مطلوبہ شخص تک کیسے پہنچتی ہے؟ ۔۔۔ پرویز بزدار


ہم سب کے پاس مختلف موبائل فونز ہیں مگر سب میں ایک چیز مشترک ہے کہ اس کے ذریعے کسی دوسرے نمبر پر کال کر سکتے ہیں۔ ہماری بات ایک دوسرے سے کیسے ہوتی ہے، کیا آپ نے کبھی سوچا ؟ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب ہم اپنے موبائل فون سے بات کرتے ہیں تو موبائل کا مائیکروفون ہماری آواز کو سنتا ہے۔ مائیکروفون ہماری آواز کو کچھ سینسرز اورسرکٹس کی مدد سے ڈیجیٹل سگنلز میں تبدیل کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سگنلز میں ہماری آواز زیروز اور ونز کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ موبائل کے اندر کا سرکٹ ان زیروز اور ونز کو موبائل کے اندر موجود انٹینا کے ذریعےلہروں کی شکل میں ٹرانمسٹ کرتا ہے۔ اب جس بھی موبائل کے پاس یہ لہریں پہنچ جائیں وہ ہماری آواز سن سکے گا۔ اب یہاں دو سوال ہیں پہلی بات یہ کہ یہ لہریں کسی دوسرے شخص تک کیسے پہنچائی جائیں اور پھر کسی اور کی بجائے اسی شخص کو پہنچائی جائیں جو ہمیں مطلوب ہے۔

موبائل کے اینٹینا سے نکلنے والی لہریں بہت کم فاصلہ طے کر سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راستے میں موجود مکانوں اور درختوں وغیرہ سے ٹکرا کریہ لہریں اپنی توانائی کھو دیتے ہیں ۔ اگر یہ مسائل نہ بھی ہوتے تو یہ لہریں زمیں گول ہونے کی وجہ سے زیادہ فاصلہ نہیں طے کر پاتے اور خود بخود کسی دوسرے شخص تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے سیلولر ٹیکنالوجی کو دریافت کیا گیا ۔ سیلو لر ٹیکنالوجی میں زمین کو چھوٹے چھوٹے سیلز (ڈبوں) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر سیل کا اپنا سیلولر ٹاور ہوتا ہے اور اس کی ایک مخصوص فریکونسی ہوتی ہے۔ اور پھر سیلولر ٹاورز آپس میں عموما” آپٹیکل کیبلز کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ آپٹیکل فائبرزملک کے اندر زمین کے نیچے اور دوسرے ملکوں کے درمیان سمندر کے اندر پچھائی جاتی ہیں۔ تاروں کے اس جال کی وجہ سے دنیا کے سب ٹاور آپس میں کنکٹ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے موبائل کی بھیجی گئی لہریں ہمارےقریب ترین سیل ٹاور تک پہنچتے ہیں اور وہ ٹاور ان کو ہائی فریکونسی لائٹ پلسز میں تبدیل کرتا ہے تاکہ وہ آپٹیکل فائبر میں سفر کر سکیں۔ یہ لائٹ پلسز ٹاور کے بیس سٹیشن میں پراسس ہوتے ہیں اور پھر مطلوبہ شخص کے سیل ٹاور کی طرف بھیج دیے جاتے ہیں۔ وہ سیل ٹاور ان لائٹ پلسز کو دوبارہ لہروں کی شکل میں تبدیل کرکے مطلوبہ شخص کی طرف بھیج دیتا ہے۔ اور پھر دوسرے شخص کا موبائل ان سگنلز کو دیجٹل سگنل میں تبدیل کرتا ہے اور پھر سپیکر کے ذریعے آواز سن سکتا ہے۔

مگر وہ اہم سوال ہے تو ابھی بھی باقی ہے کہ ہمارا سیل ٹاور مطلوبہ شخص کے سیل ٹاور کا سراغ کیسے لگا لیتا ہے؟ مطلوبہ شخص تک پہنچنے کےلیے سیل ٹاور اپنے علاقے کے موبائل سوئچنگ سینٹر (ایم ایس سی) سے ہیلپ لیتا ہے۔ ایم ایس ای سیل ٹاورز کے ایک گروپ کا سینٹرل پواؤنٹ ( مرکزی نقطہ ) ہوتا ہے۔ جب ہم سم کارڈ خریدتے ہیں تو اس وقت ہمارے سم کارڈ کو ایک ایم ایس سی اسائن کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارا ہوم ایم ایس ای کہلاتا ہے۔ ہماری ساری انفارمیشن جیسا کہ پیکج ، بیلنس اور لوکیشن وغیرہ ہوم ایم ایس ای میں محفوظ ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے ہوم ایم ایس ای کے ایریا سے نکلتے ہیں تو ہمارا ہوم ایم ایس ہمیں اسی علاقے کے ایم ایس سی کے حوالے کرتا ہےوہ فارن ایم ایس سی کہلاتا ہے۔ یہ فارن ایم ایس سی مسلسل ہمارے بارے میں ہمارے ہوم ایم ایس سی سے رابطے میں رہتا ہے اور یوں ہم اپنے ہوم ایم ایس کی نظروں سے کبھی بھی اوجھل نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں تک رہی بات کہ کال صرف وہی بندہ ہی سن سکتا ہے جسے ہم سنانا چاہتے ہیں تو اس کےلیے ہر سم کو ایک مختلف فریکونسی دی جاتی ہے۔ جس طرح ٹی وی یا ریڈیو پر ایک فریکونسی پر صرف ایک ہی چینل آ سکتا ہے اسی طرح ہر سم میں صرف ایک ہی فریکونسی کے سگنل آ سکتے ہیں۔ اتنے لوگوں میں فریکونسی اسائنمنٹ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ پہلےہر سیل ایریا کو ایک خاص فریکونسی دی جاتی ہے اور پھر اس فریکونسی کویوزرز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دراصل یہی فریکونسی کی تقسیم کے طریقوں میں تبدیلی کرکے ہی ہم ٹو جی سے تھری جی فورجی اور فائیو جی تک پہنچ رہے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر پرویز بزدار
مضمون نگار نے کائسٹ جنوبی کوریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کر رکھی ہے اور اب جنوبی کوریا میں مقیم ہیں۔ وہ موبائل اور کمپیوٹر کے پروسیسرز بنانے میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو استعمال کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply